اتحاد قوم کے لیے ضروری

کسی سے کچھ سیکھنے بلکہ سب سے آگے نکل جانے کے بجائے تعصب کرنے لگے ہر کوئی کافر یا مسلم ، مگر انسان ہرگز نہیں رہا۔


نجمہ عالم March 01, 2019
[email protected]

SRINAGAR, INDIA: بھارتی جارحیت کے بعد سے ملکی سیاسی صورتحال کافی بدل گئی ، اب تک ہمارا طرز حکمرانی قومی مفاد کے بجائے ذاتی قسم کا رہا ہے۔ ابتدائی چار پانچ برسوں کے علاوہ تمام حکمران قیام پاکستان کے مقاصد کی بجائے اپنے ذاتی ایجنڈے پر عمل پیرا رہے، پسماندہ ممالک عالمی سطح پر بہت آگے نہ سہی مگر ہم سے پہلے اور ہزار درجہ بہتر صورت میں کرہ ارض پر اپنا مقام بنا چکے۔

قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصے تو لگا کے ملک آگے بڑھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے ، مگر حکمران جو بھی کام کرتے خارجی یا داخلی سطح پر ، ان معاہدوں کے نقاط کبھی بھی عوام کے سامنے نہ آ سکے۔ امداد آتی رہی ،کاسہ گدائی کا حجم بڑھتا گیا اور غربت میں کمی آنے اور ترقی تو کجا جو کچھ تھا ، اس کے مقابلے میں بھی پستی کی طرف مائل ہوتا گیا، بلا خوف و تردد یہ کہنے میں ذرا بھی عار نہیں کہ ضیاء الحق کا دور ہماری تاریخ کا بدترین دور ہے، جس نے قوم سے آگے بڑھنے کی لگن بھی چھین لی۔

اس دوران جو مذہبی انتہا پسندی ارادتا پیدا کی گئی اس نے ہمیں ساری دنیا سے کاٹ کر دہشتگردی کا شکار بنا دیا اور انتہا پسندی کا طوق ہماری گردن میں ڈال دیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ترقی زمانہ کا ساتھ دینے والے دین کی شکل کو ہی مسخ کردیا گیا۔

اسلام کے نام پر ہم ہر ایک کے مخالف بن گئے،کسی سے کچھ سیکھنے بلکہ سب سے آگے نکل جانے کے بجائے تعصب کرنے لگے ہر کوئی کافر یا مسلم ، مگر انسان ہرگز نہیں رہا، یہ وبا اس بری طرح عام ہوئی کہ لوگ اصل اسلام اور اصل شریعت سے ہی ناواقف ہوتے گئے، فرقوں اور ٹکڑوں میں بٹ کر، کوئی عورت کو قیدی بنا کر ، تو کوئی اونچی شلوار اور لمبی ڈاڑھی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے بجائے دینی مدارس کا صدیوں پرانا نصاب پڑھنے کو اسلام سمجھنے لگا۔ شریعت میں ہر روز نئے نئے نکات کا اضافہ کرنا ہی دینی خدمت قرار پایا۔

اسوہ حسنہ کا ذکر بہت مگر حقیقی مطالعہ برائے نام بھی نہیں، ہم نے مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے ساتھ ہیں جو رویے اختیار کیے تو غیر مسلموں کے لیے تو ایسے میں دل میں کیا گنجائش پیدا ہوتی/ اب اگر ہم یہ کہیں کہ ذرا سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایک نظر ڈال لیں۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے تمام غیر مسلموں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا کبھی کوئی حکم یا اشارہ فرمایا تھا تو ہم قابل گردن زدنی قرار پائیں، چونکہ ماحول ہی ایسا بنا دیا گیا ہے کہ کوئی اگر غور و فکر کی دعوت دے تو وہی دین کا مجرم قرار پائے گا۔

جس قوم و ملت کی خواتین اپنے دین اور حقوق دونوں سے ناواقف رکھی جائیں تو بھلا وہ اپنی آغوش میں پلنے والوں کو کیا تربیت دیں گی ۔ مسلم خواتین کا کردار حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت فاطمہ الزہرا سے بڑھ کر کہاں نظر آئے گا ۔ حضرت فاطمۃ الزہرا کی آغوش کے پروردہ حسن و حسین یعنی سبطین رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور زینب و کلثوم جیسی بیٹیاں تاریخ عالم کی دلیر ہجری خواتین جنہوں نے باطل کے بت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پاش پاش کر دیا۔

نہ کسی دولت اور طاقت سے مرعوب ہوئیں نہ حق سے دستبردار ، کیونکہ ان کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول تھا اور اللہ سے اتنی محبت اتنا عشق کہ اس کے راہ میں گھر بار قربان کر دیا کیونکہ کچھ بھی اللہ سے بڑھ کر نہیں، جب ایمان اس منزل پر ہو یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے، ہر شے جو ہمیں میسر ہے وہ اللہ کی عطا اور اس کی امانت ہے اب اگر ایمان اس منزلیں یقین پر ہوں تو پھر کوئی حکمران یا اعلیٰ عہدے دار کسی کا حق غصب کیسے کر سکتا ہے۔ مسلم تو وہ ہے جو غلط کام کرنے کا ارادہ بھی کرے تو رک جائے کہ میرا رب دل کے راز سے بھی واقف ہے ۔

ابتدا سے آج تک مگر ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ تمام اہل اقتدار شاہی طرز زندگی بسر کر رہے ہیں ملک اور ملک سے باہر دولت اور جائیداد کے مالک ہیں جب کہ انھیں تخت حکومت تک پہنچانے والے عوام بھوکے سوتے ہیں اور بغیر علاج و معالجے کے مٹی کا رزق بن رہے ہیں ۔ شفاخانہ ہیں مگر طبیب اور دوائی ندارد۔ یہ رونا تو بہت اور کئی بار رویا جا چکا ہے بلکہ شاعر ایسی ہی صورتحال پر کہہ چکا ہے کہ

رونے والوں سے کہو ان کا بھی رونا رو لیں

جن کو دو روز کے فاقوں نے بھی رونے نہ دیا

ایک چراغ امید پھر ہوا تو ہے روشن ، مگر حالت یہ ہے کہ جیسے سب ہمارے ملک کو بنانے سنوارنے پر کمربستہ ہیں مگر کن شرائط پر یہ بنانے والے جانیں یا بنوانے والے، عوام بیچارے تو صورتحال سے ہمیشہ لاعلم رہیں گے، یہ تو طے ہے کہ بنانے والے اپنے مفاد کے بغیر تو کچھ کرنے سے رہے یہ تو جب یہ جائیں گے تو آنے والے بتائیں گے ۔ جیسے یہ اپنے سے پہلے والوں کے بارے میں روز نیا انکشاف کرتے ہیں، نئے حکمرانوں کو ناکام کرنے کے لیے کیا کیا کچھ نہیں کیا گیا جس کو مختصرا یوں کہا جا سکتا ہے کہ ملک کا جو حال ہو، مگر ہمارے لیے جو صورت حال پیدا ہو گئی ہے وہ ٹھہر جائے یعنی خود کو بچانے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے، مگر فی الحال جو صورتحال رونما ہوئی ہے اس نے سب کی حب الوطنی کو بیدار کر دیا ہے۔

سب ملکی دفاع کے لیے یکجا ہو گئے ہیں یعنی ہمارے قومی اتحاد کے لیے کوئی نہ کوئی ہوا کھڑا ہونا چاہیے۔ بھارت کا مکر و فریب تو کھل کر سامنے آ گیا ہے، مگر ہم ملکی دفاع کے لیے یکجا اور متحد ہو گئے ہیں، اللہ اس جذبے کو برقرار رکھیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں