سارے رنگ

جن لوگوں پر ہمیں اعتماد ہو، انہیں کبھی اس بھروسے کی یقین دلانے کی نوبت نہیں آتی!


Rizwan Tahir Mubeen March 03, 2019
جن لوگوں پر ہمیں اعتماد ہو، انہیں کبھی اس بھروسے کی یقین دلانے کی نوبت نہیں آتی!۔ فوٹو: فائل

ایک فلم کی کہانی

مبشر علی زیدی

میٹرو ٹرین اسٹیشن ایسا مقام ہوتا ہے، جہاں کسی کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ سب لوگ دوڑتے بھاگتے دکھائی دیتے ہیں۔ مختلف رنگوں، نسلوں اور اقوام کے لوگ۔۔۔ مختلف زبانیں بولتے ہوئے لوگ۔۔۔ مختلف ثقافتوں کے پہناوے پہنے ہوئے لوگ۔۔۔

میرے پاس ہمیشہ کچھ اضافی وقت ہوتا ہے۔ میں گھر سے جلدی نکلتا ہوں۔ میں دفتر دیر سے پہنچ سکتا ہوں۔ مجھے کوئی جلدی نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ سب لوگ رولر کوسٹر پر سوار ہیں اور میں زمین پر کھڑا ہوکر انھیں گھومتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ امریکا میں کوئی کسی کو نگاہ بھر کے نہیں دیکھتا۔ کوئی کسی پر توجہ نہیں دیتا۔ نہ ہی کسی کو اس بات کی پرواہ ہوتی ہے کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے یا نہیں۔

میں نے بہت سی مختصر کہانیاں لکھی ہیں لیکن ابھی تک کسی فلم کا اسکرپٹ نہیں لکھا۔ فلم کے لیے میرے پاس کرداروں کی کمی ہے۔ افسانے کی نسبت فلم میں زیادہ کرداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ میٹرو اسٹیشن پر مجھے بہت سے کردار دکھائی دیتے ہیں۔ میں ان کرداروں کو غور سے دیکھتا ہوں۔

ایک جاپانی گڑیا بے چینی سے پلیٹ فارم پر ٹہل رہی ہے۔ اسے کام پر جانے کو دیر ہو رہی ہے۔ اس نے لمبا اسکرٹ اور سفید شرٹ پہن رکھی ہے۔ کندھے پر سیاہ بیگ ہے۔

ایک بھاری بھرکم لڑکا سیڑھیاں چڑھنے کے بعد ہانپ رہا ہے۔ اس نے شارٹ، ٹی شرٹ اور سفید جوگرز پہنے ہوئے ہیں۔ ہیڈ فون چڑھا ہوا ہے۔

ایک لال پری بھاگم بھاگ پہنچی ہے اور اس کا چہرہ لالوں لال ہورہا ہے۔ لال پینٹ شرٹ میں ملبوس ہے اور ہونٹوں پر لالی سجائی ہوئی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ آگے بڑھ کر اسے لال سلام پیش کروں۔

ایک سیاہ فام بوڑھا اپنے وجود کو اپنی مرضی کے خلاف گھسیٹتے ہوئے مخالف سمت میں جارہا ہے۔ اس کا چہرہ رونق سے محروم ہے۔ پرانے جوتے پالش سے محروم ہیں۔ سلوٹوں بھرا کوٹ اچھا نہیں لگ رہا۔

ایک دراز قد جرمن لڑکی میرے دائیں جانب کھڑی ہے۔ ڈریس پینٹ اور جیکٹ سے تن چھپایا ہوا ہے۔ ایک ہاتھ میں کافی اور دوسرے میں کتاب ہے۔ کتاب دیکھ کر ہی اس کے جرمن ہونے کا اندازہ لگایا ہے۔

میرے بائیں جانب ایک میکسیکن فنکار بینچ پر بیٹھا ہے۔ جینز اور ٹی شرٹ پہنی ہوئی ہے۔ ہاتھ میں ایک پینسل اور چھوٹی سی نوٹ بک ہے۔ وہ نوٹ بک کے صفحات پر تیزی سے انگوٹھا پھیر رہا ہے جیسے بعض لوگ تاش کی گڈی کو پھینٹنے سے پہلے کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ اس کی نوٹ بک میں بہت سے خاکے بنے ہوئے ہیں۔ شاید وہ بھی میری طرح میٹرو اسٹیشن پر کردار ڈھونڈتا ہے۔

پٹری کے قریب پلیٹ فارم کے فرش میں نصب بتیاں جلنے بجھنے لگی ہیں۔ ٹرین آنے کو ہے۔ ٹرین رکنے کے پانچ سیکنڈ بعد دروازے کھلیں گے۔ پندرہ سیکنڈز بعد بند ہوجائیں گے۔ ہجوم باہر نکلے گا۔ ہجوم اندر گھسے گا۔ لیکن کوئی بدنظمی نہیں ہوگی۔ کسی کو دھکا نہیں لگے گا۔ جو بیٹھنا چاہے گا اسے نشست مل جائے گی۔ کچھ لوگ خالی نشستوں کے باوجود کھڑے رہیں گے۔

ٹرین میں کوئی شخص بات نہیں کرتا۔ فون آئے تو کال ریسیو نہیں کرتا۔ سب خاموشی سے کتابیں یا اخبار پڑھتے رہتے ہیں۔ یا گانے سنتے رہتے ہیں۔ میں ٹرین کے سفر میں کچھ نہیں پڑھتا۔ میں ڈرائیونگ کے دوران گانے سنتا ہوں لیکن ٹرین کے سفر میں میوزک نہیں سنتا۔ میں لوگوں کو دیکھتا رہتا ہوں۔ انہیں اپنی فلم میں کردار بنانے کے بارے میں غور کرتا ہوں۔ ان کے لیے موزوں مکالمے سوچتا ہوں۔

17 منٹ کے سفر میں سات اسٹیشن آتے ہیں۔ میں اکثر آخری ڈبے میں سوار ہوتا ہوں۔ اس میں نقل و حرکت کم ہوتی ہے۔ کوئی کوئی باہر جاتا ہے۔ کوئی کوئی اندر گھستا ہے۔ کرداروں پر غور کرنے کا وقت مل جاتا ہے۔

منزل پر پہنچ کر میں پلیٹ فارم پر ایک طرف کھڑا ہو جاتا ہوں۔ باقی سب لوگ خارجی راستوں کی طرف بھاگتے ہیں۔ سیڑھیاں چڑھتے ہیں، اترتے ہیں۔ دوسری ٹرین پکڑنے کے لیے پلیٹ فارم بدلتے ہیں۔

چھٹنے میں بمشکل ساٹھ سیکنڈ لگتے ہیں۔ یہ کسی فلم کا ایسا منظر لگتا ہے جسے فاسٹ فارورڈ کیا جا رہا ہو۔ میں اس کا لطف اٹھاتا ہوں۔ منظر دوبارہ معمول پر آتا ہے تو میں اپنی آنکھوں پر پانی کا ایک چھپکا مارتا ہوں۔ پھر ہولے ہولے باہر کی طرف چل پڑتا ہوں۔ تب تک میرے پاس ایک فلم کی کہانی ہوتی ہے۔ میں کرداروں کا فیصلہ کر چکا ہوتا ہوں۔

خانہ پُری

اب تو سب ''کھاتے'' ہیں۔۔!

ر۔ ط۔ م

انسان کا ''کھانے'' سے تعلق کس قدر پرانا ہے، اس بات کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یہ 'ہستی' جنت سے نکالی ہی ''کھانے'' کے جرم میں گئی۔۔۔! اب لوگ ''کھانے'' کے جرم میں حکومتوں سے نکالے جاتے ہیں۔ 'اہل حَکم' اور 'کھانے' کا سمبندھ بھی بہت قدیم ہے (اہل حَکم میں سیاست دان ''بھی'' شامل ہیں!)

ایک طرف ہم یہ کہتے ہیں کہ ''بھوک'' آداب کے سانچوں میں ڈھل نہیں سکتی اور پھر بھی ''کھانے کے ادب'' کو انسان کے بنیادی سلیقوں میں رکھتے ہیں۔ ''کھانے'' کے ادب میں یہ صلاح سرفہرست ہے کہ ''چھپ کے کھاؤ، نہیں تو سب کو کھلاؤ!'' لیکن سماج میں یہ مسئلہ کافی گنجلک ہے کہ ہم ''کھاتے'' کم ہیں اور ضایع زیادہ کرتے ہیں۔۔۔!'' ہمیں ''اجتماعی کھانے'' میں خاص طور پر دھیان رکھنا چاہیے کہ ''جتنا کھا سکو، اتنا ہی نکالو!'' لوگ ایسا نہیں کرتے، بلکہ زیادہ نکال کر ''کھا'' نہیں پاتے، پھر اپنے نکالے جانے پر شکوہ کرتے ہیں ''مجھے کیوں نکالا۔۔۔؟''

''کھانے'' کے ادب میں یہ بھی ہے کہ ہمیشہ اپنے آگے سے ہی کھائے (رکابی میں بھی) اور جب کوئی دوسرا ''کھا'' رہا ہو تو پہلے اس کے 'کھانے' کا انتظار کر لیں، پھر اپنا ہاتھ (رکابی کی طرف) بڑھائے! (ورنہ 'وہ' آپ کے ''کھائے'' کی مخبری کر دے گا)

ایک 'افسر' دھڑلے سے یہ کہتے تھے کہ ''اب تو سب کھاتے ہیں۔۔!'' ہم نے انہیں یہ کہا بھی کہ ''میاں!'' کھانے کے لیے زندہ نہ رہو، زندہ رہنے کے لیے ''کھاؤ!'' جواب میں وہ بولے کہ ''کھاؤں گا نہیں تو بڑا کیسے ہوں گا؟'' ہم چُپکے ہو گئے، واقعی آج 'بڑے' کون ہیں، کھانے والے یا نہ کھانے والے۔۔۔؟ لیکن یہ خیال محو نہ ہو کہ ''جس کا کھاؤ اس کا گاؤ!'' ورنہ۔۔۔

''کِھلا'' کر منہ بند کرنے والی ایک ''مخیر'' ہستی کا دعویٰ ہے کہ 'ایک کھاؤ پھر رک کے دکھاؤ!' (اس میں 'ایک' کے بعد 'پلاٹ' کا لفظ بھی ضرور پڑھیے) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس ''مخیر'' ہستی کا محور یہی ہے کہ ''کھا گئے ملک کھانے والے۔۔۔ اب ہے 'کام' ہماراااا۔۔۔!'' (ملک میں 'م' پر زبر پڑھ کر مماثلت ضرور ڈھونڈیے)

بعض اداروں میں کھلائی پلائی کو 'چائے پانی' بھی کہا جاتا ہے، اگر نہ ''کھلاؤ'' تو اہل کار 'کاٹ کھانے' کو دوڑتے ہیں، یا پھر کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ (یہاں مراد کتوں سے نہیں) کچھ لوگ 'مال کھا جاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے' مزے کی بات ہے کہ اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ ان کا 'ہاضمہ' اچھا ہے، حالاں کہ پھر وہ کھا نہیں پاتے، بلکہ مال 'پی' جاتے ہیں۔

چوں کہ 'کھاتے کھاتے تو کنواں بھی خالی ہو جاتا ہے!' اس لیے 'کھانے والوں' سے اگلوانے کے لیے ہمارے ہاں باقاعدہ ایک ادارہ قائم ہے جسے پیار سے 'نیب' کہتے ہیں۔ کھانے کو تو ہمارے ہاں 'بھتا' بھی خوب کھایا گیا، پھر یہی 'بھتا' انہیں ہی کھا گیا۔۔۔ اب وہ لاکھ کہیں کہ 'ہم نہیں تھے' انہیں 'منہ کی ہی کھانا' پڑ رہی ہے۔

''کھلاؤ سونے کا نوالہ دیکھو شیر کی نگاہ سے'' (یہ شیر 'ن لیگ' کا نہیں، نہ ہی یہ بات 'نیب' نے کہی) بعض ناقد کہتے ہیں کہ اصل فقرے میں 'شعر کی نگاہ' ہے، یعنی یہ بات محبوب کے لیے کہی گئی ہے۔

کچھ لوگوں پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ ''کھائے بکری کی طرح، سوکھے لکڑی کی طرح!'' کیوں کہ اُن کا ''کھانا'' دراصل 'کھانے پینے' کے سوا ہوتا ہے۔ یہاں ہمیں یاد آیا کہ اردو میں محمد حمید شاہد کا ایک ناول ''مٹی آدم کھاتی ہے'' بھی تو ہے۔ ہمارے ہاں کچھ لوگوں کی 'نظر' پتھر کو بھی کھا جاتی ہے، پھر ہم کہتے ہیں کہ ''زمیں کھا گئی آسمان کیسے کیسے!''

ہمارے ہاں بدمعاش دھمکیاں بھی 'ٹبر کھانے' کی دیتے ہیں۔۔۔ شریف لوگ کتابیں، آجر تنخواہیں، مولوی چندے، محلے کی خالائیں 'بی سیاں'، 'ایمپائر' آؤٹ اور ننھے بچے لکھتے ہوئے 'نقطے' کھا جاتے ہیں۔۔۔ قصہ مختصر 'اب تو سب ''کھاتے'' ہیں، البتہ ان میں ''کھاتے'' کسی کسی کے بنتے ہیں!

یا ابولعجب

مرسلہ: ظہیر انجم، کراچی

٭ایک صاحب زکوٰۃ کی تقسیم کے موقع پر نو جوڑے جوتے یہ کہہ کر لے گئے کہ میرے گھر کی بچیاں ننگے پاؤں پھرتی ہیں۔ اگلے دن واپس آکر کہنے لگے کہ جوتے کپڑوں سے میچ نہیں کرتے۔

٭وہ آب دیدہ تھا کہ میرے گھر میں آٹا بھی نہیں ہے، میں گھر میں کچھ رقم دینے گیا تو بتایا گیا کہ تھوڑی دیر میں آئیے گا، ابھی بابو چھت پر دھوپ سینک رہے ہیں۔

٭بوڑھی عورت نے مسجد میں صدا لگا رہی تھی کہ قسم کھاتی ہوں میں نے تین دن سے کچھ نہیں پکایا، میری مدد کرو۔ ایک شخص نے اسے کھانا کھلایا اور کچھ روپیا بھی دیا۔ میرے جانے کے بعد پھر وہ یہی آواز لگانے لگی۔ میں نے اُسے ٹوکا تو وہ بولی کہ میں نے یہ تو نہیں کہا کہ میں نے کچھ نہیں کھایا!

اعتماد

مرسلہ: اویس شیخ ٹوبہ ٹیک سنگھ

جن لوگوں پر ہمیں اعتماد ہو، انہیں کبھی اس بھروسے کی یقین دلانے کی نوبت نہیں آتی۔۔۔! دنیا میں کون آپ سے کتنی محبت کرتا ہے اور کون آپ کو حقیر گردانتا ہے؟ اس بات کی گواہی انسان کی نظریں دیتی ہیں۔ کون آپ پر کتنا اعتماد کرتا ہے اور کون آپ کو بد دیانت خیال کرتا ہے اس کا پتا انسان کے لہجے اور رویے دینے لگتے ہیں۔ جو لوگ بھری محفل میں آپ کے اعتماد اور خلوص کا ذکر کرتے ہیں ، وہی لوگ پیٹھ کے پیچھے آپ کو لعن طن کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ حقیقتیں ہمارے سامنے ہوتی ہیں، انہیں جاننے کے لیے بس ذرا سی غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جو اکثر ہم محبت میں اندھے ہونے کے سبب نہیں کرپاتے۔

صد لفظی کتھا فکر

رضوان طاہر مبین

''ارے۔۔۔ میں بوڑھا ہو گیا یار۔۔۔!''

ثمر دفتر پہنچا، تو اس نے نہایت فکر مندی سے کہا۔

میں نے کمپیوٹر سے نگاہ ہٹا کر اس کے بالوں کو غور سے دیکھا۔۔۔

سیاہ بالوں کو اب بھی 'دو تہائی اکثریت' حاصل تھی۔

''بھئی، اچانک ایسی کیا بات ہو گئی ہے؟''

میں نے استفسار کیا۔

''میں بس میں جب بھی کسی بزرگ کو دیکھتا ہوں تو فوراً اپنی جگہ اُن کے لیے چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔'' وہ بولا۔

تو کیا اس بار نہیں چھوڑی۔۔۔!''

مجھے ماجرا جاننے کی جلدی ہوئی۔

''دراصل آج ایک مسافر مجھے دیکھ کر اپنی نشست سے اٹھ گیا۔۔۔!''

جنگیں کسی مسئلے کا حل نہیں

سیمیں کرن، فیصل آباد

سوشل میڈیا دیکھیے یا پھر ٹی وی۔ اس وقت جو سودا سب سے منہگا بک رہا ہے، وہ جنگی جنون کا ہے۔ دونوں طرف کے عوام ایک طویل جغرافیے کے ہی نہیں، ثقافت، نفسیات، رسومات، زبان و ذایقے کے اشتراک سے لے کر ایک طویل ساجھے داری میں جڑے ہیں۔ رنگ ایک ہم بہت سوں کے، اب وجد ایک، سرحد پار علاقوں میں اکثر آدھا خاندان ادھر آدھا ادھر، خونی رشتے ہیں، جو تقسیم ہوئے پڑے ہیں، کیا ان تمام اشتراکات کے بعد یہ جنگی جنون ہمارے ذی ہوش ہونے پہ بہت بڑا سوال کھڑا نہیں کرتا؟ کیا یہ جنگی جنون ثابت نہیں کرتا کہ گر اس بدنصیب خطے کو ارباب و اختیار نادان ملے ہیں، تو عوام نے بھی کسی دانش مندی اور عقل و فہم کا ثبو ت نہیں دیا۔ کون نہیں جانتا یہ بات کہ آج کے دور میں جنگ سب سے منافع بخش سودا ہے یہ حکومتوں کا مکروہ کاروبار ہے جس کا ایندھن ہم عوام ہیں اور ہمارے معصوم بچے ہیں۔ اس جنگی جنون کا فائدہ مگر کس کو ہے ؟ کیا پاکستان اور پاکستانیوں کو جنگ فائدہ دے گی؟ کیا ہندوستان جیسا بڑا ملک جو پہلے ہی بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے، کیا وہاں کے عوام کے لیے جنگ مزید تباہی بربادی اور غربت نہیں لائے گی؟ کیا سرحد پار کے عوام کے سب مسائل حل ہوگئے ہیں، جو ہم دونوں پڑوسی جنگ جنگ کھیلنے کا خواب دیکھنے لگے ہیں؟

کیا جنگ واقعی کھیل ہے؟

کیا ہم پاکستانی اور ہندوستانی عوام واقعی یہ نہیں جانتے کہ جنگ وہ عذاب ہے جس میں صرف ہماری کوکھ، ہمارا مال، ہماری دولت، ہماری زندگیاں اجڑتی ہیں؟ مجھے آج عوام تو عوام ادیبوں جیسے خواص کے قبیلے کے غیر ذمہ دارانہ باتیں پڑھتے ہوئے، ایام جاہلیت کے شعرا و قصیدہ خواں یاد آتے ہیں۔ ان میں نام ور و بہادر وہی ہوتا تھا، جو جتنی زیادہ آگ سلگا سکتا تھا۔ تاسف، افسوس، حیرت سب یک جا ہو جاتے ہیں، جب اس جنگی جنون میں مبتلا ہر خاص و عام، مرد وزن کو دیکھتی ہوں۔ میری اپنے ملک کی ادیب برادری سے ہی نہیں، بلکہ سرحد پار کے ہر ادیب سے پر زور اپیل ہے کہ جنگی جنون کے آگے بند باندھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں