صدارتی انتخاب
الیکشن کمیشن کے اعلان کردہ صدارتی انتخاب کے شیڈول مورخہ 6 اگست میں عدالتی حکم پر کی گئی تبدیلی کے بعد 30 جولائی۔۔۔
الیکشن کمیشن کے اعلان کردہ صدارتی انتخاب کے شیڈول مورخہ 6 اگست میں عدالتی حکم پر کی گئی تبدیلی کے بعد 30 جولائی 2013 کو منعقد ہونے والے صدارتی انتخاب میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ممتاز تاجر اور مسلم لیگ ن کے اہم رہنما ممنون حسین واضح اکثریت سے ملک کے 12 ویں صدر منتخب ہوگئے۔ پی پی پی کے بائیکاٹ کے بعد صدارتی الیکشن ایک رسمی سی کارروائی رہ گیا تھا کیونکہ ووٹوں کی عددی برتری کے حوالے سے پی ٹی آئی کے صدارتی امیدوار جسٹس (ر) وجیہہ الدین صاحب کا ممنون حسین صاحب سے قطعاً کوئی مقابلہ نہ تھا۔ پی ٹی آئی کی شکست اور مسلم لیگ ن کی فتح لکھی جاچکی تھی۔ پی پی پی کے جینئس رضا ربانی کی عدم شرکت کے باعث صدارتی انتخاب پھیکا پھیکا لگا۔
بہر حال ایک آئینی عمل مکمل ہوگیا اور ممنون حسین صاحب 8 ستمبر کو صدر آصف علی زرداری کی جگہ صدر کا منصب سنبھالیں گے۔ مسلم لیگ ن اپنی خواہش کے عین مطابق اپنی جماعت کے رہنما کو صدر بنوانے میں کامیاب ہوگئی۔ اب ایوان صدر اور وزیر اعظم ہائوس کے راستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کے لیے سابق صدر رفیق تارڑ والا دور واپس آرہا ہے جب ایوان صدر سے ان کے لیے مرحبا مرحبا کی صدائیں آتی تھیں اور اب تو صدر آصف علی زرداری نے تمام صدارتی اختیارات پارلیمان کو منتقل کردیے ہیں اور صدر کا منصب اختیارات کے دبائو سے آزاد ہوچکا ہے اس لیے وزیر اعظم نواز شریف کے لیے آیندہ پانچ سال تک ایوان صدر سے کوئی خطرہ لاحق نہ ہوگا۔
ملک کی 60 سالہ سیاسی تاریخ میں 11 مئی کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں ایک منتخب جمہوری حکومت نے دوسری منتخب جمہوری حکومت کو اقتدار کی پرامن منتقلی سے تاریخ کا پہلا سنہری باب رقم ہوا تھا اور اب 30 جولائی کو ایک منتخب جمہوری صدر کی موجودگی میں آئینی طریقے سے احسن انداز میں دوسرے صدر کے انتخاب سے تاریخ کا دوسرا سنہرا باب رقم ہوگیا ہے جس کا بجا طور پر کریڈٹ صدر آصف علی زرداری کو جاتا ہے جن کی قوت برداشت اور مفاہمانہ پالیسی کے باعث، ہزارہا مخالفتوں وسازشوں کے باوجود، ہرمشکل آسان ہوتی چلی گئی۔ ایک منتخب وزیر اعظم کی قربانی دینے کے بعد بھی جمہوریت کو پٹری سے نہیں اترنے دیا اور ان کی مدبرانہ قیادت میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور خود صدر زرداری بھی 8 ستمبر کو اپنی آئینی صدارتی مدت مکمل کرنے والے ہیں۔ آنے والے مورخین اس سارے عمل کا کریڈٹ بلاشبہ آصف زرداری کو دینے پر مجبور ہوں گے۔
صدر کے انتخاب کے حوالے سے 18 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد آرٹیکل 41 کی شق 4 کے مطابق صدر مملکت کے عہدے کی پانچ سالہ آئینی مدت ختم ہونے سے ایک ماہ قبل نئے صدر کا انتخاب کیا جانا لازمی ہے۔ موجودہ صدر آصف علی زرداری کے منصب کی آئینی مدت 8 ستمبر کو ختم ہورہی ہے اور اسی دن نئے صدر کو اپنا منصب سنبھالنا ہے، اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے آئینی تقاضوں کے عین مطابق 6 اگست کو صدر کے انتخاب کا شیڈول جاری کیا تھا چونکہ 6 اگست رمضان المبارک کے آخری عشرے میں آئی ہے، لہٰذا حکومت نے یہ موقف اختیار کہ اس دوران اراکین اسمبلی کی بڑی اکثریت اعتکاف اور عمرے کی سعادت کے لیے سعودی عرب ہوگی لہٰذا الیکشن کمیشن کو درخواست دی گئی کہ صدارتی انتخاب کی تاریخ تبدیل کی جائے۔ چیف الیکشن کمشنر نے حکومتی درخواست کو مسترد کردیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی عندیہ دیا کہ سپریم کورٹ کے کہنے پر تاریخ تبدیل کی جاسکتی ہے۔
لہٰذا مسلم لیگ ن کے رہنما راجہ ظفر الحق نے مذکورہ وجوہ کو جواز بناتے ہوئے عدالت عظمیٰ میں صدارتی انتخاب کی تاریخ میں تبدیلی کی درخواست دائر کردی جس پر عدالت نے اگلے ہی دن 30 جولائی کو صدارتی انتخاب کرانے کا حکم نامہ جاری کردیا۔ پی پی پی نے انتخابی شیڈول تبدیل کرنے کے عدالتی فیصلے پر اپنے گہرے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے صدارتی انتخاب کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ پی پی پی کے صدارتی امیدوار رضا ربانی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے صدارتی انتخاب کے دوسرے امیدواروں کا موقف نہیں سنا اور محض ن لیگ کی درخواست پر ان کی مرضی کا فیصلہ سنادیا جس سے وفاقیت کو ٹھیس پہنچی اور ہمارے پاس بائیکاٹ کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔
ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف اور ممتاز قانون دان اعتزاز احسن نے اس ضمن میں جو موقف اختیار کیا اس میں موجود دلائل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، درخواست گزار راجہ ظفر الحق صدارتی امیدوار نہیں ان کا کوئی بنیادی حق متاثر ہی نہیں ہوا وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا ہی نہیں سکتے۔ یہ واقعی بڑا باریک اور اہم نکتہ ہے جسے آئینی و قانونی ماہرین نظر انداز نہیں کرسکتے ۔ ق لیگ، اے این پی اور بی این پی کا بھی موقف ہے پپلز پارٹی کے موقف کی حمایت کرتا ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وہ صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ کرنا چاہتے تھے تاہم اپنے نامزد امیدوار جسٹس (ر) وجیہہ الدین کے اصرار پر صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔
پی پی پی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے جو چاروں صوبوں میں اپنا ووٹ بینک رکھتی ہے ملک کے اعلیٰ ترین منصب کے انتخابی عمل سے اس کا مایوس ہوکر باہر ہوجانا جمہوریت کے لیے اچھا شگون نہیں۔ بدقسمتی سے پی پی پی کی توقعات پوری نہیں ہوئیںاور نہ ہی پس پردہ قوتوں نے اسے کھل کر عوام کی خدمت کرنے کے مواقعے فراہم کیے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی سے لے کر اصغر خان کیس تک اور وزیر اعظم گیلانی کی برطرفی سے رضا ربانی کے بائیکاٹ تک پی پی پی کو جبری طور پر دیوار سے لگانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ رضا ربانی کی سربراہی میں قائم آئینی کمیٹی نے 18 ویں ، 19 وی اور 20 ویں ترامیم کیں تو توقع کی جانے لگی کہ ملک میں بہتری آئے گی اور شکایات کا ازالہ ہوسکے گا۔ لیکن آج حزب اختلاف کی جماعتیں، سیاسی تجزیہ نگار اور مبصرین جو سوالات اٹھا رہے ہیں انھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کسی دانا کا قول ہے کہ آج کے فیصلوں سے ہماری آنے والی کل کا سراغ ملتا ہے۔ بہر حال ممنون صاحب کو صدارت کا منصب مبارک ہو۔