امن کا نوبل انعام مانگنے سے نہیں ملتا
امن نوبل انعام دینے والوں کی مگر اپنی بھی سیاست ہے۔ اِس سیاست کے باطنی مقاصد کو ہمارے وزیر اعظم خوب جانتے ہیں۔
امن اللہ تعالیٰ کی نعمتِ کبریٰ ہے ۔ خوف ،بدامنی اور فساد فی الارض میں انسان محفوظ رہتے ہیں نہ مملکتیں پروان چڑھتی ہیں۔ دُنیا میں جس بھی قوم اور ملک نے ترقی کی منازل طے کیں ، امن ہی ان کا زینہ بنا۔خوشی اور خوشحالی امن ہی سے وابستہ ہے ۔جنگِ افغانستان ہمارے امن کو چاٹ گئی ہے۔
کیسی بد قسمتی ہے کہ اِس جنگ نے ہمیں ہی سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور آج ہم ہی دُنیا کے سامنے نکّو بن کر رہ گئے ہیں۔ آج دُنیا میں ہمیںبد امنی اور دہشتگردی کی جتنی بھی شکلیں نظر آ رہی ہیں ، سب کے ڈانڈے اِسی جنگِ افغانستان سے جا ملتے ہیں۔
جن تنظیموں کو کالعدم قرار دے کر ہماری ریاست کو نئے سرے سے کریک ڈاؤن کرنا پڑ رہا ہے ، یہ بھی اِسی جنگِ افغانستان کے بطن سے پھوٹی تھیں ۔حصولِ امن کی خاطر ہم یہ بھی درخواست کرتے نظر آ رہے ہیںکہ دُنیا (ہماری) کالعدم تنظیموں سے چھٹکارہ پانے میں ہماری مدد کرے۔ بد امنی میں تو تاجر اور تجارت کا سانس بھی محبوس ہوجاتا ہے۔ امن سے محروم ملک سے سرمایہ بہانوں سے فرار ہونے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔ آج کینیڈا، مغربی ممالک اور امریکا کی طرف ہر کوئی ملازمت ، تعلیم اور سرمایہ کاری کے لیے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے ۔
اس لیے کہ وہاں امن ہے۔ ایک وقت تھا جب عراق ، لیبیا ، شام اوریمن میں آئیڈیل امن تھا۔ ہمارے وہ پاکستانی بھائی جو محنت اور ملازمت کے لیے ان ممالک میں جایا کرتے تھے، ملک واپسی پر وہاں کے پُر امن ماحول کی داستانیں سناتے تھے تو یقین نہیں آتا تھا ۔ آج عراق، لیبیا، شام اور یمن کی بد امن قیامتیں ہمیں اشکبار کررہی ہیں ۔ یہاں تک کہ افغانستان بھی امن کا گہوارہ ہُوا کرتا تھا۔ ہمارے قابلِ فخر ناول نگار و افسانہ نویس اور عالمی شہرت یافتہ جہاں گرد ، مستنصر حسین تارڑ، کا سفر نامہ افغانستان پڑھیں تو انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے: یا خدایا، تارڑ صاحب کس زمانے کے پُر امن افغانستان اور کابل کی داستانیں ہمیں سنا رہے ہیں؟ لیکن قارئینِ عزیز، یہ زمانہ ابھی زیادہ دُور نہیں گیا۔ لیکن کوئی ہے جو آج افغانستان کو اپنا پسندیدہ اور امن دیدہ ملک کہہ سکے؟ کون وہاں کی سیر کو جانا چاہے گا؟
وزیر اعظم عمران خان بد امنی کی ہلاکتوں اور جنگ کی وحشتوں کو خوب جانتے ہیں ۔ شائد اِسی کارن انھوں نے اپنے ایک ہمسایہ ملک کی حالیہ زیادتی کے ردِ عمل میں امن کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا۔ دُنیا کے 59نوبل انعام یافتگان نے بھی عمران خان سے درخواست کی ہے کہ وہ اِسی طرح امن کا دامن تھامے رہیں۔ پاکستان نے دشمن کی جارحیت کا بھرپور اور بروقت جواب تو دیا ہے لیکن خود جارح نہیںبنا ہے ۔ اپنے وطن اور شہریوں کے دفاع کے لیے ہمارا قومی موقف اِسی کا پیغام دیتا ہے۔
ہمارے وزیر اعظم اور ہماری سپاہ نے ساری دُنیا کو اپنے عمل سے امن کا یہی پیغام دیا ہے ۔لیکن حکومت میں کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے جذبات سے مغلوب ہو کر مغربیوں سے مطالبہ کر ڈالا کہ عمران خان کو ''امن کا نوبل'' انعام دیا جائے۔ خانصاحب کے کئی چاہنے والوں نے سوشل میڈیا پر بھی یہ مہم چلائی ہے ۔ یاد رکھا جانا چاہیے کہ امن کا نوبل انعام (نوبل پِیس پرائز) مانگنے اور مطالبے کرنے سے نہیں ملتا۔جنہوں نے یہ انعام دینا ہوتا ہے۔
اُن کے اپنے خاص مقاصد اور اہداف بھی ہوتے ہیں ۔ بھارت میں بھی یہ مہم چلائی گئی ہے کہ نریندر مودی کو امن کا نوبل انعام دیا جائے۔یہ تو صریح ستم ظریفی ہے ۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ جنوبی کوریا نے اپنے ملک کا سب سے بڑا امن انعام(Seoul Peace Prize) مودی کے نام بھی کر دیا ہے۔ انعامی شیلڈ کے ساتھ خونی بھارتی وزیر اعظم کو دو لاکھ امریکی ڈالر کی نقد رقم بھی ملے گی۔
وزیر ستان کے ایک ''صاحب'' اور اُس کے چاہنے والے بھی سوشل میڈیا پر مہم چلا رہے ہیں کہ اُن کے ''صاحب'' کو بھی امن کا نوبل انعام دیا جائے ۔ امن سازی اور امن پسندی کے حوالے سے ہمارے ہاں فیض احمد فیضؔ، عبدالستار ایدھی اور عاصمہ جہانگیر نے نہایت شاندار کردار ادا کیا لیکن خواہشات کے باوصف امن کا نوبل انعام انھیں بھی نہ مل سکا۔ ملالہ یوسفزئی صاحبہ کو البتہ اچانک عطا کر دیا گیا ۔ اِس کی تو کسی نے توقع تک نہیں کی تھی ۔ انعام دینے والوں نے ملالہ کے ساتھ ایک بھارتی (کیلاش ستھیارتھی)کو بھی ملا لیا۔یوں ڈنڈی مار کر ہم پاکستانیوں کا مُوڈ خراب کر دیا گیا۔
امن نوبل انعام دینے والوں کی مگر اپنی بھی سیاست ہے۔ اِس سیاست کے باطنی مقاصد کو ہمارے وزیر اعظم خوب جانتے ہیں۔ شائد اِسی لیے انھوں نے خود ہی ایک ٹویٹ کے ذریعے کہہ دیا : ''مَیں امن کے نوبل انعام کا حقدار نہیں۔ (امن کے ) نوبل انعام کا مستحق وہ شخص ہوگا جو کشمیری عوام کی اُمنگوں کی روشنی میں تنازعہ کشمیر کا حل تلاش کرے گااور برِ صغیر میں امن و انسانی ترقی کی راہ ہموار کرے گا۔'' اِن الفاظ کی تحسین کی جانی چاہیے۔اِس ٹویٹ کانمایاںپہلو یہی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو یہاں بھی فراموش نہیں کیا ہے ۔
عمران خان نے تو شائد انکساری اور عاجزی کا اظہار کرتے ہُوئے کہا ہے کہ وہ نوبل پِیس پرائز کے حقدار نہیں ہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ پر اہم ہے کہ اب تک جنہیں امن کے نوبل انعام دیے گئے ہیں ، کیا وہ سب اِس انعام کے حقدار اور مستحق تھے؟ اب تک 133شخصیات اور اداروں کو امن کا نوبل انعام دیا جا چکا ہے ۔ کچھ مسلمان ممالک کے افراد کے سروں پر بھی اس انعام کا تاج رکھا گیا۔ مثال کے طور پرپاکستان کی ملالہ یوسفزئی ، ایران کی ڈاکٹر شیریں عبادی ، یمن کی توکل کرمان ۔یہ دیکھ کر مگر دل رنج اور دکھ سے بھر جاتا ہے کہ ایسے بھی افراد کو امن کا نوبل انعام دیا گیا جن کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے تھے ۔ مثلاً:اسرائیل کے مناہم بیگن ۔ اس بدبخت نے سیکڑوں فلسطینیوں کا قتل کیا لیکن اُسے امن کے نوبل انعام سے نواز دیا گیا۔
اسرائیل ہی کے شمعون پیریز اور اسحاق رابن کو بھی امن کا نوبل انعام دے دیا گیا ، حالانکہ یہ دونوں فلسطینی مسلمانوں کے مستند قاتل سمجھے جاتے ہیں ۔ لعنت ملامت سے بچنے کے لیے امن کا نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے ان دونوں کے ساتھ یاسر عرفات کو بھی اس انعام میں شریک کر لیا تھا۔ یوں اُس سال امن کا نوبل انعام تین برابر برابر حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ تینوں خونی اور خونخوار اسرائیلیوں (مناہم بیگن، شمعون پیریز، اسحاق رابن) کو امن کا نوبل انعام دینے کا مطلب و معنی کیایہ تھا کہ اِس دُنیا میں امن کے ساتھ ظلم بھی رہنا چاہیے؟ میانمار (برما) کی آنگ سان سوچی کو بھی امن کا نوبل انعام دیا گیا ۔ اور یہ ایسی خاتون ہے جوبرمی مسلمانوں ( روہنگیا) کی مظلومیت پر دانستہ خاموش تماشائی بنی رہی ۔ سات لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان بیچارگی اور بیکسی میں اپنے ہی ملک سے در بدر ہو کر بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور کر دیے گئے لیکن آنگ سان سوچی کی زبان سے ظالم برمی فوجی جنتا اور قاتل برمی بھکشوؤں کے خلاف ایک لفظ ادا نہ ہو سکا۔ ایسے امن دشمن انعام یافتگان کی صف میں کھڑا ہونا کہاں کا اعزاز ہے؟