ایک ان کیئے سفر کی کہانی
شعر و ادب سے تعلق کی وجہ سے مجھے گزشتہ 38 برس کے دوران 26 ملکوں میں کل ملا کر ایک سو سے زیادہ بار جانے کا موقع ملا ہے۔
غالب کا کیا باکمال شعر ہے
نہ کردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
شعر و ادب سے تعلق کی وجہ سے مجھے گزشتہ 38 برس کے دوران 26 ملکوں میں کل ملا کر ایک سو سے زیادہ بار جانے کا موقع ملا ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ تاریخی اور تہذیبی اعتبار سے 3 بہت اہم ممالک یعنی ترکی، ایران اور بنگلہ دیش میں کسی نہ کسی وجہ سے جانا نہیں ہوسکا۔ بالخصوص ترکی کے حوالے سے یہ محرومی زیادہ توجہ طلب ہے کہ دو بار ویزہ لگنے، ٹکٹ خریدنے اور سارا پروگرام طے ہونے کے باوجود عین آخری لمحوں میں یہ سفر کینسل کرنے پڑے۔
2016 میں انقرہ یونیورسٹی میں احمد ندیم قاسمی مرحوم کی صد سالہ سالگرہ کا اہتمام تھا، یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سربراہ اور عزیز دوست آسمان بیلن از جان کے ساتھ مسلسل رابطے کے بعد ہر چیز اپنی جگہ پر تھی کہ روانگی سے دو دن قبل میرے چھوٹے بھائی محسن اسلام کا ایک آپریشن کے دوران انتقال ہو گیا جب کہ اس بار پاک بھارت سرحد پر یکدم پیدا ہوجانے والی جنگی صورتحال کی وجہ سے اچانک تقریبا ایک ہفتے کے لیے تمام ہوائی اڈے بند اور پروازیں منسوخ ہو گئیں۔
اب اس اتفاق کو کیاکہیے کہ اسی ہفتے کے دوران ''امجد فہمی''کی تین تقریبات استنبول، قونیہ اور انقرہ میں طے تھیں اور اس کتاب کے مصنف برادرم ڈاکٹر تقی عابدی حسبِ پروگرام کینیڈا سے براستہ دبئی استنبول پہنچ چکے تھے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ تقی بھائی کا تعلق تو حیدرآباد دکن سے ہے مگر وہ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد مزید تعلیم اور پریکٹس کے لیے کوئی چالیس برس سے پہلے امریکا اور اب کینیڈا میں مقیم ہیں اور ان کا شمار اپنے شعبے کے کامیاب ترین لوگوں میں ہوتا ہے مگر جو شہرت عزت اور مقبولیت انھیں اردو شعر و ادب اور تنقید و تحقیق کے حوالے سے ملی ہے اس کا معیار اور پھیلاؤ اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
مجھ سے ان کے تعارف اور محبت کا دورانیہ کم ازکم تیس برس پر محیط ہے، چند برس قبل ایک ملاقات کے دوران انھوں نے بتایا کہ عنقریب وہ میری شاعری پر بھی ایک کتاب شروع کرنے والے ہیں لیکن جن منصوبوں پر وہ اس وقت کام کر رہے تھے ان کی تفصیل سن کر یہ اندازہ ہوتا تھا کہ اگر ایسا ہوا بھی تو اس میں کم ازکم پندرہ برس تو ضرور لگیں گے کہ اس دوران میں انھیں مرزا دبیر، مولانا حالی اور فیض صاحب پر بہت سا کام کرنے کے ساتھ ساتھ کئی اور کتابیں بھی لکھنا تھیں اوراْس وقت تک انھوں نے ''چھوٹی بحر کا بڑا شاعر'' کے عنوان سے میری شاعری پر ایک مختصر سے مضمون کے علاوہ کچھ نہیں لکھا تھا۔
اس کے بعد ان سے امریکا ، کینیڈا ، بھارت اور پاکستان میں کئی ملاقاتیں ہوئیں اور انھوں نے ہر بار اپنے وعدے اور ارادے کو دہرایا بھی لیکن سچی بات ہے کہ اس کتاب کے چھپنے سے دو ماہ قبل تک خود مجھے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ یہ واقعی نا صرف چھپ جائے گی بلکہ اپنی تحریر کی نفاست اور گہرائی اور طباعت کے غیرمعمولی اعلیٰ معیار کی وجہ سے ایسی غیرمعمولی مقبولیت حاصل کر سکے گی لیکن جِنّوں کی طرح کام کرنے والے ڈاکٹر تقی عابدی اور ہمارے جہلم کے نوجوان ناشرین گگن اور امر شاہد نے اپنے ادارے ''بک کارنر''کی طرف سے اس کو ایسے دیدہ زیب اور عمدہ انداز میں شایع کرکے اس ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔
اگلا قدم پہلے پاکستان اور پھر بھارت ،کینیڈا،امریکا، ترکی اور ایران میں اس کی تعارفی تقاریب کا انعقاد تھا جس کی ایک کڑی یکم مارچ سے شروع ہونے والا یہ دورہ بھی تھا جس میں مجھے پاکستان اور انھیں کینیڈا سے استنبول پہنچنا تھا۔ برادرم شجاع فرید کی مدد اور رہنمائی سے آن لائن ویزا مل گیا۔
''الخدمت'' والے بھائی میاں عبدالشکور نے استنبول میں اپنے نمایندے عزیزی عمر کی ڈیوٹی لگا دی کہ وہ ترکی میں قیام کے دوران ہمہ وقت ہمارا خیال رکھیں جب کہ دوسری طرف برادرم ڈاکٹر خلیل طوقار نے جو استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سربراہ اور میری منتخب شاعری کے ترکی میں ''کارا بائیو''کے نام سے کیے جانے والے تراجم کے مترجم بھی ہیں یونیورسٹی اور پاکستانی قونصلیٹ کے اشتراک سے ایک بہت عمدہ تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا۔
یہی کام قونیہ اور انقرہ میں عزیزہ آسمان بیلن از جان نے اپنے ذمے لے رکھا تھا اور اس ضمن میں اس کی دلچسپی، محبت اور اشتیاق دیدنی تھی، بظاہر یوں لگ رہا تھا کہ اس بار برادر اسلامی ملک اور مخلص دوست ترکی کو قریب سے دیکھنے اور احباب سے ملنے کا خوب خوب موقع ملے گا لیکن یہی غیر متوقع پن ہی شاید اس زندگی کا سب سے دلچسپ اور عجیب و غریب حصہ ہے کہ ایک پل میں سب ارادے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور وہ کچھ ہوجاتا ہے جس کا چند لمحوں قبل تصور کرنا بھی ناممکن لگتا تھا۔
اب صورتحال یہ تھی کہ تین چار اور پانچ مارچ کو بالترتیب استنبول قونیہ اور انقرہ میں تقریبات تھیں اور یکم سے تین اورچھ سے آٹھ تک کے دن سیاحت کے لیے مختص تھے۔ ڈاکٹر تقی عابدی کو پانچ کی شام بھارت کے لیے روانہ ہونا تھا کہ وہاں ان کا ایک پروگرام پہلے سے طے تھا لیکن 26 فروری کی رات کو یہ ساری صورتحال اور پلاننگ یکسر بدل گئی، ہوائی اڈوں کی بندش اور ملکی اور غیر ملکی پروازوں کی منسوخی کی وجہ سے لاہور سے میری روانگی یکسر ناممکن ہوگئی جب کہ باوجود بہت کوشش کے اسلام آباد اور کراچی سے بھی ایسا ممکن نہ ہو سکا اوریوں یہ سفر شروع ہوئے بغیر ہی ختم ہو گیا۔
خیر اور بہتری کی بات یہ ہے کہ وہ جنگ کی سی صورتحال کم ازکم سرحدوں کی حد تک تیزی سے تحلیل ہو رہی ہے اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ جیسے مکمل امن نہ سہی آیندہ چند دنوں میں معاملات اپنے سابقہ معمول پر ضرورآ جائیں گے لیکن دیکھا جائے تو وہ صورتحال بھی کوئی ایسی تسلی بخش نہیں تھی سو اب وقت ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام آگے بڑھیں اور اس عدل و انصاف اور دوستی کی فضا کو تعمیر کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں جس کے بغیر اچھی اور پائیدار ہمسائیگی ممکن ہی نہیں ہوسکتی اور ایک ایسے سفر کا آغاز کریں جو میرے حالیہ ناکردہ سفر کی طرح غیر یقینی نہ ہو بلکہ آتش کے اس شعر کی تعبیر بن جائے
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہیں