ہے زندگی کا نام مگر کیا ہے زندگی
زندگی اصل میں بہت ہلکی پھلکی ہوتی ہے بوجھ تو سارا خواہشات کا ہوتا ہے۔
بعض پرانے واقف کار عرصہ دراز کے بعد جب ملیں تو یہ سوال لازمی پوچھتے ہیں ''اور سناؤ کیسی گزر رہی ہے زندگی؟'' ہماری دانست میں زندگی کے بارے میں کیا پوچھنا زندگی ایک پرپیچ کہانی ہے جو بظاہر دشوار راستوں سے گزرتی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔ نہ آغاز انسان کی منشا سے لکھا جاتا ہے اور نہ ہی اختتام اس کی مرضی سے پوچھ کر کیا جاتا ہے۔
زندگی ہمارے نزدیک ایک ایسا کیمپس ہے جس کی درسگاہ میں ہر نوع کے مضامین پڑھنے اور پڑھانے کا انتظام ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنی استعداد، قابلیت، ذہنی رجحان و کشادگی، وسعت فکر کے مطابق دنیا کے اسباق اس سے سیکھتا ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ جب تک ہم زندگی کے بارے میں کچھ سیکھ پاتے ہیں تو یہ ختم ہوجاتی ہے۔ زندگی بلاشبہ ایک ایسی منفرد چیز ہے جس میں ہر ساعت ہر لمحہ ہر گھڑی کچھ نہ کچھ ''نیا سیکھنے'' کی ہمیشہ گنجائش رہتی ہے۔
کوئی فارمولا اسے برتنے سے معاملے میں حتمی نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی اصول اسے کامیابی سے ہمیشہ ہم کنار کرسکتا ہے کیونکہ قدرت نے تقدیر کا کارڈ اپنے پاس ہی رکھا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے انسان کو سزا اور جزا دنیا میں دے سکے یا پھر اس کو آزما سکے۔ دراصل تقدیر کا اپنا اٹل بہاؤ ہوتا ہے جو انسان کے زندگی گزارنے کے اصول، فارمولے اور تدابیر سبھی کو بہا کر لے جاتا ہے۔
ہم خود کو زندگی کے مکتب کے نہایت ادنیٰ طالب علم سمجھتے ہیں جو ہر لمحہ کچھ نہ کچھ سیکھنے اور سمجھنے کے عمل سے گزرنے کے باوجود زندگی سے کچھ نہ سیکھ سکے۔ کیونکہ جب بھی کچھ سیکھنے کا احساس جڑ پکڑتا ہے تقدیر کا بہاؤ اسے ریت پر لکھی تحریر کی طرح مٹا کر نیا سبق نیا مسئلہ سامنے رکھ دیتا ہے اور ہم پھر سے نالائق طالب علم بن جاتے ہیں شاید اسی عمل کا نام ذہنی ارتقا ہے۔
زندگی کو غم اور خوشی کا نام بھی کہتے ہیں۔ انسان کو اس دنیا میں آتے ہی مختلف النوع احساسات اور حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسے اپنی زندگی میں جہاں بے شمار خوشیاں اور مسرتیں ملتی ہیں وہیں اسے سنگین حالات سے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ زندگی کی اس تگ و دو میں کبھی انسان کامیابیوں سے ہمکنار ہوتا ہے اور کبھی ناکامیاں اس کا مقدر بنتی ہیں۔ زندگی کے مسائل اور مصائب کا بہادری سے سامنا کرنے والے اپنی ہمت اور کوششوں سے ان پر قابو پالیتے ہیں مگر بزدل یا کم ہمت لوگ ان وقتی ناکامیوں سے گھبرا کر زندگی سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ویسے بھی موت کو زندگی کی اٹل حقیقت تسلیم کیا گیا ہے اور زندگی اور موت کو دو جڑواں بہنیں کہا جاتا ہے اور اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ زندگی سسکی سے شروع ہوکر ہچکی پر ختم ہوجانے والا ایک مختصر ترین عمل ہے جو شروع مٹی کے اوپر ہوتا ہے لیکن ختم ہمیشہ مٹی کے نیچے ہوتا ہے۔لیکن خاک سے بنے انسان کو تب تک سمجھ نہیں آتی جب تک خاک کی خوراک نہیں بن جاتا۔ زندگی کو بعض مفکرین نے عورت کی طرح ناسمجھ میں آنے والی چیز کا نام بھی دیا ہے کیونکہ کبھی زندگی موت جیسی محسوس ہوتی ہے اور کبھی موت زندگی سے بھی زیادہ خوبصورت لگتی ہے، یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہوتی ہے، حیات زندگی میں کچھ کلیاں بن کھلے مرجھا جاتی ہیں اور کچھ کلیاں کھل کر ایسے پھول بنتی ہیں کہ ان کی خوشبو سے گلشن مہک اٹھتا ہے۔
زندگی نشیب و فراز اور مد و جزر کا نام بھی ہے اور انسان پر قدرت کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ اس کے جذباتی یا جسمانی زخم خواہ وہ کتنے ہی گہرے کیوں نہ ہوں مندمل ہوتے چلے جاتے ہیں اور اگر ایسا نہ بھی ہوسکے تو بھی انسان کو زندگی میں تھوڑی بہت ایڈجسٹمنٹ کرنی پڑتی ہے چاہے اس کا دل چاہے یا نہ چاہے۔ انسان کچھ بھی سوچ لے، کچھ بھی کرلے، خود کو کتنا ہی بااثر سمجھ لے یا بن جائے حقیقت پھر بھی یہی رہتی ہے کہ زندگی کے اسٹیج پر اس کی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہوتی تقدیر کے اسکرپٹ میں تحریر کردہ مناظر خواہ کتنے ہی ناپسندیدہ کیوں نہ ہوں انھیں نہ تو وہ کامیاب کرا سکتا ہے اور نہ ہی ان سے منہ پھیر سکتا ہے۔
مزید ستم یہ کہ عموماً وقت کا سب سے کاری وار اس وقت ہوتا ہے جب انسان کو اس کی توقع نہیں ہوتی۔ زندگی کو فانی بھی کہا گیا ہے اور اس کا پتا نہیں کہ یہ کب کہاں جاکر ختم ہوجائے لیکن پھر بھی موت کے خوف سے کوئی جینا نہیں چھوڑتا اور پل کی خبر نہ ہونے کے باوجود سو برس کا سامان وہ کرتا ہے، شاید اس لیے بھی کہ زندگی کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ موت انسان کو اپنے آپ سے بہت دور دکھائی دیتی ہے، غالباً جینے کا یہی احساس زندگی کو حسین اور انمول بنا دیتا ہے۔
زندگی کے حوالے سے ایک مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ سانس ٹوٹنے سے انسان ایک مرتبہ مر جاتا ہے لیکن ساتھ چھوٹنے یا ٹوٹنے سے انسان بار بار مرتا ہے۔ شاید اسی لیے زندگی میں یہی دو چیزیں ٹوٹنے یا چھوٹنے کے لیے ہوتی ہیں انسان اور ساتھ۔ اور کون نہیں جانتا کہ زندگی گزارتے ہوئے یا جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی ہے اس کے اپنے بزرگوں اور دوستوں کی تعداد گھٹتی جاتی ہے۔ انسانی زندگی کو کیلنڈر کے ماہ و سال سے بھی نہیں ناپا جاتا، واقعات و حادثات کی شدت سے ناپا جاتا ہے بلکہ ان حادثات اور واقعات سے پیدا ہونے والے محسوسات کے ذریعے ناپا جاتا ہے۔ کیونکہ زندگی کے مناظر بڑی تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں اسے سمجھنے کے لیے ایک خاص نظر کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ ہم زندگی کا پورا کھیل کھیل جاتے ہیں مگر پھر بھی زندگی کو سمجھ نہیں پاتے۔
مشاہدہ کہتا ہے کہ زندگی افسانوں سے بھی زیادہ عجیب ہوتی ہے۔ یہ پہاڑوں کو پیس کر ذروں اور سمندروں کو خشک زمین میں بدل دیتی ہے۔ زندگی بڑی عجیب و غریب پہیلی بھی ہے، مسٹری ہے، تجسس ہے جو کبھی نہیں ہوا ہوتا وہ کبھی نہ کبھی ضرور ہوجاتا ہے۔ زندگی کو باکمال استاد بھی کہا جاتا ہے اگر اس کا دیا ہوا سبق کوئی وقت پر نہ سیکھے تو یہ وہی سبق غلط وقت پر سکھا دیتی ہے۔ زندگی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کو خوشیاں نہیں دیتی ان کو تجربے سے ضرور نوازتی ہے۔ زندگی کبھی آسان نہیں ہوتی اسے آسان بنانا پڑتا ہے کبھی کچھ برداشت کرکے اور کبھی کچھ نظرانداز کرکے۔ زندگی اور خربوزے میں ایک قدر مشترک ہے کہ پھیکی یا پھیکے ہونے پر بھی دل اسے پھینکنے یا چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ زندگی سب کو ایمان بیچ کر لگژری دینے والی چیز نہیں یہ انسان کو ایسے موڑ پر بھی لاکھڑا کرتی ہے جہاں انسان سوچتا ہے کہ جان بچائے یا ایمان؟
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہر کسی نہ کسی کی زندگی میں بعض رشتے ایسے ضرور ہوتے ہیں جو جگنو بن کر پل بھر میں گھٹا ٹوپ اندھیرا دور کردیتے ہیں کیونکہ زندگی میں کسی ایسی ہستی کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے جس کو دل کا حال سنانے کے لیے لفظوں کی ضرورت نہ پڑے، ویسے بھی زندگی ان کے لیے وقف نہیں کرنی چاہیے جن کے ساتھ ہم زندگی گزار سکتے ہیں بلکہ زندگی ان کے نام ہونی چاہیے جن کے بنا ہم زندگی نہیں گزار سکتے۔ اس لیے کہ ہر انسان کی زندگی میں ایک چہرہ ایسا ضرور ہوتا ہے جو ہر دم ہر پل اس کی سوچ کے آئینوں میں جھانکتا رہتا ہے۔
زندگی اصل میں بہت ہلکی پھلکی ہوتی ہے بوجھ تو سارا خواہشات کا ہوتا ہے۔ تاہم اگر زندگی کی تلخیاں، پریشانیاں اور تکلیفیں ہم سے ہمارے اخلاق کی مٹھاس اور نرمی چھین لیں تو سمجھ لیں کہ ہم ہار گئے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرتی مسائل کی وجہ سے عوام کی غالب اکثریت جیتے جی مرچکی ہے اور جیتے جی مرجانا زندگی کی توہین ہوتی ہے جب کہ ایسے لوگوں کی تعداد بھی بہت بھاری ہے جو جینے کی آرزو میں کئی کئی بار مرتے رہتے ہیں۔ زندگی کے حوالے سے ایک تکلیف دہ سچائی یہ بھی ہے کہ زندگی میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو انسان بہت جلد بھول جاتا ہے، ان میں سے ایک اس کی اپنی ''اوقات'' بھی ہے۔