عدالت نے ملزمان کو فائدہ پہنچانے پر تفتیشی افسر کو شوکاز نوٹس جاری کردیا

تفتیشی افسرنے مدعی اوراغواکاروں کے موبائل ڈیٹاکواہمیت نہیں دی،کال سننے والے مغوی کے والدکابیان نہیں لیا گیا


ناصر بٹ March 01, 2019
استغاثہ اور پولیس کی ناقص کارکردگی سے اغواکے ملزمان باآسانی بری ہوگئے۔ فوٹو: فائل

لاہور: اغوا برائے تاوان کے سنگین مقدمے میں تفتیشی افسر نے مدعی اور اغوا کاروں کے مابین موبائل ڈیٹا کو اہمیت ہی نہیں دی جب کہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ملزمان کو فائدہ پہنچانے پر ایکشن لیتے ہوئے تفتیشی افسر کو شوکاز نوٹس جاری کردیا۔

کراچی سینٹرل جیل کے انسداد دہشت گردی کمپلیکس میں خصوصی عدالت نے اغوا ہونے والے 7 سالہ طفیل عبد الرحمن کے مقدمے کا فیصلہ رواں ماہ کی 2 تاریخ کو سنایا ناقص تفتیش کی وجہ سے ملزمان بری ہوگئے، اغوا برائے تاوان کے مقدمے میں پولیس کی روایتی تفتیش اور ملزمان کو فائدہ پہنچانے پر انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر 16 کے جج نے تفتیشی افسر محمد اسماعیل کو شوکاز نوٹس جاری کیا۔

جاری شوکاز نوٹس میں کہا گیا ہے کہ کیوں نہ تفتیشی افسر کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے، عدالت نے واضح کیا کہ دہشت گردی ایکٹ میں ناقص تفتیش پر 2 سال کی سزا ہے شوکاز نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ناقص تفتیش کا فائدہ اغواکاروں کو ہوا، ملزمان پرویز علی عرف پارو اور عبدالشکور مشکوک تفتیش پر بری ہوئے۔

عدالت نے واضح کیا کہ تفتیشی افسر نے مدعی اور اغوا کاروں کے مابین موبائل ڈیٹا کو اہمیت نہیں دی، ملزمان اور مدعی کے موبائل ڈیٹا کو لیبارٹری نہ بھیج غفلت برتی گئی، تفتیشی افسر نے ایک ملزم عبدالشکورکی شناخت پریڈ نہیں کرائی، اغواکاروں کا ساتھی نثار احمد نہیں پکڑا گیا۔

ملزم پرویز علی عرف پارو مغوی کے والد سے 29 دسمبر 2017 سے 20 جنوری 2018 تک رابطے میں تھا، ملزم نے رابطہ گھوٹکی اور سکھر سے کیا جس کا ثبوت سی ڈی آڑ میں موجود ہے، 23 دنوں تک ملزم نے مغوی بچے کا والد کا اغوا کاروں سے رابطہ رہا لیکن پولیس نے ملزمان پکڑنے کی کوشش نہیں کی۔

تفتیشی افسر نے عدالت کو گمراہ کیا اور بیان دیا کہ مغوی کو بندانی گوٹھ سندھ گورنمنٹ اسکول کے قریب ہاکس بے روڈ کے ایک مکان سے بازیاب کرایا اور ملزمان کو گرفتار کیا لیکن متعلقہ تھانے میں انٹری تک نہ کی مغوی بچے نے بیان میں کہا وہ ٹرین میں اپنے والد کے ساتھ آیا جس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ بچہ کی بازیابی اور ملزمان کی گرفتاری کراچی سے نہیں ہوئی۔

شوکاز نوٹس میں عدالت نے استفسار کیا ہے کہ کیا اس مکان سے متعلق کوئی تحقیقات کی گئیں کہ مالک مکان کون ہے اس کا اغوا کاروں سے کیا لینا دینا ہے ملزمان جن اشخاص کی موبائل سمیں استعمال کررہے تھے وہ کون تھے اس حوالے سے بھی تفتیشی افسر نے کسی قسم کی کوئی تحقیقات کرنے کی کوشش تک نہیں کی، تفتیشی افسر نے جواب کے لیے مزید مہلت دینے کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کرلیا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں