جھوٹی گواہیاں جھوٹے مقدمات ناقص تفتیش
ہمارے نظام انصاف میں مقدمات میں تاخیر نے عوام کا نظام انصاف پر اعتماد متزلزل کر دیا ہے۔
KARACHI:
چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فوجداری مقدمات میں جھوٹی گواہیوں کے خلاف ایکشن لینا شروع کیا ہے۔ منصب سنبھالنے کے وقت ہی انھوں نے ملک میں جھوٹی گواہیوں کے خلاف بندھ باندھنے کا اعلان کیا تھا۔ وہ اپنے اعلان کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ جھوٹی گواہی ایک کلچر بن چکا ہے۔ عدالت میں جھوٹ بولنا عام بات بن گئی ہے۔ لوگ سر عام عدالت میں جھوٹ بولتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں ۔
جھوٹی گواہی کی بنیاد جھوٹے مقدمے سے شروع ہوتی ہے۔ جھوٹے مقدمے کو سچا ثابت کرنے کے لیے ہی جھوٹی گواہی دی جاتی ہے۔ اگر مقدمہ سچا ہو تو گواہی بھی سچی ہو گی۔ لیکن جب مقدمہ ہی جھوٹا ہو گا تو گواہی بھی جھوٹی ہوگی۔ اسی طرح جب تفتیش جھوٹی ہو گی تو گواہی جھوٹی ہو گی اور جب تفتیش سچی ہو گی تواس میں تفتیشی افسران کی گواہیاں بھی سچی ہوںگی۔ ہمارے معاشرے میں جھوٹے مقدمے درج کرانا ، غلط تفتیش کرنا ایک ناسور بن گیا ہوا ہے۔ اسی ناسور نے معاشرے میں عدالتوں کے لیے کام بھی مشکل کر دیا ہوا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے خلاف جھوٹے مقدمہ درج کراتے ہیں۔ غلط تفتیش کراتے ہیں اور سمجھاجاتا ہے کہ اس کی کوئی سزا نہیں ہے۔ جب تک سچ سامنے آئے گا بہت ٹائم لگ جائے گا ۔
اسی طرح ضمانت کے مقدمات کا بھی عدالتوں پر بے وجہ بوجھ ہے۔ ادھر جھوٹا مقدمہ درج ہوتا ہے ، ادھر پولیس ملزم کو پکڑنے کے لیے نکل پڑتی ہے۔ بیچارے بے گناہ کے پاس ضمانت حاصل کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوتا۔ پولیس اور دیگر تفتیشی اداروں کے پاس گرفتاری کے لامحدود اختیارات نے ملک میں جنگل کا قانون نافذ کر دیا ہے۔ کسی کو کسی بھی وقت، کسی بھی جھوٹے مقدمے میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ پولیس اور دیگر تفتیشی ادارے روزانہ راتوں کو شریف اور بے گناہ لوگوں کو گھروں سے اٹھاتے ہیں اور انھیں جھوٹے مقدموں میں گرفتار کرتے ہیں۔ کبھی کسی عدالت نے کسی تفتیشی افسر سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ نے ملزم کو کن شواہد کی موجودگی میں گرفتار کیا ہے۔ کیا صرف ضمانت اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
تفتیشی افسران رشوت سفارش کی بنا پر روزانہ عدالتوں میں جھوٹے چالان جمع کراتے ہیں۔ بے گناہ کو گناہ گار بنا دیا جاتا ہے اور گناہ گار کو بے گناہ بنا دیا جاتا ہے۔ ناقص تفتیش فوجداری مقدمات میں خرابی اور بے انصافی کی بنیاد ہے۔ لیکن جب عدالت تفتیش کو غلط قرار دے کر ملزم کو بری کرتی ہے یا بے گناہ کو گناہ گار قرار دیتی ہے تو کسی بھی تفتیشی افسر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ غلط تفتیش پر پاکستان میں کوئی سزا کیوں نہیں ہے؟ تفتیشی افسر کو اس طرح کھلی چھوٹ نے معاشرے میں نا انصافی اور ظلم کو پروان چڑھا دیا ہے۔ جب تک تفتیشی افسر کو اس کی تفتیش پر جوابدہ نہیں بنایا جائے گا تب تک مقدمات کی درست اور ایماندارنہ تفتیش ممکن نہیں۔
ایک دفعہ اگر عدالت ناقص، غلط اور جھوٹی تفتیش پر ایک تفتیشی افسر کو نوکری سے نکال دے گی، اس کو جیل بھیج دے گی تو غلط اور ناقص تفتیش کا راستہ بند ہو جائے گا۔اس کے لیے ٹھوس اور غیرمبہم قانون سازی ہونی چاہیے۔ جب تفتیشی افسر کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ غلط جھوٹی تفتیش اس کی گردن کا پھندا بن سکتی ہے تو و ہ کبھی جھوٹی اور غلط تفتیش نہیں لکھے گا۔
یہ بہت اچھی بات ہے کہ جھوٹی گواہی پر چیف جسٹس نے کیس سیشن جج کو بھجوانے کا عمل شروع کیا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک لمبا عمل ہے۔ اب دوبارہ جھوٹی گواہی پر ٹرائل ہوگا۔ وہ ٹرائل بھی سپریم کورٹ تک جائے گا۔ کون جھوٹی گواہی کے لیے سزا دلوانے کے لیے دوبارہ اتنی لمبی جنگ لڑے گا۔اس لیے جہاں جھوٹی گواہی کا مقدمہ سیشن جج کو بھیجنا ایک احسن اقدام ہے، وہاں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس سے عدالتوں پر اضافی بوجھ بھی شروع ہوگا۔ انصاف کا تقاضہ تو یہی ہے کہ جب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ گواہی جھوٹی ہے تو دوبارہ ٹرائل ضروری نہیں ہونا چاہیے۔ وہیں پر سزا دینے کی ضرورت ہے۔
ہمارے نظام انصاف میں مقدمات میں تاخیر نے عوام کا نظام انصاف پر اعتماد متزلزل کر دیا ہے۔ عرف عام میں کہا جاتا ہے کہ دادا کیس کرتا ہے اور پوتے کو انصاف مل جائے تو بڑی خوش قسمتی ہے۔ عدالتوں میں مقدمات میں اسی تاخیر کیو جہ سے لوگ جھوٹے مقدمات بنواتے ہیں، جھوٹے چالان جمع کراتے ہیں کہ سچ کے سامنے آنے میںبرسوں لگتے ہیں۔ اس لیے جھوٹی گواہی کے کیس دوبارہ ٹرائل کے لیے سیشن جج کو بھجوانا جہاں ایک مثبت اور احسن اقدام ہے وہاں اس میں بھی تاخیر کا پہلو موجود ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بھی وہ نتائج نہیں ملیں گی جن کی توقع کی جا رہی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جب مقدمہ میں یہ طے ہوجائے کہ گواہی جھوٹی ہے تب ساتھ ہی موقع پر اسی مقدمہ میں ساتھ ہی سزا دی جائے، الگ مقدمہ کی سماعت کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح جب ثابت ہوجائے کہ تفتیش جھوٹی ناقص تھی تو تفتیشی افسر کو بھی ساتھ ہی سزا دی جائے۔ ہرجانہ ڈالا جائے، نوکری ختم کی جائے ، جیل میں ڈالا جائے۔ جب طے ہوجائے کہ مقدمہ جھوٹا تھا تب جھوٹے مقدمے کو ساتھ ہی خارج کردیا جائے۔
وزیر اعظم عمران خان نے بھی چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے جھوٹی گواہیوں پر سزا دینے کے عمل کا خیر مقدم کیا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کی جانب سے خیر مقدم کافی نہیں ہے۔ ان کی ذمے داری اس سے زیادہ ہے۔ ملک میں جھوٹے مقدمات کے خلاف سخت قانون سازی کرنا بطور وزیر اعظم ان کی ذمے داری ہے۔ تفتیشی افسران کو غلط تفتیش پر سزا دلوانے کے لیے سخت قانون سازی کرنا بے گناہوں کی گرفتاری کو روکنے کے لیے قانون سازی کرنا اور سخت قواعد بنانابھی بطور وزیر اعظم عمران خان کی ہی ذمے داری ہے۔
اس ضمن میں جہاں عدالت نے اپنا کام شروع کر دیا ہے وہاں حکومت کو بھی اپنا کام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان پولیس کو غیر سیاسی کرنے کا نعرہ بہت لگاتے ہیں لیکن ابھی تک وہ اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں کر سکے ہیں۔ کوئی موثر قانون سازی سامنے نہیں آسکی ہے۔ کسی ایک افسر کو جھوٹے مقدمے اور غلط تفتیش پر انتظامی طور پر سزا نہیں دی گئی ہے۔ یہ کام صرف عدالت پر نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔
کہیں نہ کہیں حکومت کو بھی اپنی ذمے داری کا احساس کرنا ہوگا۔ پولیس کو غیر سیاسی کرنا ایک سیاسی نعرہ تو ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کی عملی شکل صرف اور صرف تب ہی ممکن ہے جب پولیس کو عوام کے سامنے جوابدہ کیا جائے گا۔ ابھی ملک ایک پولیس اسٹیٹ ہے تا ہم ایسا صرف پولیس کے ساتھ ہی نہیں بلکہ تمام تفتیشی اداروں کے پاس لا محدود اختیارات نے ملک میں انصاف کی راہ میں مشکلات پیدا کی ہوئی ہیں۔ انصاف کی پہلی دہلیز ایک منصفانہ تفتیش ہے۔ اگر تفتیش کے نظام کو ٹھیک کر لیں تو عدالتوں کا بوجھ بھی کم ہو جائے گا۔