دیا جلائے رکھنا ہے
یہ آج سے ٹھیک ایک سو تینتیس سال قبل 27 جولائی 1880 کا واقعہ ہے افغانستان کے موجودہ صوبہ قندھارکے۔۔۔
یہ آج سے ٹھیک ایک سو تینتیس سال قبل 27 جولائی 1880 کا واقعہ ہے افغانستان کے موجودہ صوبہ قندھارکے قریب علاقہ میوند کے میدان میں برطانوی فوج کے خلاف پختونوں کا لشکر اس وقت کے کمانڈر ایوب خان کی قیادت میں بر سر پیکار تھا ۔فضا بندوقوں کی آواز اور تلواروں کی جھنکار سے گونج رہی تھی گولا بارود کی بارش برس رہی تھی۔دوران جنگ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ پختونوں کے حوصلے پست نظرآنے لگے اور عین ممکن تھا کہ وہ میدان جنگ چھوڑکر بھاگ جاتے اور اپنی شکست تسلیم کرلیتے کہ ایک خوبصورت پختون دوشیزہ ملالہ اچانک جنگ کے میدان میں نمودار ہوئی اپنے دوپٹے کو جھنڈا بنا کر لہرایا اور یہ تاریخی پشتو اشعار گائے ( میرے محبوب اگر تم آج میوند کے میدان میں شہید نہ ہوئے تو ساری زندگی لوگ تمہیں بے غیرتی کا طعنہ دیں گے )۔
ملالہ کی یہ آواز جب پختون مجاہدین کے کانوں تک پہنچی تو ان میں لڑنے کا ایک نیا جنون جوش و جذبہ اور ولولہ پیدا ہوا اور وہ برطانوی فوج پر شیروں کی طرح ٹوٹ پڑے جس کی وجہ سے برطانوی فوج شکست کھا کر میدان جنگ سے بھاگنے پر مجبور ہوگئی اور پختون جنگ میوند میں فاتح ٹہر ے اور ملالہ کے اشعار اور اس کا نام اورکارنامہ پختون تاریخ میں جرأت کا ایک نیاباب اور جنگ کے خلاف مزاحمت کی ایک نئی آواز بن گیا۔ ملالہ میوند کے قریب خیگ نامی گائوں میں ایک گڈریے کے ہاں 1861 میں پیدا ہوئی تھی جنگ میوند کے موقعے پر اس کی عمر 19سال تھی جس جنگ کو جیتنے کا سہرہ ملا لہ کے سر جاتا ہے اس میں اس کاباپ اور منگیتر بھی شریک تھے اور ان دونوں نے اس معرکے میں جام شہادت نوش کیا۔ برطانوی فوج کے اس وقت کے جرنیل کا کہنا تھا کہ ہم نے ملالہ کی وجہ سے شکست کھائی اگر وہ میدان جنگ میں اپنا دوپٹہ نہ لہراتی ٹپہ نہ گاتی تو ہم یہ جنگ جیتنے والے ہی تھی۔
ادھر دوسری جانب 12 جولائی2013 کو سوات کی طالبان کی نظر میں سب بچیوں کو تعلیم دلانے کی مجرم ملالہ شہید بینظیر بھٹو کا دوپٹہ اوڑھے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 80 ممالک سے تعلق رکھنے والے بچوں سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف قلم اور کتاب کو اپنا ہتھیار بنانا ہوگا تعلیم ہی تمام مسائل کا حل ہے ایک طالب علم ایک استادایک قلم اور ایک کتاب دنیاکو بدل سکتی ہے پاکستان میں آج اکیسویں صدی میں بھی لڑکیاں تعلیم کا خواب نہیں دیکھ سکتیں کیونکہ انتہا پسند تعلیم کے ذریعے آنے والی تبدیلی سے ڈرتے ہیں اور مذہب کو اپنے مذموم مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں انتہا پسندتعلیم اور کتاب سے خو فزدہ ہیں۔ 1880میں ملالہ نے اپنے اشعار کے ذریعے جرأت اور جنگ کے خلاف مزاحمت کا نیاباب رقم کیاتھا آج سوات کی 16سالہ ملالہ پاکستان کے 18 کروڑ انسانوں کو جہالت ، نفرت ، دہشت گردی، انتہا پسندی کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کا پیغام دے رہی ہے ۔ وہ پاکستان پر طاری اندھیروں کو ختم کر نے کے لیے اپنے حصے کا ایک دیا روشن کرنے کا پیغام دے رہی ہے۔
برٹش پارلیمنٹ میں ہیوگ لا تیمر کی تصویر آج تک آویزاں ہے ۔ اس تصویر میں وہ نوجوان بادشاہ ایڈورڈ کو نصیحت کرتا دکھائی دیتاہے ۔ کیمبر ج میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسے یونیورسٹی کی طرف اس امر کا اجازت نامہ حاصل ہوگیا کہ وہ انگلستان میں جہاں چاہے وعظ ونصیحت کر سکتا ہے لاتیمر بہت بڑا واعظ تھا ۔ اس نے ہر بدی کے خلاف آواز اٹھائی ۔ وہ صاف اور سلیس الفاظ میں نہایت جرأت سے اپنے خیالات ظاہر کرتا۔ آہستہ آہستہ اس نے بہت سے مروجہ عقیدوں کی تصدیق کرنے سے انکار کردیا۔ وہ ان عقیدوں کو غیر ضروری خیال کرتا تھا۔ اب پادریوں نے اسے شک و شبہ کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کیا پادریوں نے اسے وعظ کر نے کے حق سے محروم کر دینا چاہا۔ اس نے ہنر ی ہشتم کی موجو دگی میں شاہی محل میں وعظ کیا ۔ شاہ انگلستان نے اس کی صا ف گوئی کی بہت تعریف کی۔ 1535 میں اسے دوکسٹر کا بشپ مقرر کردیا گیا ۔
لاتیمر بشپوں کے خلاف بہت کچھ لکھ چکا تھا۔ لیکن اب وہ خود ایک بشپ تھا ۔ اس نے بشپوں کی مخالفت ضرور کی تھی ۔ لیکن صرف عشرت پسندوں اورکاہلوں کی ، وہ اصلاح پسند تھا لیکن اس کے زمانہ میں تبدیلیاں ہورہی تھیں ۔ وہ عبوری دور کا اصلاح پسند تھا۔ شاہ ہنری کلیسا پر غالب آچکا تھا ۔ ہنری ہشتم کا عہد احیا اور اصلاح کی تحریکوں کا زمانہ تھا۔ تحریک احیا ء نے یورپ کے ملکوں کو علوم و فنون سے آشنا کیا۔علوم و فنون نے انہیں زندگی کے سارے مسائل پر غور و فکر کرنے پر آمادہ کیا ۔ چنانچہ زندگی کے دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ کلیسا پر بھی غور ہونے لگا۔ احیا نے لوگوں کو جہالت میں پایا ۔ اصلاح نے لوگوں کو گناہ میں ڈوبا ہوا دیکھا ۔ مارٹن لوتھر نے پوپ اور رومی کلیسا کے خلاف آواز بلند کی ۔ انگلستان کے ہنری ہشتم نے لوتھر کے خلاف ایک کتاب لکھ کر پوپ سے ''محافظ دین '' کا خطاب حاصل کیا لیکن ملکہ کیتھرائن کے طلاق کی جب پوپ نے اجازت نہ دی تو ہنری ہشتم نے پارلیمنٹ سے ایک قانون منظور کرایا جس کی رو سے، شادی، وصیت اور طلاق کے مقدموں میں انگلستان کے کلیسا کا فیصلہ قطعی قرار دیا گیا۔
ایک دوسرے قانون کے ذریعے کلیسا میں پوپ کانام لینا ممنوع قرار پایا۔ ہنری ہشتم نے انگلستان میں پوپ کے اقتدار کو ختم کر دیا لیکن مذہبی عقیدوں اور عبادت کے طریقوں میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی۔ ہنری پروٹسٹنٹوں کا دشمن تھا۔ وہ انہیں بے دین قرار دے کر آگ میں زندہ جلا دیتا ۔ رومی کلیسا کے حامیوں کو وہ اس لیے قتل کر ادیتا تھاکہ وہ پوپ کے حامی تھے ۔ اس نے خانقاہوں کو مسمار کر دیا۔ ان کی جائیدادوں کو ضبط کرلیا۔ لاتیمر خانقاہوں کی اصلاح کا حامی تھا۔ ہنری نے اسے شاہی پادری مقرر کر دیا۔ وہ ہر بدھ کو شاہی دربار میں وعظ کرتا۔ اس کے سننے والے مذہب کے بارے میں شک و شبہ میں مبتلا تھے ۔ بشپ مقرر کیے جانے کے پہلے سال میں اس نے بت پرستی کے خلاف قدم اٹھایا۔ چوتھے سال جب کہ ایک قانون میں ایسے عقیدوں کو داخل کر دیا گیا تھا جن سے وہ متفق نہیں تھا ۔ اسے بشپ کے عہدہ سے علیحدہ ہونا پڑا۔ لاتیمر کو فوراً گرفتار کر لیاگیا۔ بادشاہ اسے موت کی سزادینا چاہتا تھا لیکن ایک درباری نے اس سے کہا کہ '' آپ اس کی منفرد شخصیت پر غور کریں ۔ اور اس شخص کو آناً فاناً موت کے گھاٹ نہ اتاریں ۔
جسے قدرت اور آرٹ نے اپنی گود میں اتنی دیر سے پالا ہے '' جب دوسر ے لوگوں کو قتل کیا جارہا تھا وہ جیل میں تھا ۔ ایک سال گزر گیا۔ اسے اس شرط پر رہا کر دیا گیا وہ لندن میں نہ رہے اورنہ وعظ کہے ۔آٹھ سال تک وہ خاموش رہا آخر اس نے اپنے ایک دوسرے دوست کو جس پر اسی قسم کی پابندی عائد تھی ۔وعظ کہنے کا مشورہ دیا ۔ اس جرم کی بنا ء پر اسے ٹاور میں قید کر دیا گیا۔ ہنری کی موت تک وہ قید ہی میں رہا ۔ ایڈور ڈ ہشتم نے اسے درباری واعظ مقرر کیا پارلیمنٹ نے اس کے لیے ایک عہدے کی سفار ش کی جسے اس نے قبول نہ کیا۔ نوجوان بادشاہ ایڈورڈ کی موت کے بعد میری ٹیوڈر نے رومی کلیسا کی حمایت میں تلوار اٹھائی ۔ پر وٹسٹنٹوں کو آگ میں زندہ جلایاگیا ۔ اس نے پوپ کے اقتدار کو بحال کیا۔ اس نے دعائوں کے انگریزی ترجموں کو کلیسائوں سے نکال کر لاطینی زبان کی دعائوں کو رائج کیا ۔ اس نے انگلستان کو ہنری ہشتم سے پہلے کا رومی کلیسائی انگلستان بنادیا۔
میری ٹیوڈر کے غضب سے لاتیمر کیونکر بچ سکتا تھا میری نے تاجپوشی سے پہلے ہی اسے گرفتار کرلیا۔ وہ بیمار اور کمزور تھا۔ اسے ایک سال تک قید میں رہنا پڑا ۔ اس کے ساتھ بشپ ریڈ ے بھی تھا۔ لاتیمر کو تائب ہونے کے لیے کہا گیا لیکن وہ بدستور یہ کہتا رہا کہ وہ نماز عشائے ربانی نہیں مانتا ۔ بیلییل کالج آکسفورڈ کے قریب زندگی کو آگ کی نذر کیے جانے کا تماشا دیکھنے کے لیے لوگوں کا ہجوم ہے ۔ دو قیدی ظا ہرہوتے ہی ان سے تائب ہونے کے لیے کہا جا تا ہے لیکن وہ انکار کر دیتے ہیں ۔ دونوں کے کپڑے اتار کر انہیں ایک زنجیر سے باندھ دیا گیا ۔ دونوں کی گردنوں میں بارود کی تھیلیاں لگا دی گئیں ۔ دونوں زندہ جلا ئے جارہے ہیں ۔ لاتیمر نے اپنے ساتھی سے کہا '' ماسٹر ریڈے ، بہادر بنو ! کیونکہ ہم آج خدا کے فضل سے انگلستان میں ایک ایسا دیا روشن کررہے ہیں جو کبھی نہیں بجھ سکے گا''آئیں ہم بھی سب پاکستانی مل کر انتہا پسندی ، بنیاد پرستی، دہشت گردی ،نفرت ، رجعت پرستی کے خلاف ایسا دیا روشن کردیں جو کبھی نہ بجھ سکے۔