جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر پر پابندی پر خاموشی کیوں
جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر الزام ہے کہ اس نے بھارتی فوج کے مقابلے پر پاکستان کی فوج کا ساتھ دیا تھا۔
جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر پر ہندوستان کی حکومت نے پانچ سال کے لیے پابندی لگا دی ہے۔مودی نے جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کو دہشتگرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں کی گرفتاریاں شروع ہو چکی ہیں۔جماعت اسلامی کے اثاثے ضبط کر لیے گئے ہیں۔ دفاتر بند کر د یے گئے ہیں۔
جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر پر پابندی جماعت اسلامی کے سر پر ایک تمغہ ہے۔ اس کی ثابت قدمی کی مثال ہے۔پلوامہ کے واقعہ کے بعد جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے اس وقت امیر سمیت تین سو سے زائد رہنماگرفتار ہو چکے ہیں۔ انھیں مختلف مقدمات میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اور جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کب تک جیل میں رہیں گے۔ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر پر پابندی مودی کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں لگائی گئی ہے۔
جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر پر یہ کوئی پہلی دفعہ پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔ اس سے پہلے اندرا گاندھی نے بھی جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر پر پابندی لگائی تھی۔ لیکن پانچ سال بعد اس پابندی کی تجدید نہیں کی گئی تھی۔ جس کی وجہ سے جماعت اسلامی پانچ سال بعد بحال ہو گئی تھی۔ ایک دور میں جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کو حزب المجاہدین کے سیاسی ونگ کے طور پر بھی لیا جاتا تھا۔یہ مجاہدین کی سیاسی آواز سمجھی جاتی تھی۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے جعلی انتخابات میں بھی حصہ لیتی تھی۔ سید علی گیلانی بھی جماعت اسلامی کے ٹکٹ سے ہی منتخب ہوئے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ بھارتی تسلط میں ہونے والے جعلی انتخابات کشمیر کے مفاد میں نہیں ہیں۔
جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر نے انتخابی سیاست سے علیحدگی اختیار کر لی۔ لیکن پھر بھی جماعت اسلامی کشمیر میں حق خود ارادیت کی ایک مضبوط آواز سمجھی جاتی ہے۔ اس نے اقوام متحدہ کی قرارداوں کے تحت مسئلہ کشمیر کے حل کا پرچم سر بلند رکھا۔ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر میں اپنے فلاحی اور سماجی کاموں کی وجہ سے بھی ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔جماعت اسلامی کے اسی کام کی و جہ سے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے حمایتی بھی جماعت اسلامی سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی پر پابندی پر شائد پاکستان سے تو کوئی بلند آواز سامنے نہیں آئی ہے البتہ محبوبہ مفتی نے جماعت اسلامی کے حق میں پر زور آواز بلند کی ہے۔وہاں جماعت سلامی کے زیر انتظام چلنے والے سیکڑوں اسکول بند ہو رہے ہیں۔ ان اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ بیروزگار ہو گئے ہیں۔ فلاحی ادارے بند ہو گئے ہیں۔
جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر پر پابندی پہلا مرحلہ ہے۔ بات یہاں نہیں رکے گی۔ خبریں ہیں کہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر پر پابندی پر ردعمل جانچنے کے بعد مودی حریت کانفرنس پر بھی پابندی لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کشمیر میں حق خود ارادیت کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز پر پابندی لگانے کی حکمت عملی پر کام شروع ہو گیا ہے۔ یہ پابندیاں کشمیر کاز کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ان پر پابندیوں کے بعد بھارت کہے گا کہ پاکستان اس کی جانب سے غیر قانونی قرار دی گئی تنظیموں سے کیوں رابطہ رکھتا ہے۔ حریت کانفرنس کی پاکستانی حکام سے ملاقاتوں پر بھارت پہلے ہی اعتراض کر چکا ہے۔ اب ان پر پابندی لگا کر ان کی قانونی حیثیت کو بھی ختم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی پر پابندی پہلا قدم ہے۔
جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے طرز پر جماعت اسلامی بنگلہ دیش بھی اسی قسم کے حالات کا شکار ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش مقبوضہ کشمیر سے بھی برے حالات کا شکار ہے۔ وہاں بھی ان پر پابندی لگا دی گئی ہو ئی ہے۔ بنگلہ دیش کے جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو سانحہ مشرقی پاکستان کے موقعے پر پاکستان کی حمایت کرنے اور بھارت کا ساتھ نہ دینے کے الزام میں پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر الزام ہے کہ اس نے بھارتی فوج کے مقابلے پر پاکستان کی فوج کا ساتھ دیا تھا۔ اس الزام کے تحت ان کو پھانسی کی سزائیں دی جا رہی ہیں۔ بنگلہ دیش میں انھیں غدار قرار دیا جا رہا ہے۔ آج بھی وہ پاکستان کی حمایت کرنے پر سزائیں سہہ رہے ہیں۔ لیکن ہم خاموش ہیں۔وہ جو پاکستان کے لیے پھانسی لگ رہے ہیں۔ ہم انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ وہ آج بھی پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ لیکن ہم ان کو اپنا ہیرو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ بنگلہ دیش میں پاکستان کی حمایت کرنے والا ہر شخص ہمارا ہیرو ہے۔ وہاں کیمپوں میں پاکستان کا جھنڈالگا کر رہنے والے ہمارے سر کے تاج ہیں۔ ہم ان کے مجرم ہیں۔ ہم ان کی قربانیوں کا صلہ نہیں دے سکے ہیں۔ آج انھیں وہاں بھارت کے ظلم کا سامنا ہے۔ لیکن وہ پاکستان کے ساتھ ہیں ۔ اور ہم ان کے لیے کلمہ خیر کہنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔
جماعت اسلامی پاکستان کی صورتحال بھی زیادہ اچھی نہیں ہے۔ ہم نے جماعت اسلامی پاکستان کے ساتھ بھی کوئی مختلف سلوک نہیں کیا ہے۔ کیا آج مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی جس مقام پر پہنچ گئی ہے اس میں جماعت اسلامی کا کوئی کردار نہیں ہے۔ پاکستان میں کشمیری مجاہدین کے لیے جو کام جماعت اسلامی نے کیا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیکن جماعت اسلامی کے کام نے پاکستان کو کسی مشکل میں بھی نہیں ڈالا ہے۔بلکہ مدد ہی کی ہے۔ لیکن ہم نے جماعت اسلامی کو مسئلہ کشمیر سے الگ کر دیا ہے۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو رہا ہے۔
جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے پاکستان سے محبت کی جو داستان رقم کی ہے اس نے جماعت اسلامی پاکستان کا سر بھی فخر سے بلند کر دیا ہے۔ جو لوگ جماعت اسلامی کو قیام پاکستان کے موقعے پر پاکستان کی مخالفت کا طعنہ دیتے ہیں انھیں قیام پاکستان کے بعد استحکام پاکستان کے لیے جماعت اسلامی کے شاندار کردار کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ انھیں نظریہ پاکستان کی حفاظت کے لیے بھی جماعت اسلامی کے کردار کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔
جماعت اسلامی پاکستان کی واحد جمہوری جماعت ہے۔ جہاں ووٹ کی طاقت سے قیادت سامنے آتی ہے۔ سراج الحق جیسا غریب آدمی بھی امیر جماعت اسلامی منتخب ہو سکتا ہے۔ کوئی خاندانی سیاست نہیں ہے۔ کوئی موروثی سیاست نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت پر پاکستان میں شراکت اقتدار ہونے کے باوجود کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ ان کا کوئی رہنما نیب کو مطلوب نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی جماعت اسلامی عوامی توقعات پر پورا نہیں اترتی۔لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں دیتے۔
پاکستان کی پارلیمنٹ کو جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔ اس پرپابندی کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ ان کے رہنمائوں کی رہائی کے لیے آواز اٹھانی ہوگی۔ ہم ان کو مودی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ جیسے ہم نے بنگلہ دیش میںجماعت اسلامی کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔