پی کے ایل آئی میں جگر کا پہلا ٹرانسپلانٹ
پی کے ایل آئی میں عالمی معیار کی بہترین سہولیات میسر کی گئی ہیں
پی کے ایل آئی میں جگر کا پہلا ٹرانسپلانٹ آپریشن ہو گیا ہے۔ رحیم یار خان کے ایک غریب آدمی کا جگر ٹرانسپلانٹ ہوا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر سعید اختر اور میاں شہباز شریف کی کاوشیں کامیاب ہو گئی ہیں۔ پی کے ایل آئی اس مقام پر کوئی آسانی سے نہیں پہنچا ہے۔ اس میں بہت سے نشیب و فراز آئے ہیں۔ ایک موقع تو ایسا بھی آیا کہ پی کے ایل آئی کی کہانی ختم ہوتی نظر آئی۔ پی کے ایل آئی کے روح رواں ڈاکٹر سعید اختر کو ہی اس سے الگ کر دیا گیا۔ ان کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا گیا۔ اس دوران مجھے ڈاکٹر سعید اختر ملتے رہے وہ پریشان تھے لیکن انھیں اپنے رب پر یقین تھا کہ ایک دن سچ کا سورج چمکے گا لیکن اس موقعے پر ایسا ہی لگتا تھا کہ ڈ اکٹر سعید اختر ایسے چکر میں پھنس گئے ہیں کہ اس میں نکلنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ ان کے جیل جانے کے امکانات بھی روشن تھے بلکہ ہر تاریخ پر یہی امید کی جاتی تھی کہ انھیں جیل بھیج دیا جائے گا۔
تا ہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈاکٹر سعید اختر کو پاکستان کی عدالتوں سے ہی انصاف ملا ہے۔ ان کے ساتھ اگر غیر معمولی زیادتی ہوئی تھی تو ان کے ساتھ غیر معمولی انصاف بھی ہوا ہے۔ ڈاکٹر سعید اختر کو پی کے ایل آئی سے الگ کر دیا گیا۔ ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا، ان کے خلاف اینٹی کرپشن کو انکوائری کا حکم دیا گیا تھا۔ پی کے ایل آئی کے بورڈ کو معطل کر دیا گیا تھا، اس کے ایکٹ کو تبدیل کرنے کا حکم دے دیا گیا تھا تا ہم یہ ڈاکٹر سعید اختر کی خوش قسمتی تھی کہ یہ سو موٹو کو زیر التوا ہی رہا۔
ڈاکٹر سعید اختر کو اسی کا فائدہ ہوا ہے۔سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بعد یہ سوموٹو ایک تین رکنی بنچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر ہوگیا۔ اس سماعت سے پہلے ڈاکٹر سعید اختر بہت پریشان تھے۔ میں بھی ان سے متفق تھا۔ میرا یہی خیال تھا کہ اگر ڈاکٹر سعید اختر کا نام ای سی ایل سے نکل جائے تو ملک سے جانے میں ہی عافیت سمجھیں۔ وہ بھی واپس امریکا جانے کا ذہن بنا رہے تھے۔ کہیں نہ کہیں یہ احساس بھی تھا کہ ملک کی خدمت کرنے اور پاکستان میں ایک بہت بڑا اسپتال بنانے کا تجربہ اچھا نہیں رہا۔ بس یہی امید تھی سوموٹو کو ختم کر دیا جائے۔ اور ای سی ایل سے نام نکل جائے۔ لیکن کس کو معلوم تھا کہ سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ سو موٹو ختم کرے گا اور ہر چیز واپس اپنی اصل حالت میں بحال کر دے گا۔ یہ سب کسی معجزہ سے کم نہیں تھا۔ اور شاید ڈاکٹر سعید اختر معجزات میں یقین رکھتے ہیں۔
پی کے ایل آئی میں جگر کا ٹرانسپلانٹ کوئی چھوٹی بات نہیں۔ پاکستان سے سیکڑوں مریض ہر سال بھارت جگر کے ٹرانسپلانٹ کے لیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ڈاکٹروں کا ایک گروہ ہے جو بھارت میں جگر کے ٹرانسپلانٹ کے مریضوں سے رقم بٹورتا ہے۔ انھیں بھارت میں جگر کے ٹر انسپلانٹ کے لیے بھارت ریفر کیا جاتا ہے۔ اس کام کی بھارت سے کمیشن لی جاتی ہے، مریض سے کمیشن لی جاتی ہے۔ بھارت میں ان مریضوں کے ساتھ نہایت بر اسلوک بھی کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی پاکستان میں جگر کے ٹرانسپلانٹ کی کوئی سہولت میسر نہیں تھی۔ بھارت ہی سب سے سستا تھا۔ اس لیے لوگ بھارت جانے پر مجبور تھے۔ پاکستان اور بالخصوص وہ ڈاکٹرز جو بھارت مریض بھیجتے تھے، یہ پی کے ایل آئی ان کی روزی پر لات ما ررہا تھا، اس لیے دل یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا تھا۔
پاکستان میں اچھے اور معیاری اسپتال کی بہت کمی ہے۔ اچھے اور معیاری ڈاکٹرز کی بھی بہت کمی ہے۔ اچھے ڈاکٹر باہر چلے جاتے ہیں۔ اچھے ڈاکٹر پرائیو یٹ پریکٹس سے لاکھوں روپے کماتے ہیں۔ اس لیے نہ تو کوئی اچھا ڈاکٹر کسی سرکاری اسپتال میں کام کرنے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی حکومت سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والوں ڈاکٹروں کو پرائیوٹ پریکٹس سے روک سکی ہے۔ یہی ہمارے اسپتالوں کی زبوں حالی کی بنیادی وجہ ہے۔
پی کے ایل آئی میں جہاں عالمی معیار کی بہترین سہولیات میسر کی گئی ہیں۔ ایک موقعے پر جب وہاں جدید مشینری کی تنصیب کا معاملہ تھا تو میاں شہباز شریف کو بتایا گیا کہ پیپرا قونین کے تحت حکومت سستی مشین خریدنے کی پابند ہے۔ جب کہ ڈاکٹر سعید اختر عالمی معیار کی مہنگی مشینری کی تنصیب چاہتے تھے۔ تب میاں شہباز شریف نے ذاتی جیب اور دوستوں سے چندہ اکٹھا کر کے وہاں عالمی معیاری کی جدید مشینری نصب کرائی تا کہ مریضوں کو عالمی معیار کے مطابق علاج ممکن ہو سکے۔ اس کی تکمیل ریکارڈ مدت میں کی جا رہی تھی۔ ہر کام بہترین ہو رہا تھا۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ درمیان میں اس منصوبہ کو کسی کی بری نظر لگ گئی۔
بات سمجھ سے باہر تھی کہ چلیں اورنج لائن کی مخالفت تو سمجھ آتی ہے۔ لیکن ایک اسپتال کی مخالفت کیوں۔ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں جگر کے ٹرانسپلانٹ کا بڑا مسئلہ ہے۔ لوگ مر رہے ہیں، غریب کے لیے تو علاج کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ میاں شہباز شریف خود حکومت پنجاب کے خرچے پر لوگوں کو بھارت بھیجتے رہے ہیں۔ اب جب ایک اسپتال بن رہا ہے تو اس کا راستہ کیوں روکا جا رہا ہے۔
پی کے ایل آئی میں ڈاکٹروں کی تنخواہوں کا بھی بہت شور تھا۔ ایک شور تھا کہ بہت زیادہ تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔ لیکن کوئی یہ نہیں بتانے کو تیا ر تھا کہ زیادہ تر ڈاکٹر بیرون ملک سے آئے ہیں۔ انھیں عالمی معیار کی تنخواہیں دینا ضروری ہے۔ کوئی یہ نہیں بتا رہا تھا کہ پی کے ایل آئی میں کام کرنے والے ڈاکٹرز کو پرائیوٹ پریکٹس کی اجازت نہیں ہے۔ وہ شام کو پرائیوٹ پریکٹس نہیں کر سکتے ہیں۔ انھیں اپنی الگ دکان کھولنے کی اجازت نہیں ہے۔
میری درخواست ہو گی کہ حکومت سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والے تمام ڈاکٹرز کو پی کے ایل آئی کی طرز پر تنخواہیں دے اور ان کی پرائیوٹ پریکٹس پر پابندی لگا دے۔ ڈاکٹر سعید اختر بتاتے ہیں کہ میں جب ایک مشہور ڈاکٹر جو پی کے ایل آئی کے خلاف پراپیگنڈا کرتے تھے، انھیں پی کے ایل آئی بلایا گیا، پوار اسپتال دکھا یا گیا، ان کی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی گئی، انھیں پی کے ایل آئی جوائن کرنے کی پیشکش بھی کی گئی لیکن وہ مسکرا دیے کہ جتنی آپ تنخواہ دے رہے ہیں اتنا تو ایک مریض سے کما لیتا ہوں۔ بہر حال پی کے ایل آئی میں جگر کا پہلا ٹرانسپلانٹ ہم سب کے لیے خوش آیند ہے۔ ہمیں اس پر شکر کرنا چاہیے۔