مملکت اور آداب حکمرانی
ہمارے کرم فرماؤں کو اب مفروضوں سے نکل کر حقائق کی دنیا میں آنا ہوگا۔
حال ہی میں ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی کشمکش و اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے درمیان سر اٹھاتی محاذ آرائی کے دوران بعض سیاسی حلقوں میں ایک سوچ یہ بھی ابھری ہے کہ موجودہ پارلیمانی جمہوریت کی جگہ صدارتی نظام لاکر ایسا مختار کل حکمران لانے کی راہ ہموار کی جائے جو کسی بھی جانب سے اختلاف رائے کو خاطر میں لائے بغیر اپنے ایجنڈے اور اپنی مرضی کے طرز حکمرانی کو عملی جامہ پہنا سکے۔ ویسے تو ایک محدود حلقے کی یہ سوچ کوئی نئی نہیں ہے لیکن موجودہ حالات کے پس منظر میں اس انداز فکر نے دبی زبان میں باقاعدہ اظہاریے کی شکل اختیار کرلی ہے اور سیاسی اور صحافتی حلقوں نے اس کا باضابطہ نوٹس بھی لیا ۔
اس بات سے ہر ذی شعور واقف ہے کہ پارلیمانی نظام ختم کرکے اس کا متبادل لانے کے لیے موجودہ آئین ( دستور ) منسوخ کرنا پڑے گا ۔ 1973 میں یہ آئین سیاسی پارٹیوں کے درمیان طویل بحث مباحثے کے بعد متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا اور اس کی بنیاد قائد اعظم اور بانیان پاکستان کے نظریے پر تھی ۔ قائد اعظم پارلیمانی نظام پر یقین رکھتے تھے انھوں نے لیاقت علی خان کو وزیر اعظم بناکر اپنے نظریے کو عملی شکل دی تھی ۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو نظام قائد اعظم اور ان کے رفقا دے گئے اسے کیوں چھیڑا جائے؟ صدارتی نظام ایک طرح کا آمرانہ نظام ہے جس میں مملکت کے تمام اختیارات ایک شخص کی ذات میں مرتکز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آمروں نے جب بھی منتخب حکومتوں کا تختہ الٹا، پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام وہ لے آئے اور صدر بن کر تمام سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے ۔ پارلیمانی نظام ہماری دانست میں فیل نہیں ہوتا یا ہوا۔ مسلسل ''مداخلت'' کے ذریعے اسے چلنے نہیں دیا گیا۔
اس وقت سیاسی حکومتوں کے سربراہوں، وزرا، ارکان اسمبلی نے موجودہ پارلیمانی نظام کے تحت مملکت سے وفاداری کے حلف اٹھا رکھے ہیں ان سب کے لیے اس آئین کو منسوخ کرنا آسان نہیں ہوگا، بڑے مسائل پیدا ہوں گے ۔ موجودہ سیاسی محاذ آرائی اور عوام میں پائی جانے والی بے چینی کی وجہ پارلیمانی نظام نہیں، ہمارے ارباب اختیار (حکمران) ہیں جنھیں گڈ گورننس کی طرف لانے کی ضرورت مسلم ہے، اس لیے صدارتی نظام کے حق میں بحث ہی نہیں ہونی چاہیے۔ دستور سازوں نے بڑی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد اتفاق رائے سے جو آئین بنایا وہ تقریباً نصف صدی سے نافذالعمل ہے، اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے نیا بحران پیدا ہوسکتا ہے ۔ پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ ''وہ 73 کے متفقہ آئین سے روگردانی کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔'' یہی موقف اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کا بھی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پارلیمانی یا صدارتی نظام پر بحث کی بجائے تمام تر توجہ ''آداب حکمرانی'' یا طرز حکمرانی بہتر بنانے پر دی جائے اور طرز حکمرانی ایک ایسا معاملہ ہے جس کا تعلق گڈگورننس سے ہے نظام حکومت سے نہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکمران قیادت بالکل متحرک نظر نہیں آتی، عوامی رابطہ مہم ختم ہوچکی ہے، سارے محاذوں پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ حالانکہ عملی سرگرمیاں قوم کو گرماتی اور پرامید رکھتی ہیں ۔ سیاسی جنگ صرف ٹی وی چینلوں پر نہیں لڑی جاتی۔ سرگرمیوں اور تحریک کے فقدان سے یوں لگتا ہے جیسے سندھ کے علاوہ ملک میں کوئی حکومت ہی نہیں اور اسی تناظر سے نااہلی کا تاثر پھوٹتا ہے۔
ہماری مملکت کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ایسے سیاستدانوں کی بہتات ہے جنھیں اپنے تجربے کی بنیاد پر ایمان کی حد تک یقین ہے کہ تمام لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف بنایا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی وطن عزیز میں بے وقوف بنانے کے مشغلے پر محض سیاستدانوں کی اجارہ داری نہیں بلکہ سارے کے سارے ''اسٹیک ہولڈر'' حسب توفیق مسیحا اور نجات دہندہ بن کر قوم سے شغل میلہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ البرٹ ہوبرڈ نے زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''ہر شخص روزانہ کم ازکم پانچ منٹ کے لیے بے وقوف بنتا ہے مگر عقل مندی یہ ہے کہ بے وقوفی کا دورانیہ بڑھنے نہ پائے۔'' مگر ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ بے وقوفی کا دورانیہ بتدریج بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، کیونکہ بقول آئن اسٹائن ''عقل و دانش محدود ہوسکتی ہے مگر بے وقوفی اور حماقت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔''
ملکی سیاست کا موجودہ منظرنامہ چیخ چیخ کر یہ احساس دلا رہا ہے کہ ساری قوم آزمائش اور امتحان سے گزر رہی ہے، ہمارے مشاہدے میں ایسی پستی اور ایسی سیاست اب تک دیکھنے میں نہیں آئی جس کی بنیاد جھوٹ، نفرت، گالم گلوچ، ایک دوسرے پر الزام، طعنہ زنی اور عہدے کے تکبر پر ٹکی ہو، ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جا رہا ہے، گیس، بجلی، پانی کے مسائل اور ان کے بلوں میں ظالمانہ اضافہ اور بے روزگاری، مایوسی و مہنگائی کی اتھاہ گہرائیوں میں لوگ ڈوبتے جا رہے ہیں۔ خدا نے ہمیں پاکستان کی شکل میں ہمیں ایک نعمت عطا کی تھی لیکن ہماری قیادتوں نے عوام کو اس نعمت کے پھل سے محروم کردیا۔ قوم کا کردار کسی تبصرے کا محتاج نہیں۔ دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی قوت قومی وقار کے حوالے سے پست ترین مقام تک پہنچ چکی ہے۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہمارے حکمرانوں کی سلطنت، ریاست یا مملکت اور ان کا ''اختیار'' روز بروز محدود ہوتا جا رہا ہے۔ بظاہر وہ پورے ملک کے وزیر اعظم یا صدر کہلاتے ہیں لیکن ان کا اختیار یا تو دارالحکومت میں ہوتا ہے یا ڈیڑھ دو صوبوں میں ہوتا ہے۔ باقی صوبوں میں کسی اور کی حکومت بن جاتی ہے اور وہاں کے حکمران بھی مرکز کے حکمرانوں سے مختلف نہیں ہوتے۔ صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب کی حکومتیں اور ان کا طرز حکمرانی اس کا ٹھوس ثبوت ہے۔ مملکت کسی بھی خطے کی ہو اس کا زریں اصول یہ ہے کہ جب بھی کسی کمزور شخص کو صوبے کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا جس کا نہ کوئی پبلک امیج تھا نہ مضبوط عوامی حمایت اور نہ ہی حکومتی سیاسی پارٹی میں کوئی با اثر حیثیت تو اسے مجبوراً ارکان اسمبلی یا بیورو کریسی کے قدموں میں قیام کرنا پڑتا ہے۔ جس سے صوبے کی انتظامی مشینری غیر موثر اور تعطل کا شکار ہو کر رہ جاتی ہے۔ پاکستان کے سب سے اہم ترین دو بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ میں یہی صورتحال سامنے دکھائی پڑ رہی ہے۔ معاشی اور داخلی محاذ پر ویسے بھی وفاقی حکومت ناکام نظر آرہی ہے اور اس کے صوبوں میں کام اس وقت شروع ہوتا ہے جب پالیسی سازی ہوتی ہے اور ترقیاتی کام کا آغاز ہوتا ہے اور اس وقت یہ دونوں چیزیں کہیں دکھائی نہیں دے رہیں۔
ہمارے کرم فرماؤں کو اب مفروضوں سے نکل کر حقائق کی دنیا میں آنا ہوگا۔ ''مٹی کے مادھو'' بنانے سے ریاست نہیں چلتی اس کے لیے حقیقی (اصلی نام اور اصلی کام) والوں کو سامنے لانا ہوگا۔ کیونکہ جنگ اور سیاست میں جعلی ہیرو نہیں چلتے بلکہ ان کی اصلیت کھل جاتی ہے۔ سیاست کا مقابلہ صرف سیاست سے ہوتا ہے دباؤ سے وقتی فائدہ لیا جاسکتا ہے کسی کو اختیار دلایا جاسکتا ہے لیکن عوام کے دل نہیں جیتے جاسکتے اورکسی بھی حکومت کی اندھی مخالفت یا اندھی حمایت دونوں ہی غلط رویے ہوتے ہیں۔ ہماری فہم کہتی ہے کہ مملکت سے جڑی سیاست کی ڈوریاں کھینچنے سے پرہیز کیا جائے اور اسے آزاد چلنے دیں، پاکستان خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔