پھول کے بدلے پھول
محبت اور باہمی عزت کا یہی پیغام تمام اختلافی مسائل کا بہترین اور شافی حل ہوسکتا ہے۔
بھارت میں یوں تو مشاعرے بہت ہوتے ہیں لیکن طرح طرح کی زبانوں اورعلاقائی کلچر کے پھیلاؤ کی وجہ سے وہاں ہونے والی اردو شاعری بھی ایک خاص طرح کے سانچے میں ڈھل گئی ہے۔ لیکن ان مشاعروں کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ یہ وہاں کے ہرعلاقے میں ہوتے ہیں اور مسلسل ہوتے ہیں۔
1981 میں مجھے پہلی بار کسی بھارتی مشاعرے میں شرکت کا موقع ملا تو یہ بھارتی پنجاب کے شہر انبالہ میں تھا۔ اس کا عنوان شامِ بہار اور منتظم اور میزبان راجندر ملہوترا تھے، جو ایک سادہ دل اور بہت محبتی انسان تھے، معلوم ہوا کہ سب سے بڑا مشاعرہ ڈی سی ایم یعنی دہلی کاٹن ملز والوں کا ہوتا ہے اور بالعموم وہاں کے مشاعروں میں سامعین کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔
اس انبالوی مشاعرے میں بھی تین ہزار سے زیادہ لوگ جمع تھے یہ اور بات ہے کہ بعد میں تفتیش پر پتہ چلا کہ ان میں سے اردو رسم الخط پڑھ سکنے والوں کی تعداد تین سو سے بھی کم تھی۔ اتفاق سے 2015ء میں جو آخری مشاعرہ وہاں پڑھنے کا موقع ملا وہ دلی ہی میں تھا اور اس کا نام بھی شامِ بہار مشاعرہ ہی تھا جب کہ اس کی منتظم و میزبان محترمہ کامنا پرشاد تھی جن کا آبائی تعلق پٹنہ سے ہے جب کہ ان کے شوہر ایک سفارتکار ہیں اور وہ یہ مشاعرہ تقریبا بیس برس سے بلاتعطل کرتی چلی آ رہی ہیں اور ایک بہت اچھا انسان اور اردو کا عاشق ہونے کے ساتھ ساتھ ہر کام بہت ذمے داری، محنت اور سلیقے سے کرتی ہیں۔
مشاعرہ گاہ میں پہنچ کر معلوم ہوا اس بار کے مہمانان خصوصی مراری بابو، ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور نجمہ ہیبت اللہ ہیں۔ مراری بابو سے چند برس قبل اودھے پور میں ہونے والے ایک مشاعرے میں ملاقات کا موقع بھی ملا تھا وہ اِس وقت بھارت کے مذہبی علماء اور مقررین میں سب سے مقبول اور کامیاب مذہبی شخصیت سمجھے جاتے ہیں اور ان کے پرستاروں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ اپنے ہر خطاب میں جگہ جگہ اور برموقع اردو اشعار بہت کثرت سے استعمال کرتے تھے۔ انھوں نے نہ صرف سارا مشاعرہ سامنے زمین پر بیٹھ کر سنا بلکہ داد دینے میں بھی کسی قسم کے بخل سے کام نہیں لیا۔ ان کا لہجہ بہت دھیما اور گفتگو کا انداز بہت سادہ اور دل میں اتر جانے والا ہے۔ ان کی یادداشت کمال یہ ہے کہ اتنے برس قبل ہونے والی مختصر ملاقات کے باوجود نہ صرف انھوں نے پہچان لیا بلکہ وہاں پڑھی جانے والی ایک نظم کا حوالہ بھی دیا۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے یہ پہلی ملاقات تھی جو خاصے طویل قامت اور بھاری بھرکم وجود کے حامل تھے۔ مگر ان کی کشمیر کے حوالے سے منفی نوعیت کی شہرت کی وجہ سے ان سے مل کر کوئی خوشی نہیں ہوئی اور ان کا تاثر بھی کچھ اسی قسم کا تھا۔
ابھی میں مشاعرے کے دوران اپنی باری کا انتظار ہی کر رہا تھا کہ میری نظر اپنی بیاض میں رکھے ایک کاغذ پر پڑی جس پر پاک بھارت دوستی سے متعلق وہ گیت درج تھا جسکی ان دنوں میں اور برادرم گلزار مل کر کوئی ایسی شکل بنانا چاہ رہے تھے کہ جس میں دونوں ملکوں کے فنکار گائیک اور موسیقی اور میڈیا سے لوگ مل کر حصہ لیتے اور دونوں ملکوں کے عوام اور حکومتوں کو یہ پیغام جاتا کہ امن ، محبت اور بھائی چارہ ہی اچھی ہمسائیگی اور پر خلوص دوستی کے بنیادی عناصر ہیں اور ان کی تاثیر اس وقت تک اپنا مکمل رنگ نہیں دکھاتی جب تک فریقین ایک دوسرے کو برابر کی عزت، اہمیت اور سپیس نہ دیں۔
پتہ نہیں کہاں سے میرے دماغ میں یہ خیال آیا کہ مجھے یہ گیت اس مشاعرے میں پڑھنا چاہیے کہ یہاں مراری بابو جیسے کھلے ذہن کے عالم دین، فاروق عبداللہ جیسے موقع پرست اور وطن فروش اور نجمہ ہیبت اللہ جیسے پارلیمنٹیرین کے ساتھ ساتھ بھارت کی بزرگ اور نوجوان دونوں نسلیں موجود ہیں۔ سو میں نے ابتدا ہی اس نظم نما گیت سے کی، مشاعروں میں عام طور پر سنجیدہ یا حقیقی مسئلے پر لکھی گئی شاعری کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی کہ وہاں موڈ کچھ اور ہوتا ہے لیکن کچھ ایسا ہوا کہ سارا مجمع بالخصوص نوجوان نسل نہ صرف فوراً متوجہ ہوگئے بلکہ ان کی داد کا یہ عالم تھا کہ مجھے ہر بند کئی کئی بار پڑھنا پڑا اور مشاعرے کے اختتام پر مراری بابو اور فاروق عبداللہ نے اسٹیج پر آکر مجھے نہ صرف اس کی پرزور داد دی بلکہ بار بار یہ کہا کہ محبت اور باہمی عزت کا یہی پیغام تمام اختلافی مسائل کا بہترین اور شافی حل ہوسکتا ہے۔
گزشتہ دو ہفتوں کے درمیان کئی بار میرے دل میں یہ خیال آیا کہ اس موقع پر اسے دوبارہ عام کرنے کی ضرورت ہے لیکن میڈیا اور بالخصوص بھارتی میڈیا اور حکومتی بیانات نے کچھ ایسی صورتحال پیدا کر دی تھی کہ امن کی خواہش کو کمزوری سمجھنے کا رویہ بار بار راستہ روک لیتا تھا۔ اب بھی حالات معمول پر تو نہیں آئے مگر اب وقت ہے کہ اچھے اور پرانے ہمسایوں اور دوستوں کی طرح مل جل کر رہنے کا ایسا طریقہ وضع کیا جائے جو نہ صرف سب کو قبول ہو بلکہ اس کی منزل آخر بھی خیرو برکت کا حصول ہو کہ امن، باہمی عزت اور عوام کی ترقی تینوں کے دروازے اسی کنجی سے کھلتے ہیں۔ نہ گالی نہ گولی۔ صرف پھول
تم پھول ہمیں بھیجو، ہم پھول تمھیں بھیجیں
خوشبو سے مہکتا ہو، رنگوں سے لہکتا ہو
یہ باغ تمہارا بھی ، یہ باغ ہمارا بھی
یہ رات جو چھائی ہے اس رات کے دامن میں
اک صبح کو ہونا تھا
یہ رات نہیں گزری وہ صبح نہیں آئی
اے دوست چلو آؤ
اس صبح کے رستوں کے آثار ذرا دیکھیں
جو بیچ میں حائل ہے دیوار ذرا دیکھیں
خدشوں کی فصیلوں کے اْس پر ذرا دیکھیں
اب امن کا رستہ لیں، اب پیار کا موسم ہو
آنکھوں میں شفق جھولے، گفتار میں ریشم ہو
آباد رہو تم بھی ، آباد رہیں ہم بھی
دل شاد رہو تم بھی ، دل شاد رہیں ہم بھی
ہم پھول تمھیں بھیجیں
تم پھول ہمیں بھیجو