میثاق جمہوریت اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی
پیپلز پارٹی کو اپنی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کی خواہش کی گہرائی کو محسوس کرنا چاہیے۔
پیپلز پارٹی پر تحریک انصاف کے سائے گہرے ہوگئے۔ پیپلز پارٹی نے سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی حزب اختلاف کو نہ دینے کا حتمی فیصلہ کرلیا ۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ پارٹی کے سینئر اراکین کو اس عہدے پر تعینات کرنے پر غورکر رہے ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اس اہم عہدے پر تقرری کا حتمی فیصلہ کریں گے۔
پیپلز پارٹی کی سابق سربراہ بینظیر بھٹو اور مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف کے درمیان 2005ء میں لندن میں ہونے والے میثاق جمہوریت کے تابوت پرخود پیپلز پارٹی نے چادر چڑھا دی ۔ اس فیصلے سے ایک طرف میثاق جمہوریت کا معاملہ پس پشت چلا گیا تو دوسری طرف پیپلز پارٹی حکومت نے شفاف نظام حکومت کے تضاد کے نعرے کی قلعی کھل گئی۔
اب تحریک انصاف کی حکومت کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ اپنی شہید قائد کے تجویز کردہ میثاق جمہوریت کو نظر انداز کرنے کے بعد پیپلز پارٹی 18ویں ترمیم کا دفاع کس منہ سے کرسکتی ہے۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی حزب اختلاف کو نہ دینے کے فیصلے کا جواز بیان کرتے ہوئے کہا کہ میثاق جمہوریت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہوا تھا اور 2006ء سے پہلے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی حکمران جماعت کے پاس ہوتی تھی، یوں پیپلز پارٹی تحریک انصاف کو یہ عہدے دینے کی پابند نہیں ہے ۔
تحریک انصاف نے جب وفاق میں حکومت سنبھالی تو وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں گزشتہ حکومت کے اخراجات کے گوشوارے پیش ہوں گے اور کمیٹی کو ان اخراجات پر اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان کے اعتراضات کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا۔ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف یہ فیصلے کرنے میں انصاف نہیں کریں گے اور پھر میاں شہباز شریف بدعنوانی کے مقدمات کی تفتیش کے لیے نیب کی تحویل میں ہیں۔
اس بناء پر وہ اس عہدے کے اہل نہیں۔ مگر پیپلز پارٹی سمیت حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کا مؤقف تھا کہ میثاق جمہوریت کے تحت شفاف نظام کے قیام کے لیے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی قائد حزب اختلاف کو دینے کا فیصلہ ہوا تھا۔ اس فیصلے پر عملدرآمد ضروری ہے، یوں قومی اسمبلی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی تنازع کی بناء پر 6 ماہ تک کوئی کمیٹی قائم نہیں ہوئی نہ حکومت نے کسی قانون کا مسودہ اسمبلی میں پیش کیا۔
حزب اختلاف نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کا معاملہ طے نہ ہونے تک قومی اسمبلی کی دوسری تمام کمیٹیوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا، قومی اسمبلی میں 6 ماہ تک ہنگامہ آرائی کے سوا کچھ نہ ہوا۔ تحریک انصاف میں موجود باشعور لوگوں نے صورتحال کی سنگینی کو محسوس کیا اور شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ قائد حزب اختلاف نے رضاکارانہ طور پر فیصلہ کیا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے گزشتہ حکومت کی دستاویزات پیش ہوںگی تو شہباز شریف ایوان سے چلے جائیں گے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے بالترتیب 1988ء سے 1999ء تک بلاشرکت غیرے حکومت کی۔ غلام اسحاق خان اور پھر سابق صدر فاروق لغاری نے پہلے پیپلز پارٹی کو بدعنوان قرار دیا، غلام اسحاق خان اور پرویز مشرف نے بدعنوانی کے الزامات مسلم لیگ کی حکومت پر عاید کیے۔ میاں نواز شریف سعودی عرب میں نظربند رہے۔ آصف زرداری ملک میں قید رہے۔
بینظیر بھٹو نے جلاوطنی کے دن کاٹے۔ جب بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان پارلیمانی نظام کی بالادستی، صوبائی خودمختاری، شفاف انتخابات کے لیے خود مختار الیکشن کمیشن کے قیام پر اتفاق ہوا تو شفاف نظام حکومت کے قیام کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کی سربراہی حزب اختلاف کو دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ پہلے پیپلز پارٹی اور پھر مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے اس فیصلے پر عملدرآمد کیا، قائد حزب اختلاف کی قیادت میں دونوں پارٹیوں کے اراکین کی یکساں نمایندگی سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹیاں قائم ہوئیں۔ ان پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں نے غیر جانبداری سے سرکاری حسابات پر اکاؤنٹنٹ جنرل کے اعتراضات کے بارے میں فیصلے کیے۔ کمیٹی میں فریقین کے اراکین کی تعداد یکساں رکھی گئی، یوں جانبداری اور میرٹ سے ہٹ کر فیصلوں کا تصور ختم ہوا۔
گزشتہ 10 برسوں کے دوران اس کمیٹی کی کارکردگی قابل اطمینان رہی۔ ان کمیٹیوں نے صرف وزارت دفاع کے مختلف اداروں کے حسابات پر اکاؤنٹنٹ جنرل کے اعتراضات پر نرم رویہ اختیار کیا، باقی تمام معاملات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فیصلے میرٹ پر ہوئے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے قائدین نے جب میثاق جمہوریت پر اتفاق کیا تو ان قائدین نے تمام جماعتوں سے اپیل کی تھی کہ وہ اس میثاق کی توثیق کریں۔
جمہوریت اور پالیمانی نظام کے مستقبل کی راہ میں دشواریاں دور ہوئیں۔ تحریک انصاف کے علاوہ دیگر جماعتوں نے اس میثاق جمہوریت کی شقوں سے اتفاق کیا اور آئین میں متفقہ طور پر 18ویں ترمیم ہوئی۔ اس ترمیم سے صوبائی خودمختاری، آزادانہ اور شفاف انتخابات اور شفاف نظام حکومت جیسے دیرینہ مسائل حل ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی دوسری اور تیسری حکومت کی برطرفی کی بنیادی وجہ بدعنوانی کے الزامات تھے۔ 2008ء میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے میثاق جمہوریت کی بناء پر اپنی آئینی مدت پوری کی مگر سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے قریبی عزیزوں اور رفیقوں پر بدعنوانی اور اقرباء پروری کے الزامات لگے۔ نیب اور ایف آئی اے نے حکومت سندھ کے کئی وزراء اور بہت سے افسران کے خلاف تحقیقات کیں۔
آصف زرداری کے قریبی عزیز سمیت متعدد افسروں کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ بے نامی اکاؤنٹس اور آمدن سے زیادہ اثاثہ رکھنے پر وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سمیت بہت سے اراکین کے خلاف مقدمات قائم ہوئے۔ سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے غیر قانونی فیصلوںاور بدعنوانی کے خلاف سخت ریمارکس دیے۔ کمزور نظام حکومت اور بدعنوانی کی بناء پر کچرے کا معاملہ قومی ایشو بن گیا ۔کراچی سمیت بڑے اور چھوٹے شہرگٹر کے پانی میں ڈوب گئے ۔
پولیس، تعلیم، ٹرانسپورٹ، آبپاشی، زراعت، بلدیات غرض ہر وزارت میں بدعنوانی کے مقدمات کی بھرمار ہوگئی۔ تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کی بدعنوانی کو انتخابات میں خوب اچھالا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پیپلز پارٹی اندرون سندھ تک محدود ہوگئی۔ بصیرت کی بات تو یہ تھی کہ پیپلز پارٹی شفاف نظام حکومت کے قیام کے لیے اس طرح کے اقدامات کرتی کہ وفاق اور دیگر صوبائی حکومتیں اس کی پیروی کرنے پر مجبور ہوتیں مگر پیپلز پارٹی کی قیادت نے پیچھے کی طرف دوڑنا شروع کردیا ۔ یہ حکومت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی میں میثاق جمہوریت کو نظرنداز کر کے اپنے خلاف چارج شیٹ کی توثیق کررہی ہے۔
اب سندھ اسمبلی کی حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے اسی طرح اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا ہے جس طرح مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو ناراض حزب اختلاف کو اسمبلی میں واپس لانے کے لیے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ پیپلز پارٹی کو اپنی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کی خواہش کی گہرائی کو محسوس کرنا چاہیے۔
میثاق جمہوریت کی روح کے مطابق نہ صرف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو حزب اختلاف کے حوالے کرنا چاہیے بلکہ عوام کے جاننے کے حق کی تسکین کے لیے انفارمیشن کمیشن کو بھی مکمل طور پر خودمختار کرنا چاہیے تاکہ عوام حکومت کی کارکردگی کے بارے میں معلومات حاصل کرسکیں اور شفاف نظام حکومت قائم ہو تاکہ طالع آزما قوتیں بدعنوانی کے بیانیے کو جمہوریت کے خلاف استعمال نہ کرسکیں ۔