جہاں گشت

دستِ غیب سے لکھی ہوئی کتاب ہوں میں۔۔۔۔!


اور پھر میں اپنے حواس کھو بیٹھا، میری چیخوں سے قبرستان گونج رہا تھا۔ فوٹو: فائل

قسط نمبر33

بزرگ بابا بھی کیا باکمال انسان تھے، حیرت مجھے اس بات پر تھی کہ میں نے کسی کو بھی بابا سے ملتے جُلتے نہیں دیکھا تھا۔ ویسے تو جب وہ صبح ناشتے کا انتظام کرتے تھے، اس دوران وہ ان مزدوروں سے بس سرسری سی گفت گو کرتے تھے، کوئی پیسے دیتا تو لے لیتے اور نہ دیتا تو مانگتے نہیں تھے، میں نے کچھ مزدوروں کو ان سے پیسے ادھار لیتے ہوئے بھی دیکھا تھا اور واپس لوٹاتے ہوئے بھی، لیکن بابا کسی سے کوئی تفصیل نہیں پوچھتے تھے، اس لحاظ سے وہ اپنی انوکھی دنیا کے واحد مکین تھے، سب میں رہتے ہوئے بھی سب سے الگ تھلگ، کنول کے پُھول۔ مسجد میں بھی بس گنے چنے نمازی آتے ان سے بھی وہ بس واجبی سی سلام دعا تک محدود تھے، لیکن ایسا بالکل بھی نہیں تھا کہ ان کے کسی سے خصوصی تعلقات ہوں۔ ایک میں ہی ان کے ساتھ رہتا تھا بس۔ وہ شب بیدار تھے، نصف شب کے بعد ان کی آہ و زاری سے کٹیا گونجنے لگتی، پھر وہ ناشتے کا انتظام کرتے اور ہم دونوں اپنے کام پر نکل جاتے، بہ مشکل دو گھنٹوں میں ہم واپس اپنی کٹیا پہنچ جاتے تھے، بابا واپس آکر کچھ دیر آرام کرتے اور پھر قبرستان میں گھومتے ہوئے مجھ سے باتیں کرتے، وہ زاہد خشک نہیں تھے، کبھی کبھی وہ کوئی گیت بھی گنگناتے تھے، بلاشبہ ان کی آواز میں سوز و درد بسیرا کیے ہوئے تھے، مجھ سے بھی کبھی فرمائش کرتے تھے اور میری ستائش بھی کرتے تھے۔ مجھے حیرت ہوتی کہ وہ بحرالعلوم ہیں اور جانتے ہیں، ماضی کو بھی اور مستقبل میں بھی جھانک سکتے تھے، پھر بھی ان کے پاس کوئی ملنے نہیں آتا۔ یہ بہت زیادہ حیران کردینے والی بات تھی کہ ایک شخص جو دوسروں کو اگر میں یہ کہوں کہ ان سے زیادہ جانتا ہے لیکن کوئی اور اسے جانتا تک نہیں، بہت زیادہ حیران کن تھا یہ، لیکن تھا تو کیا کِیا جائے۔ دیکھیے کیا یاد آیا اس وقت، شعر تو یہ بابا واصف علی واصف کا ہے کہ وہ تھے ہی ایسے اور جانتے تھے اور جاننے کا دعویٰ کرسکتے تھے اور بالکل بجا دعویٰ، لیکن فقیر نے بزرگ بابا کو بھی ایسا ہی پایا۔

ورق ورق میری نظروں میں کائنات کا ہے

کہ دستِ غیب سے لکھی ہوئی کتاب ہوں میں

واہ جی واہ کیا کہنے، بار بار پڑھیے اور سوچیے پھر یہ شعر آپ پر کھلے گا۔ جاننے کا دعویٰ تو بزرگ بابا نے کبھی نہیں کیا تھا، لیکن اس سے کیا ہوتا ہے، جانتے تو وہ تھے۔ ایک دن انہوں نے مجھ سے پوچھا: بیٹا جی! تم تو بہت فلمیں دیکھتے تھے، کیا کبھی کوئی حقیقی فلم بھی دیکھی تم نے۔ بابا فلمیں تو میں دیکھتا رہا ہوں، اب بھی موقع ملے تو دیکھوں گا، آپ کبھی دکھانے لے چلیں ناں مجھے کوئی فلم، بہت عرصے سے تو میں نے کوئی فلم نہیں دیکھی لیکن یہ حقیقی فلم کا کیا مطلب؟ میں کچھ سمجھا نہیں، میں نے کہا۔ تم بھی پرلے درجے کے گاؤدی ہو، ابے بدھو! تم اتنا بھی نہیں جانتے کہ فلم میں اس کا ہر کردار مصنوعی ہوتا ہے، سب بس ناٹک کھیلتے ہیں، نری اداکاری، حقیقی دنیا سے اس کا بس اتنا سا تعلق ہوتا ہے کہ کہانیاں یہیں جنم لیتی ہیں اور پھر اداکار اپنی فن کاری کا جوہر دکھا کر اس میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں، کردار میں جو جتنا اچھا رنگ بھرے وہ اتنا بڑا اداکار، ہوتے تو نہیں ہیں ناں وہ اصل، وہ جو ہیرو ہے وہ بھی اور جو ہیروئن ہے وہ بھی اور جو ولن ہے وہ بھی، بس اداکاری کرتے ہیں وہ، فلم کی شوٹنگ کے دوران روتے ہیں، ہنستے ہیں، مار ڈھار کرتے ہیں، عشق بگھارتے ہیں، اور شوٹنگ ختم ہوجائے تو جاؤ بھائی تم کون، ہم کون، سب جعلی، سب مصنوعی۔ بابا نے یہ کہہ کر مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا۔ یہ تو آپ صحیح فرما رہے ہیںمیں نے کہا۔ میں کیا فرماؤں گا، بس کہہ رہا ہوں، اچھا تو تم کیا کہہ رہے تھے کہ تم نے بہت عرصہ ہوا کوئی فلم نہیں دیکھی، اور میں تمہیں کوئی فلم دکھانے لے چلوں۔ جی بابا بہت مزا آئے گا دونوں ساتھ چلیں گے، بہت عرصہ ہوا کوئی فلم ہی نہیں دیکھی، میں نے اصرار کیا۔ اب اتنا اتاولا بننے کی کیا پڑی ہے، چلیں گے کل ناں، بابا نے میرے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

دوسرے دن میں اور بابا جی اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد اپنی کٹیا پہنچے، ہم نے اپنا سامان رکھا اور بابا جی سونے کے بہ جائے کہنے لگے: چلو بیٹا کل تم سے وعدہ کیا تھا کہ تمہیں فلم دکھانے لے چلوں گا، تو چلو فلم دیکھنے چلتے ہیں۔ لیکن بابا جی اس وقت کون سی فلم چلتی ہے، پہلا شو ہی تین بجے شروع ہوتا ہے، اتنی جلدی جاکر کیا کریں گے۔ میں جو فلم دکھانے جارہا ہوں وہ ہر وقت چلتی ہے، چل اب۔ بابا جی یہ کہہ کر باہر نکل گئے۔ میں سوچنے لگا آخر ایسا کون سا سینما گھر ہے جہاں ہر وقت ہی فلم چلتی ہے۔ ہم دونوں باہر نکلے اور پیدل چلنے لگے۔ ہاں تو بیٹا! کہاں دیکھنی ہے تم نے فلم؟ انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ بابا جی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ دیکھو کسی باغ میں دیکھنی ہے، کسی بس اسٹاپ پر، کسی چوراہے پر، یا ریلوے اسٹیشن چلیں، اب جو تم کہو گے ہم وہ کریں گے۔ بابا نے تو مجھے امتحان میں ڈال دیا تھا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر وہ کیا کرنے والے ہیں، کون سی فلم ہے جو ہر جگہ اور ہر وقت ہی چل رہی ہے اور مجھے نظر بھی نہیں آرہی تو میں نے کہا جہاں آپ مناسب سمجھیں بس وہیں۔

بابا مسکرائے اور کہا تو چلو اُس چوراہے سے شروع کرتے ہیں ناں پھر۔ چند قدم پر ایک چوراہے کے فٹ پاتھ پر ہم بیٹھ گئے، لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی، انبوۂ آدم، عورتیں، بچے، بوڑھے، جوان، ایک ہجوم خلق خدا۔ ایک نوجوان سر جھکائے پریشان حال جارہا تھا اور ایک بوڑھی خاتون اس کے ہم راہ تھی۔ اسے دیکھ رہے ہو تم بیٹا! بابا نے مجھ سے دریافت کیا۔ جی میں دیکھ رہا ہوں کسی مشکل میں گرفتار لگتا ہے مجھے یہ نوجوان۔ لگتا نہیں ہے، گرفتار ہے، تم اتنے کور چشم ہو کہ اس کی پوری کہانی اس کے چہرے پر کندہ ہے اور تم کہہ رہے ہو، لگتا ہے، بابا نے مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا، دیکھو اس نوجوان کی ماں ہے اس کے ساتھ، بیمار ہے، رشتے داروں نے تو چھوڑا ہی چھوڑا باپ نے بھی دھتکار دیا انہیں، اب پھر کسی امید پر وہیں جا رہے ہیں جہاں سے دھتکارا گیا تھا، بے بسی ہے ناں، انسان اتنا ہی بے بس ہے اور خود غرض تو ہے ہی۔ ایک بہت وجیہہ نوجوان کو دیکھ کر بابا بولے، یہ تمہیں کیسا لگتا ہے؟

بابا یہ تو کوئی خوش حال لگتا ہے مجھے، اسی لیے تو مطمئن کہیں جارہا ہے، میں نے اپنا اندازہ بتایا۔ بیٹا جی یہی ہے دنیا، کوئی مطمئن نہیں ہے یہ بھی مفلوک الحال ہے، بے روزگار اور افلاس کا مارا، کہیں کام کی تلاش میں ہے لیکن خود کو چھپا رہا ہے اور ظاہر ایسا کر رہا ہے جیسے مطمئن ہو اور آسودہ بھی۔ وہ سامنے دیکھو اس لڑکی کو جو بس کے انتظار میں کھڑی ہے اور اسے کچھ لوگ گُھور رہے ہیں، ایسے جیسے اسے نوچ رہے ہوں، کیسا ہے انسان بھی تُف۔ میں نے اس طرف دیکھا تو بابا بولے، اور یہ لڑکی تمہیں کیسی لگتی ہے۔ پتا نہیں بابا کہیں جارہی ہوگی کام کرنے، میں نے بے دلی سے کہا۔ ہاں ظاہر ہے کہیں تو جا ہی رہی ہے، لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے کام سے اس وقت واپس آرہی ہو۔ لیکن اس وقت کیسے واپس آسکتی ہے یہ کام سے، ابھی تو کاروبار شروع ہوا ہے، میں نے اپنی دانش بگھاری۔ کیوں نہیں آسکتی یہ اس وقت اگر کہیں رات گزار کے آرہی ہو، مجبور ہو اور اپنا جسم بیچ کر آرہی ہو تو؟ بابا کی اس بات سے میں چونکا اور اچانک میرے منہ سے نکلا کیا یہ طوائف ہے بابا۔

بابا نے انتہائی غضب سے مجھے گھورا، ہاں یہ طوائف ہے اور ہم سب اس کے دلّال، مجبور ہو کوئی تو وہ طوائف ہوجاتی ہے ناں، اور ہم سب اسے پتھر مارنے لگتے ہیں، حرام خور کہیں کے، مَردُود۔ بابا بہت غصے میں تھے، اور دیکھنی ہے فلم تم نے، انہوں نے مجھ سے دریافت کیا۔ جی بابا لیکن کہیں اور چلتے ہیں۔ دراصل میں اکتا چکا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیسے اس بات کی تصدیق ہو کہ بابا یہ سب کچھ درست بتا رہے ہیں، اسی شش و پنج میں میں نے انہیں کہیں اور چلنے کو کہا تھا، تھوڑی دیر بعد ہم دونوں راول پنڈی کے ریلوے اسٹیشن پر موجود تھے، کوئی ٹرین آچکی تھی اور مسافروں سے اسٹیشن کچھا کچھ بھرا ہوا تھا۔ یہاں بھی بابا مجھے مختلف مسافروں کی کہانیاں سنا رہے تھے، عجیب کہانیاں، لیکن میرے اندر بس ایک ہی جوار بھاٹا چل رہا تھا کہ آخر اس کہانیوں کی سچائی کی تصدیق کیسے کی جائے، میں تو کسی کو جانتا نہیں ہوں اور نا ہی اس کا امکان تھا کہ میں کسی اور وقت آکر ان کہانیوں کی سچائی معلوم کرسکوں اس لیے یہاں تو سب مسافر تھے ابھی ہیں اور کچھ دیر بعد وہ اوجھل ہوجائیں گے تو میں انہیں کیسے اور کہاں ڈھونڈتا اور تصدیق کرتا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں آخر کیا کروں؟ میں اپنا تجربہ بالکل فراموش کرچکا تھا کہ جب میں بابا سے ملا تھا، تب بھی تو انہوں نے مجھے سب کچھ بتا دیا تھا، ہاں میں یہ بھول چکا تھا، انسان کی مت جب ماری جاتی ہے تو وہ ایسا ہی ہوجاتا ہے، سب کچھ فراموش کر دیتا ہے، اس کی عقل پر پتھر پڑجاتے ہیں، وہ کچھ سوچنے سمجھنے سے یک سر عاری ہوجاتا ہے، اور سچ تو یہ ہے کہ میں تو ہوں ہی کوتاہ اندیش، بے وقوف، جاہلِ مطلق اور گنوار جو ہمیشہ کرنے کے بعد سوچتا ہے، اچانک میرے اندر عجیب سا احساس پیدا ہوا کہ مجھے فوری طور پر بابا کے انکشافات کی تحقیق کرنا چاہیے اور میں نے ایسا کیا بھی۔

ہوا یوں کہ ایک شخص دو بچوں اور ایک خاتون کے ساتھ سر جھکائے افسردہ شکل بنائے اسٹیشن سے باہر نکل رہا تھا۔ بابا نے مجھے اس کی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہا: دیکھ رہے ہو اسے، ابھی کچھ دن پہلے اس کی ماں اتنی شدید بیمار تھی، اسے کئی مرتبہ اطلاع بھی دی گئی، لیکن نہیں ہوا ٹس سے مس، بے حس انسان، اور پھر آخر کیا ہوا بدنصیب کو اپنی ماں کا آخری وقت بھی نصیب نہیں ہوا، اس سے بڑی بدنصیبی بھلا اور کیا ہوگی، افسوس، اور یہ پہنچا بھی اس وقت جب ماں کو خاک آسودہ کردیا گیا تھا۔ میں بہ غور بابا کی باتیں سن رہا تھا، پھر بابا بولے: اب باپ بیمار ہوا تو فوراً ہی پہنچ گیا، جانتے ہو کیوں؟ نہیں بابا میں نہیں جانتا، میں نے جواب دیا۔ پھر بابا نے بتایا: اس لیے کہ باپ کے ترکے سے کہیں محروم نہ رہ جائے، اس لیے فوراً پہنچ گیا لالچی۔ مجھے افسوس تو ہوا کہ کس قدر بدنصیب ہے اور غصہ بھی آیا کہ عجیب آدمی ہے یہ اور پھر مجھ سے وہ حرکت سرزد ہو ہی گئی، میں غلط کہہ رہا ہوں کہ سرزد ہوگئی، میں نے قصداً ایسا کیا تھا، اس سے پہلے مجھے بابا روکتے میں بھاگتا ہوا اس شخص کے سامنے جا پہنچا اور اسے بے نقط سناتے ہوئے اس کے کرتوت اس کے سامنے کھول بیٹھا، اسے شرمندہ تو ہونا ہی تھا، لیکن وہ مجھے بت بنا دیکھ رہا تھا، اچانک اس کے منہ سے نکلا، لیکن یہ سب کچھ آپ کیسے جانتے ہیں، اور اسی کے ساتھ مجھے اپنی غلطی کا شدید احساس ہوا، لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا، میں نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو بابا وہاں موجود نہیں تھے۔

وہ شخص میرے ہاتھ پکڑے گڑ گڑا رہا تھا، اس کی بیوی مجھے حیرت سے دیکھ رہی تھی، آس پاس کے کچھ لوگ ہمیں گھور رہے تھے، میں نے اس سے اپنے ہاتھ چھڑانا چاہا لیکن اس کی گرفت بہت سخت تھی، بس وہ بار بار التجا کر رہا تھا کہ میں یہ سب کچھ کیسے جانتا ہوں، میں اسے غصے میں جھاڑتے ہوئے بولا، چھوڑو میرے ہاتھ، میں کچھ نہیں جانتا، جاؤ اپنا کام کرو، رب سے التجا کرو کہ تمہیں معاف کردے بدنصیب آدمی، لیکن وہ بہ دستور میرے ہاتھ پکڑے کھڑا تھا۔

آخر میں نے اسے دھمکایا اگر تم نے میرے ہاتھ نہیں چھوڑے تو بہت پچھتاؤ گے، پھر وہ کہنے لگا، مجھے محروم مت کیجیے، میں وعدہ کرتا ہوں جیسے آپ کہیں گے میں ویسا ہی کروں گا۔ پھر مجھ سے ایک اور بھیانک غلطی ہوئی، میں نے کہا ٹھیک ہے، میں فلاں قبرستان میں رہتا ہوں وہاں آجانا، اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے میرے ہاتھ چھوڑ دیے اور میں تیزی سے اسٹیشن سے باہر نکل آیا۔ میں پاگلوں کی طرح بابا کو ڈھونڈنے لگا لیکن وہ کہیں نظر نہیں آئے، اب میں قبرستان کی سمت دوڑ رہا تھا اور اس امید پر کہ بابا مجھے وہاں مل جائیں گے اور میں ان سے اپنی سنگین غلطی کی معافی طلب کروں گا، مجھے یقین تھا کہ وہ مجھے معاف کردیں گے۔

مجھے آس پاس کا کوئی ہوش نہیں تھا، بس میں سرپٹ بھاگتا چلا جارہا تھا اور پھر میں قبرستان میں اپنے ٹھکانے پر تھا، میں نے بابا کو وہاں نہ پاکر انہیں پکارنا شروع کیا، لیکن وہ موجود نہ تھے، میں نے قبرستان چھان مارا تھا لیکن وہ غائب تھے، میں نڈھال ہوکر کٹیا میں آکر لیٹ گیا تھا، خدشات میرے سامنے پھن پھیلائے رقص کناں تھے، پھر میںظہر کا انتظار کرنے لگا اس امید پر بابا نماز کے لیے تو تشریف لائیں گے ہی، ظہر کی اذان کا وقت ہوچکا تھا، میں مسجد پہنچا اور وضو کرکے رب کی کبریائی کا آوازہ بلند کیا، اب میں بابا کی آمد کا منتظر تھا، وہی تین مزدور آچکے تھے لیکن بابا کا کوئی اتا پتا نہیں تھا، پھر ایک بوڑھے مزدور نے بابا کا مجھ سے معلوم کیا، میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو اس نے نماز کی امامت کی، اور پھر وہ سب سنت و نوافل کے بعد چلے گئے، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں، بے بسی میرے سامنے تھی اور اس کے ساتھ محرومی بھی، کیسی غلطی میں کر بیٹھا تھا کہ بابا مجھ سے دُور چلے گئے تھے، لیکن امید کا ایک چراغ میرے اندر روشن تھا کہ وہ مجھے ایسے نہیں چھوڑ کے جاسکتے اور بس کچھ ہی دیر میں واپس آجائیں گے، اب تو عشاء کی نماز بھی ادا کی جاچکی تھی لیکن بابا ۔۔۔۔۔! میں اپنی کٹیا میں آکر لیٹ گیا تھا، آنسو میری آنکھوں سے دریا کی طرح رواں تھے، اور پھر میں اپنے حواس کھو بیٹھا تھا، میری چیخوں سے قبرستان گونج رہا تھا، میں پاگلوں کی طرح قبرستان میں انہیں پکارتا ہوا گھوم رہا تھا، آخر تھک ہار کر میں ایک بوسیدہ سی قبر کے سرہانے بیٹھ گیا پھر مجھے کوئی خبر نہیں ہوئی کہ میں سو چکا تھا، شاید نصف شب بیت گئی تھی کہ مجھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا، میں نے اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کی تو میری حیرت کی انتہاء نہ رہی تھی، وہی کالی چادر والی عظیم خاتون میرے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھیں جو مجھے روز اول اپنے مکان سے نکلتے ہوئے ملی تھیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔