جنگ سرحد پر نہیں رہتی

حالیہ کشیدگی کی بناء پر بھارت اور پاکستان میں فضائی سفر رک گیا۔


Dr Tauseef Ahmed Khan March 06, 2019
[email protected]

پاکستان اور بھارت میں جنگ کے بادل جھٹ گئے۔ بھارتی طیارے کے پائلٹ ابھی نندن کو وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر واہگہ بارڈر پر بھارت کے حوالے کردیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی نشری تقریر میں پلوامہ میں پیرا ملٹری فورس کے جوانوں کی خودکش حملے میں ہلاکتوں پر تعزیت کی۔ انھوں نے کہا کہ وہ ان ہلاک ہونے والے جوانوں کی ماؤں اور عزیز و اقارب کے غم کو محسوس کرتے ہیں۔

بھارت نے پلوامہ میں دہشتگردی میں ملوث عناصر کی شناخت کے بارے میں ڈوزیئر پاکستان کے حوالے کیا۔ امریکا، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت نے بھارت اور پاکستان کے درمیان ممکنہ جنگ کو روکنے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ کیا دونوں ممالک کے درمیان پیدا شدہ مسائل کے حل کے لیے دو طرفہ بات چیت ہوگی؟

اس خطے کے مستقل امن کے لیے اہم ترین مرحلہ یہی ہے۔ بھارت اور پاکستان میں ان تنازعات سے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔ بھارت نے پلوامہ دہشتگردی کے واقعے کے بعد پاکستان کا تجارتی شعبے میں پسندیدہ ترین ملک کا درجہ ختم کردیا۔ اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک کے درمیان تجارت رک گئی۔ تجارت بند ہونے سے پاکستان سے سیمنٹ لے جانے والے سیکڑوں ٹرک سرحد پار نہیں کرسکے، جس کی وجہ سے بھارت میں سیمنٹ کی قیمتیں غیر مستحکم ہوگئیں ، پاکستان میں سیمنٹ کے کارخانوں کی پیداوار متاثر ہوئی۔

اس فیصلے سے بھارت کے سبزیاں اور پھل پیدا کرنے والے کسان براہِ راست متاثر ہوئے۔ گجرات کے کسانوں کوکیلے کی نئی مارکیٹ تلاش کرنے تک خسارے کو برداشت کرنا پڑا۔ پاکستان بھارت سے کروڑوں روپے کی ادویات درآمد کرتا ہے۔ یہ ادویات قیمت میں کم اور معیاری ہوتی ہیں اور بھارت سے ادویات کی درآمد سے پاکستان میں دوائیوں کے بڑھنے کے رجحان پر قدغن لگتی ہے۔

حالیہ کشیدگی کی بناء پر بھارت اور پاکستان میں فضائی سفر رک گیا۔ بھارت کے چار بڑے ہوائے اڈے پروازوں کے لیے بند ہوگئے اور پاکستان میں فضائی سفر طور پر معطل ہوگیا۔ ہزاروں افراد مختلف شہروں میں پھنس گئے، ان کے پاس رہائش اور پیسے کی قلت پیدا ہوگئی۔ کتنے افراد اپنے قریبی عزیزوں اور دوستوں کی شادیوں میں شرکت نہ کرسکے اور کئی بدقسمت اپنے پیاروں کو ان کے آخری سفر میں کاندھا تک نہ دے سکے۔ صرف ملک کے اندر ہوائی سفرکرنے والے ہی نہیں بلکہ غیر ملکی بھی مختلف بین الاقوامی ایئرپورٹ پر پھنس گئے۔

صرف بنکاک ایئرپورٹ پر 4 ہزار مسافر رک گئے۔ وزارت دفاع نے سمجھوتہ ایکسپریس کو نئی دہلی روانہ ہونے سے روک دیا، کئی بھارتی اور پاکستانی خاندان لاہور اور امرتسر کے ریلوے اسٹیشنوں کے فٹ پاتھوں پر سرد راتوں میں ٹھٹھرتے رہے۔ پاکستان سے سنگین امراض میں مبتلا مریض علاج کرانے کے لیے بھارت میں علاج کی سہولت سے محروم ہوئے ، مختلف محکموں میں ایمرجنسی نافذ ہوگئی۔ افسروں اور جوانوں کی چھٹیاں منسوخ ہوگئیں۔ ان افراد کو اپنی ڈیوٹیوں پر فوری طور پر پہنچا پڑا۔ ملک کی معیشت جو پہلے ہی بحرانوں کا شکار تھی اس بحران کی بناء پر نئے بحران کا شکار ہوگئی۔ حکومت کو پیٹرول اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا۔ پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوںکے اثرات بنیادی اشیائے خورونوش پر پڑتے ہیں۔ افراطِ زر کی شرح بڑھ گئی۔

حکومت نے چند ماہ قبل جب روپے کی قیمت میں کمی کا فیصلہ کیا تھا تو مہنگائی کا ایک بڑا طوفان آیا تھا۔ ایک خام اندازے کے مطابق اشیائے صرف کی قیمتوں میں 30 سے 40 فیصد تک کا اضافہ ہوا تھا۔ اگر پیٹرل اور مٹی کے تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو حکومت کو ہنگامی حالات میں ہونے والے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مزید رقم کی ضرورت پڑتی ہے تو حکومت قرضہ لینے پر مجبور ہوگی یا مزید کرنسی نوٹ شایع کرنے کا فیصلہ ہوگا ۔ دونوں صورتوں میں مہنگائی بڑھے گی، حکومت کو دفاعی اخراجات کے لیے اضافی بجٹ فراہم کرنا پڑے گا۔ کنٹرول لائن پر مسلسل کشیدگی سے دونوں طرف آباد ہزاروں خاندانوں کو اپنے گھر چھوڑنے پڑے۔ بھارت میں 20 ملین لوگ اور پاکستان میں 40 فیصد افراد خط غربت کے نیچے زندگی گزاررہے ہیں۔ دونوں ممالک کی آبادی کے اتنے بڑے حصہ کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا ۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان سب سے پہلے 1948ء میں کشمیر محاذ پر، 1965ء میں پہلے کچھ دن پورے ملک میں 1971ء میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے محاذ پر پھر 1984ء میں سیاچن اور 1998ء میں کارگل پر بڑی اور چھوٹی جنگوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 2002ء میں بھارتی پارلیمنٹ اور 2008ء میں ممبئی میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی خطرناک حد تک بڑھ گئی تھی۔ تین بڑی اور تین چھوٹی جنگوں میں دونوں طرف کے کئی ہزار شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے تھے۔ ان جنگوں میں دونوں ممالک کی معیشت کو سخت نوعیت کے نقصانات ہوئے تھے۔ دونوں ممالک کو مسلسل اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرنا پڑا تھا مگر اتنی بھاری قیمت ادا کرنے کے باوجود بھارت اور پاکستان کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑا تھا ۔

2002ء میں نئی دہلی میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے اور پھر ممبئی میں 2008ء میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے بعد صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے دونوں ممالک کی قیادتوں کو بات چیت کی میز کے گرد بیٹھنا پڑا تھا ۔ 1948ء میں سوویت یونین نے مصالحت کا کردار ادا کیا تھا مگر 1971ء کی جنگ کے بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور وزیر اعظم اندرا گاندھی نے شملہ میں بات چیت کرکے 80 ہزار پاکستانی فوجی، جنگی قیدیوں اور مغربی پاکستان نے 80 ہزار مربع میل علاقے کی پاکستان واپسی کا حل تلاش کیا تھا۔

اسی طرح سیاچن اور کارگل کے تنازعات پر بین الاقوامی ڈپلومیسی نے کردار ادا کیا، یوں یہ خطہ جنگ جیسی قیامت سے بچ گیا تھا۔ ان واقعات کے تجزیہ سے بار بار ثابت ہوتا ہے کہ جنگوں نے انسانوں کی ہلاکت اور دفاعی اخراجات میں اضافے کے علاوہ دونوں ممالک کو کچھ نہیں دیا اور اس خطے میں امن دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے ذریعے جنگوں سے مسائل حل نہ ہونے کا معاملہ صرف برصغیر کی حد تک محدود نہیں ہے ۔

گزشتہ 70 سال کی تاریخ گواہ ہے کہ ویتنام اور فلسطین جیسے بڑے مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے ہی نکلا۔ جب تک بھارت میں کانگریس کی حکومت تھی تو کانگریس حکومت کے اکابرین نے خطے میں امن کے لیے بات چیت کی اہمیت کو اولیت دی۔ دائیں بازو کی مذہبی انتہاپسند سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آئی اور دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے بات چیت کار استہ ترک کردیا، یوں مذاکرات کا راستہ بند ہونے سے عسکری طریقے کے استعمال کی اہمیت بڑھ گئی جس کا نقصان سب کے سامنے تھے۔

بھارت اور پاکستان کشمیر کے مسئلے سمیت تمام مسائل پر جامع مذاکرات کا عمل شروع کریں تو ہی مسئلہ کا حل نکل آئے گا۔ '' ہزار سال تک جنگ لڑنے ''کا نعرہ لگانے والے ذوالفقار علی بھٹوکی پوتی فاطمہ بھٹو کا کہنا ہے کہ جنگ کی حالت میں امن کی بات کرنا ہی سب سے بڑی بہادری ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے جو اقدامات کیے، انھیں بھارت سمیت دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے مگر حکومت کے ان اقدامات سے انتہاپسندوں کے عزائم کو ٹھیس لگی ہے جو اپنی خواہشات جنگ کے ذریعے پوری کرنے کے خواہاں ہیں۔ یہ انتہا پسند دونوں ممالک میں موجود ہیں۔ ان عناصر کو تنہا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مذاکرات کے عمل کو شروع کرنے پر توجہ دی جائے ۔

بھارت میں یہ سال انتخابات کا سال ہے، وہاں 45 دن بعد انتخابات منعقد ہوں گے ۔ مودی کی حکومت اپنے انتخابی معاملات کے الجھاؤ کے باعث فوری طور پر مذاکرات کے بارے میں فیصلہ نہیں کر پائے گی مگر سیاست دانوں کو ان واقعات کے پس پشت مسائل کو اجاگر کرنا چاہیے اور جنگ جیسی کیفیت سے بچنا چاہیے ۔ جنگ مسئلے کا حل نہیں، مسئلہ کا حل مذاکرات کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ نوجوان شاعر یاسر رضوی نے جنگ کے بھیانک نتائج کو یوں خوبصورتی سے دو شعروں میں پرو دیا ہے:

حب الوطنی کے نعروں میں

یا ٹویٹر کی للکاروں میں

اگر سچ مچ جنگ ہو جاتی ہے

تو جنگ سرحد پر رہتی نہیں

یہ تکیوں تک آجاتی ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں