لڑائی لڑائی معاف کرو
ہماری کم از کم دو نسلیں اس آگ کا ایندھن بن چکی ہیں۔
مجھے یاد ہے ہمارے بچپن میں جب کبھی بچوں کی لڑائی کے بعد صلح صفائی کی بات ہوتی تھی تو سب بچے مل کر اس طرح کے گیت گایا کرتے تھے کہ:
لڑائی لڑائی معاف کرو
اپنے دل کو صاف کرو
گزشتہ تین ہفتوں سے بالخصوص اور پچھلے اکہتر برس سے بالعموم ہم یہ سبق بھولے ہوئے ہیں اور ہماری کم از کم دو نسلیں اس آگ کا ایندھن بن چکی ہیں۔ کل شام جب بھارتی فضائیہ کے گرفتار ونگ کمانڈر ابھی نندن کو بھارتی حکام کے سپرد کیا جا رہا تھا تو ساری کارروائی کے دوران میرا ذہن اسی الجھن میں مبتلا رہا کہ ساری دنیا یہ کہتی ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی بلکہ یہ خود ایک ایسا مسئلہ ہے جوکئی کئی نسلوں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ مگر اس کے باوجود ہر موقع پر جنگ ہی کو منصفِ اعلی کی حیثیت دی جاتی ہے ایسا کیوں ہوتا ہے؟
یہ اپنی جگہ پر ایک بہت بڑا اور مستقل سوال ہے سو اس بحث کو کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہوئے ہم موجودہ صورتحال کو حتی الممکن ایک معروضی انداز میں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
1۔ یہ کشمیر کے ایک حصے پر بھارتی قبضے سے پیدا ہونے والی صورتحال اور کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی کوششوں کا ہی ایک تسلسل ہے جس میں برہان وانی کی شہادت کے بعد ایک نئی زندگی پیدا ہو گئی ہے۔
2۔ اس کی وجہ پاکستان میں قائم دو مبینہ جہادی گروپ ہیں جو افغان وار کے نتیجے میں سامنے آئے اور جن کے ایجنڈے میں کشمیر کی آزادی بھی نہ صرف شامل ہے بلکہ وہ اس کے لیے کشمیری نوجوانوں کی عسکری تربیت اور انھیں اسلحہ کی فراہمی وغیرہ بھی کر رہے ہیں۔ بھارتی بیانات کے مطابق 2001ء سے لے کر اب تک یہی جہادی گروپ بھارت میں ہونے والی ہر تخریبی اور دہشتگردانہ سرگرمیوں کی وجہ اور بنیاد رہے ہیں۔ اس ضمن میں ممبئی، کارگل، پٹھان کوٹ اور حالیہ طور پر پلوامہ کارروائی کا خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔
3۔ پاکستان کی طرف سے اس طرح کے عسکریت پسند بھارتی گروپس کا ذکر بھی کیا جاتا ہے جو گجرات کے قتل عام اور سمجھوتہ ایکسپریس وغیرہ پر حملے کے واقعے میں شریک رہے ہیں۔
4۔ اس صورتحال کا براہ راست تعلق بھارت میں ہونے والے آیندہ انتخابات سے ہے جس میں کامیابی کے لیے نریندر مودی اور بی جے پی نے ہمیشہ کی طرح پاکستان کارڈ کھیلنے کی کوشش کی ہے۔
5۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے مطابق پاکستان بھارت سے مستقل اور انصاف پر مبنی برابری کے دوستانہ تعلقات چاہتا ہے اور اس ضمن میں ہر طرح کی بات چیت اور عملی اقدام کے لیے نہ صرف تیار ہے بلکہ ایک قدم کا جواب دو قدموں سے دے گا اور یہ کہ پلوامہ حادثے سے پاکستانی حکومت کا کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں اور بالخصوص موجودہ صورتحال میں جب کہ پاکستان کرپشن کے خلاف اور معاشی مشکلات کو دور کرنے میں مصروف ہے ایسی حرکت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
6۔ دونوں ملکوں کے عوام کی بہت بڑی اکثریت امن کے خواہاں ہیں لیکن اپنی سرحدوں اور آزادی کی قیمت پر کوئی بھی ایسے امن کے ساتھ کھڑا نہیں ہونا چاہتا جس میں اس خواہش کو کمزوری یا بزدلی سے تعبیر کیا جائے۔
اس بات کومزید پھیلا کر بھی بیان کیا جا سکتا ہے لیکن میرے خیال میں معاملے کو سمجھنے کے لیے یہ تصویر بہت کافی ہے البتہ اس کی جو شکل میڈیا (یہاں میں یقین کے باوجود بھارتی میڈیا کو پوری صورتحال کو بگاڑنے کے ضمن میں واضح اور علیحدہ کر کے نامزد نہیں کر رہا کہ اس سے بات پھر بگڑ جائے گی) دکھا رہا ہے وہ انتہائی خطرناک اور فتنہ انگیز ہے جس کی ایک مثال ونگ کمانڈر ابھی نندن کی امن کی خاطر یکطرفہ رہائی بھی ہے کہ اس کو بھی پاکستان کی کمزوری اور کسی غیبی دباؤ سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اب یہ کس سے پوچھا جائے کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے کمزور یا مجبور کیسے ہو سکتا ہے۔ خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی طرف سے بہت سے اہل فکرونظر کھل کر ان تضادات کی ماہرانہ اور غیر جانبدارانہ نشاندہی کر رہے ہیں جن کی وجہ سے یہ صورتحال مسلسل ہم سب کا پیچھا کر رہی ہے اس امید کے ساتھ کہ بہت جلد یہ سوچ حکمران طبقہ اور عالمی امن کے ان نام نہاد ٹھیکے داروں کو بھی قائل کرے گی جن کے لیے پاکستان اور بھارت اپنے اپنے معاشی پھیلاؤ سے قطع نظر دو منافع بخش منڈیاں ہیں۔
دو باتوں کی طرف ضرور اشارہ کرنا چاہوں گا کہ مودی یا عمران خان سے اختلاف کا اظہار آپ ان کے مجسمے وغیرہ جلانے سے بے شک کر لیں ( اگرچہ یہ بھی کوئی مستحسن بات نہیں) لیکن دونوں ملکوں کے جھنڈوں کا احترام سب پر یکساں واجب ہے کہ کوئی بھی عزت دار اور انصاف پسند آدمی اپنے قومی پرچم کی توہین برداشت نہیں کر سکتا سو اس کے اظہار اور نمائش دونوں سے گریز لازمی ہے اور دوسری بات صرف اپنے پاکستانی بھائیوں اور حکومتی طبقوں سے ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کی جو تصویر دکھائی گئی اور جس طرح سے ان کی کردار کشی کی گئی اس کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ موقع ہے کہ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی اس عظیم خدمت کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے اور ان سب لوگوں کو سلام عقیدت پیش کیا جائے جن کی محنت کی بدولت آج ہم اس قابل ہیں کہ نریندر مودی جیسے متعصب اور امن دشمن لوگوں کو بھی کچھ کرنے سے پہلے دس بار سوچنا اور ڈرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی محسن کی احسان فراموشی ایک قومی جرم ہے جس سے ہر ممکن طریقے سے بچنا چاہیے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اینڈ کمپنی کو سلام پیش کرنے کے ساتھ ساحر لدھیانوی کی اس خوبصورت نظم کو بھی ہدیہ تحسین پیش کرنا لازم ہے کہ اس نے ہم سب کے دل کی بات کو آواز اور زبان دی ہے۔
اے شریف انسانو
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امنِ عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے