بھارتی جارحیت کیخلاف سندھ اسمبلی میں قرار داد متفقہ طور پر منظور
سندھ اسمبلی میں قائمہ کمیٹیوں کے قیام کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کے اعتراضات برقرار ہیں۔
PARIS:
ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں اور عوام نے بھارتی جارحیت کے خلاف یک زبان ہو کر واضح پیغا م دیا ہے کہ سیاسی اختلافات سے قطع نظر ملک کی سلامتی اور دفاع کے لیے قوم یکجا ہے۔ سندھ اسمبلی کے ایوان نے بھارتی جارحیت کیخلاف اور افواج پاکستان سے اظہاریکجہتی کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی۔
ایوان میں قرارداد پر2 روز تک مسلسل بحث ہوتی رہی جس میں مجموعی طور پر 50 سے زائد ارکان نے حصہ لیا اور اس دوران اسمبلی کی جانب سے معمول کے تمام بزنس پر غور موخر کردیا گیا، قرارداد پر بحث میں ارکان نے بڑے جذباتی انداز میں اظہار خیال کیا،ایوان میں ارکان سیاسی تقسیم سے بالاتر ہو کر بھارتی جارحیت کے خلاف یک جان و یک زبان ہو گئے۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دفاع وطن کے لیے پوری قوم اور مسلح افواج کے جذبے کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سلامتی اور بقا کے معاملے پر ہم سب متحد ہیں جبکہ قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، جنگ پورے خطے کے مفاد کے خلاف ہے۔ عمران خان نے واضح پیغام دیا ہے وہ امن چاہتے ہیں، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسپیکر آغا سراج درانی کی گرفتاری کے بعد ایوان میں جو تناؤ کا ماحول پیدا ہوا تھا وہ اس دوران دیکھنے میں نہیں آیا۔ بھارتی جارحیت کے خلاف کراچی سمیت سندھ بھر میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے مودی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے گئے جبکہ پاک فوج کی حمایت میں ریلیاں نکالی گئیں۔ ان مظاہروں اور ریلیوں میں رہنماؤں نے بھارتی جارحیت کے خلاف افواج پاکستان کی جانب سے منہ توڑ جواب دینے پر ان کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔
سندھ کابینہ نے ڈاکٹروں کے لیے نیا سیلری پیکیج پنجاب کے برابر کرنے کی منظوری دے دی ہے ۔ یہ فیصلہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت کابینہ اجلاس میں کیا گیا۔گزشتہ کئی ہفتوں سے صوبے کے ڈاکٹرز اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے احتجاج کر رہے تھے اور سندھ کے تمام سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی ہڑتال کے باعث صورت حال کافی خراب ہوگئی تھی ۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ ڈاکٹروں کے احتجاج کے باعث بچوں سمیت کئی افراد کی ہلاکت ہوئی ہے ،جس کے بعد حکومت سندھ نے مذاکرات میں ڈاکٹرز کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کے مطالبات تسلیم کر لیے جائیں گے۔کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ قانون سازی کے بعد ڈاکٹرز کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے گا اور نئی تنخواہ کا اطلاق فروری 2019 سے ہوگا۔
نئے پیکج کے تحت 10 ہزار روپے ماہانہ پوسٹ گریجویٹ کو اضافی دیا جائے گا جب کہ 15 ہزار فی مہینہ تمام ہاؤس افسران کو اضافی دیا جائے گا۔کابینہ کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ تمام الاؤنسز اور تنخواہوں کے جائزہ کے بعد 5.6 بلین سالانہ خزانے پر بوجھ ہوگا۔کابینہ کے اجلاس میں بیشتر ممبران نے ڈاکٹرز کی تنخواہ بڑھانے کو اچھی کارکردگی سے منسوب کرنے کی تجویزدی۔ ڈاکٹرز کے احتجاج پر کچھ جماعتوں نے اپنی سیاست چمکانے کی بھی کوشش کی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے تمام معاملات میں جن سے عوام متاثر ہو رہے ہوں ان پر سیاست نہ کی جائے اور مثبت اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے ان مسائل کے حل کیلئے کام کیا جائے۔
اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی گرفتاری کے بعد سیاسی صورت حال میں جو تناؤ کی کیفیت پیدا ہوئی تھی، پاک بھارت کشیدگی کے باعث اس میں قدرے کمی واقع ہوئی ہے تاہم اب دونوں ممالک کے درمیان صورت حال بہتر ہو رہی ہے، جس کے بعد اس بات کا امکان ہے کہ سندھ کا سیاسی پارہ ایک مرتبہ پھر بڑھ جائے گا۔آغا سراج درانی کو جس طرح گرفتار کیا گیا تھا اس پر نہ صرف پیپلزپارٹی بلکہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے بھی اظہار ناپسندیدگی کیا تھا۔
تمام جماعتیں ملک میں احتساب کی حامی ہیں لیکن ان کا یہ مطالبہ بالکل جائز ہے کہ اداروں کی جانب سے احتساب کے عمل میں شفافیت برقرار رکھی جائے اور اس طرح کا تاثر پیدا نہ کیا جائے،جس سے احتساب کا پورا عمل ہی مشکوک ہوجائے۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے نجی بینک میں اسپیکر سندھ اسمبلی کے زیر استعمال لاکرز کو توڑ کراس میں موجود اشیا کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔اس ضمن میں سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات معاملات میں مزید بگاڑ پیدا کریں گے اور پیپلزپارٹی اپنی اس بات میں حق بجانب نظر آئے گی کہ یہ ''سلیکٹڈاحتساب'' ہے، جس کی زد میں صرف اپوزیشن رہنما آرہے ہیں۔
سندھ اسمبلی میں قائمہ کمیٹیوں کے قیام کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کے اعتراضات برقرار ہیں۔ تحریک انصاف اپنے اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی )کا چیئرمین بنوانا چاہتی ہے لیکن اس حوالے سے پیپلزپارٹی کا موقف بالکل واضح ہے کہ تحریک انصاف نے ''میثاق جمہوریت'' پر دستخط نہیں کیے ہیں اس لیے پی اے سی کی چیئرمین شپ اس کو نہیں دی جا سکتی ہے۔ آنے والے دنوں میں قائمہ کمیٹیوں کے حوالے سے معاملات گمبھیر صورت حال اختیار کر سکتے ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں کو چاہیے کہ وہ جمہوری روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اس معاملے کو حل کریں۔اس ضمن میں دونوں کو تھوڑی لچک دکھانا ہوگی۔ بظاہر پیپلزپارٹی کا یہ موقف درست نظر آتا ہے کہ تحریک انصاف ''میثاق جمہویت ''میں شامل تھی، اس لیے اپوزیشن لیڈر کو پی اے سی کی چیئرمین شپ نہیں دی جا سکتی، تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ اپنے ارکان کو سندھ اسمبلی کی دیگر قائمہ کمیٹیوں میں شامل کرائے کیونکہ جمہوری حکومت میں ان کمیٹیوں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اپوزیشن کی عدم موجودگی کے باعث یہ اپنی افادیت کھو سکتی ہیں۔