مصری معیشت اور عوامی رد عمل
مصری انقلاب کی سب سے نمایاں خاصیت مصری عوام کی حالت زار ہے، حسنی مبارک کے خاتمے کے دوسال بعد اس۔۔۔
مصری انقلاب کی سب سے نمایاں خاصیت مصری عوام کی حالت زار ہے، حسنی مبارک کے خاتمے کے دوسال بعد اس وقت مصر کی مجموعی قومی آمدنی پچھلے 20 سال کی بدترین حالت میں ہے، سرکاری سطح پر بیروزگاری کی شرح 13.2 فیصد ہے جب کہ 2011 میں 9 فیصد تھی۔ یہ سرکاری اعداد و شمار حقائق کو چھپائے ہوئے ہیں، کیفیت اس سے کہیں بدتر ہے۔ مصری پونڈ کی قیمت میں 30 فیصد گراوٹ عیاں کرتی ہے کہ یہاں افراط زر بھی اتنی ہی شرح سے بڑھا ہے اس کا زیادہ تر شکار غذائی اجناس ہیں جو زیادہ تر درآمد کی جاتی ہیں۔ مصر گندم کا دنیا کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے، مصری عوام کی اکثریت کے لیے غذائی اجناس کی قیمتوں میں روز بروز بڑھتا ہوا اضافہ وبال جان بنا ہوا ہے، پچھلے سال کے آخرمیں کئی اشیا کی قیمتیں دوگنا ہوچکی ہیں۔
یہ ان خاندانوں کے لیے تباہ کن کیفیت ہے جو کہ اپنی آمدنی کا 50 فیصد خوراک پر خرچ کرتے ہیں، بھوک اور افلاس میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلاجارہا ہے جس سے سماج کی ہولناکی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اس سال مئی میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق مصر میں غربت اور غذائی بے یقینی میں 2009 سے 2011 کے دوران بہت اضافہ ہوا ہے۔ 2011 میں آبادی کا 17 فیصد بمشکل خوراک حاصل کررہا تھا جب کہ 2009 میں یہ شرح 14 فیصد تھی، 5 سال سے کم بچوں میں کم غذائیت کی شرح 31 فیصد ہوچکی ہے، جو پہلے 23 فیصد تھی۔ ان اعدادو شمار میں غربت کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے جو اس عرصے میں بڑھی ہے، اس وقت مصر میں 25.2 فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے رہ رہی ہے جب کہ 23.7 فیصد بمشکل اس لکیر سے اوپر ہیں۔ یہ مصر کے سرکاری اعدادو شمار ہیں۔
گوما ایک آرکیٹیکٹ خاتون ہیں جو قاہرہ میں رہتی ہیں نے گارڈین کو بتایا کہ ''اس کے بچے جو کچھ کھانا چاہتے ہیں وہ میرے بس سے باہر ہوچکا ہے۔ 6 ماہ قبل میری آدھی تنخواہ خوراک پر ہی خرچ ہوجاتی تھی لیکن اب 70 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں کما نہیں رہی ہوں، مسئلہ یہ ہے کہ قیمتیں بہت بڑھ رہی ہیں اور کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں۔ اس کیفیت کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بچے اب اسکول میں ناقص کارکردگی دکھارہے ہیں، ان کی آنکھوں میں سیاہ دھبے پڑنا شروع ہوگئے ہیں۔'' یہ اور اس قسم کے ہی حالات تھے جو مرسی حکومت کے خلاف عوامی ابھار کی وجہ بنے ہیں اور حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ حالات ہی حسنی مبارک کے خلاف عوام کو سڑکوں پر نکال لائے تھے۔
فرق اتنا ہے کہ بحران اب زیادہ شدید ہوچکا ہے ، ڈھائی سالوں میں مصری سماج میں جو معمولی تبدیلی واقع ہوئی ہے وہ ''جمہوریت'' کی باریک جھلی ہے جو کہ مصری سرمایہ داری کی خونخواری کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ مصری معیشت انہدام کے دہانے پر ہے، مصری پائونڈ اور اس کا غیر ملکی زرمبادلہ گراوٹ کی زد میں ہیں، افراط زر میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے اور 24 سال سے کم عمر نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 40 فیصد کو پہنچی ہوئی ہے۔ مصر عوامی اور سماجی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف ایک بڑا قرضہ دینے جارہا ہے جو دوسروں کے لیے راستے کھولے گا، بدترین گرمی کے موسم میں لوگوں کو بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے۔ایندھن کی فراہمی کم سے کم ہوتی جارہی ہے، کسانوں کو گندم کی قیمتیں نہیں دی جارہی ہیں، جرائم وبا کی طرح پھیل رہے ہیں اور پولیس کا کہیں نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔
بعض دانشور یہ کہتے ہیں کہ عوام کو جون کے آخر میں اقتدار پر خود قبضہ کرلینا چاہیے تھا۔یہ سوال غلط طور پر پیش کیا جارہا ہے حقیقت یہ ہے کہ اقتدار عوام کے ہاتھوں میں آچکا تھا لیکن اس بات کا انھیں ادراک نہیں تھا۔ مرسی کا تختہ اکھاڑا جانا مصر کی تاریخ کی سب سے بڑی تحریک کے باعث ممکن ہوا۔ مصر کی ہر بڑی سڑک پر لاکھوں انسانوں کی موجودگی نے حکومت اور فوج دونوں کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔ یہ کسی سیکولر طاقت کی، کسی اسلامی تحریک کے ساتھ مقابلے کی جدوجہد نہیں تھی، یہ محنت کشوں اور غریبوں کی غربت، بیروزگاری اور گلہ گھونٹ دینے والی غیر جمہوری طرز حکمرانی کے خلاف جنگ تھی۔ تحریک اس دوران پیش قدمی کرتی کہ عوام عام ہڑتال کے ذریعے حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کی تیاری میں تھی، انقلابی کمیٹیاں جنھیں 30 جون کمیٹیاں کہا گیا ملک بھر میں ہر گلی محلے اور کام کی جگہوں پر منظم و متحرک ہوچکی تھیں اور یوں ایک موثر طاقت،جدوجہد کے ان مقبول اداروں میں موجود تھی لیکن تحریک کو پتہ نہیں تھا کہ اس طاقت کو کیا کرنا ہے؟ ثمرد تحریک (بغاوت) جو 30 جون تحریک کا حقیقی مرکز و محور تھی کے ایک سرگرم قائد محمد حمیس نے اس عمل کا درست تجزیہ کیا ہے اور کہا ہے ''میں کسی طور پر اس دن ہونے والی تبدیلی کو فوجی بغاوت نہیں کہوں گا۔
سیسی اور اس کے ساتھیوں کو ساری جسارت عوام نے دی، اس نے جو کچھ کیا فوج نے کیا وہ اس سے پہلے بھی کرسکتی تھی اور ایسے کئی مواقعے بھی آئے لیکن جب وہ وقت آیا کہ کروڑوں لوگ سڑکوں پر نکلے اور نعرے لگارہے کہ فوج مداخلت کرنے یوں یہ ہم عوام تھے جنہوں نے فوج کو حکم دیا کہ وہ ایسا کرے۔ اقتدار عوام نے فوج کے حوالے کیا نہ کہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ فوج ایک معمولی پارٹنر تھی جسے ہم نے مستقبل کی جمہوری تبدیلی کے لیے اپنے ساتھ کیا جس کی ہم جستجو اور تگ و دو کررہے تھے اس بات سے بے خبر کہ اپنے ہاتھوں میں موجود طاقت کو کس طرح بروئے کار لانا ہے، انقلاب کی قیادت نے فوج کو اپنا پارٹنر بنالیا، لیکن فوج کے جرنیل نہ تو انقلاب کے پارٹر ہوتے ہیں اور نہ ہی اس کے دوست۔ یہ وہی حضرات ہیں جنہوں نے کئی دہائیوں تک پہلے حسنی مبارک کا ساتھ دیا اور ابھی کچھ عرصہ مرسی کے ہمنوابنے رہے۔ یہ وہی صاحبان ہیںجنہوں نے 2011 کے بعد سے کئی بار انقلابیوں کو کچلنے کے احکامات اور اقدامات کیے۔ یہ مصر کے سرمایہ دار طبقے کے نمایندے ہیں جن کا مصر کے عوام کو کوئی رعایت یا کوئی مراعات دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
یہ ڈیڈ لاک کی ایک ایسی پوزیشن ہے کہ جس میں کوئی ایک فریق بھی اپنی حتمی کامیابی کا دعویٰ نہیں کرسکتا ہے۔ ایسی ہی کیفیت میں فوج کو خود سماج سے بالا سمجھنے کا موقع مل رہا ہے کہ وہ ملک و قوم کے ساتھ جو چاہے کرتی رہے، حالانکہ حقیقی طاقت سڑکوں پر موجود تھی۔ کچھ لوگوں کی طرف سے فوج پر مکمل اعتماد مکمل خوش گمانی ہے، مرسی کا تخت عوام نے اکھاڑ پھینکا ہے اسے کچھ حضرات اسٹریٹ پاور قرار دیتے ہیں۔ سرمایہ داروں کا جریدہ ''اکانومسٹ'' اسے خطے کے لیے ایک خطرناک اور ہولناک مثال قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ ''مرسی کا انہدام خطے میں موجود کمزور حکومتوں کے لیے ایک انتہائی ہولناک واقعہ ہے، یہ تنگ آئے ہوئے لوگوں کو حوصلہ دیگا کہ وہ اپنے ایجنڈے کو پارلیمنٹوں کے بجائے سڑکوں پر لے آئیں ، جس کے نتیجے میں خطے میں امن و استحکام کو سنجیدہ خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔'' یہ ایک خوفزدہ اور بھوکھلائی ہوئی بورژوازی (سرمایہ دار) کی آواز ہے ۔
انھیں خطرہ ہے کہ مصر کے عوام نے جو مثالیں قائم کردی ہیں وہ خطے کے دوسرے ملکوں کو بھی اپنی گرفت میں لے لیں گے، صرف عرب خطے میں ہی نہیں بلکہ یورپ میں بھی، انھیں دنوں پرتگال میں وسیع عوامی مظاہروں اور عام ہڑتال کے باعث وہاں کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے ۔ یہ ایک واضح انتباہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ایک کے بعد دوسرے ملک میں ایسا ہوگا۔ اس قسم کے واقعات نے بورژوازی کے سنجیدہ ماہرین کے کانوں میں خطرے کے گھنٹیاں بجانا شروع کردی ہیں۔ تمام غیر ضروری اور حادثاتی عوامل کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ سبھی تحریک ایک جیسے حالات سے متاثر ہوکر سامنے آئی ہیں۔ ہمارے سامنے اس وقت جو ایک عالمگیر مظہر موجود ہے وہ ایک ایسا رجحان ہے جو عالمی انقلابی تحریک کی طرف پیش قدمی ہے، یہ انقلاب قوموں اور ملکوں کی سرحدوں کو توڑتے ہوئے عالمی امداد باہمی کا معاشرہ قائم کرنے کی جانب جائے گا۔ اس کے علاوہ سارے راستے بند گلی میں جاتے ہیں، یعنی ایک آسمان تلے ایک خاندان ہوگا، کوئی طبقہ اور نہ کوئی ریاست۔