سندھ اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے داخلے پر پابندی کا مطالبہ
سندھ اسمبلی وہ ایوان ہے جس نے سب سے پہلے قیام پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے تھر کے علاقے چھاچھرو میں صحت کارڈ کے اجراء کے موقع پر کیے جانے والے خطاب کو پیپلزپارٹی کے رہنما شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
وزیراعظم کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ تھر اس لیے آیا کہ پورے ملک میں یہ سب سے پسماندہ علاقہ ہے جو سب سے پیچھے رہ چکا ہے۔ یہاں پچھلے تین چار سال میں1300 بچے خوراک نہ ملنے سے مرچکے ہیں۔
ہمارے ہیلتھ کارڈ آج سے ایک لاکھ 12 ہزار گھرانوں کو ملیں گے، اس کارڈ سے ہر خاندان 7 لاکھ 20 ہزار روپے تک کا علاج کسی بھی سرکاری یا پرائیوٹ اسپتال سے کراسکتا ہے، ہم یہ تمام کارڈ تھر کے لوگوں کو پہنچائیں گے۔ عمران خان نے اعلان کیا کہ تھر میں بہت جلد دو موبائل اسپتال کام شروع کردیں گے، یہ اسپتال دور دراز علاقوں میں پہنچیں گے اور تھر کو چار ایمبولینسز بھی دیں گے ۔
وزیراعظم نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایک شخص زرداری کا نام بدل کر بھٹو رکھ کے خود ساختہ لیڈر بن گیا، بلاول نے اسمبلی میں جو تقریرکی وہ کسی کو سمجھ ہی نہیں آئی، بلاول یوٹرن اچھی چیز ہے مشکل وقت سے بچاتی ہے، یوٹرن کا مطلب سمجھتے تو اتنی مشکل میں نہیں آتے۔
پرویز مشرف نے امریکا کے دباؤ میں آکر آپ کے والد کو این آر او دے دیا، اگر اس وقت آپ کرپشن سے یوٹرن لیتے تو آج عدالتوں کے چکر نہ کاٹ رہے ہوتے۔ عمران خان کی جانب سے پارٹی چیئرمین کو تنقید کا نشانہ بنانے پر پیپلزپارٹی نے اپنے رد و عمل کا اظہار کیا۔اس ضمن میں مشیر اطلاعات سندھ مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا بلاول بھٹو نے اپنا نام تبدیل نہیں کیا بلکہ وہ فخر سے اپنے نام کے ساتھ بھٹو اور زرداری لگاتے ہیں۔ رہی بات انگریزی کی تو جس کو انگلش سمجھ نہیں آتی، ہم ٹیوشن دینے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے سندھ آکر کرپشن کارڈ کھیلنے کی کوشش کی۔ صحت کارڈ پی ٹی آئی کی تبدیلی کی طرح فلاپ ڈرامہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان سیاسی بیان بازی سے گریز کریں۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا دورہ تھرپارکر خوش آئند ہے۔ عوام کو اپنے مسائل حل ہونے سے سروکار ہے، اس کے لیے جو بھی کاوش کرے گا وہ اس کی ستائش کریں گے۔ تھرپارکر کے عوا م کے لیے ہیلتھ کارڈ کے اجراء سے وہاں رہنے والوں کو علاج معالجے کے حوالے سے آسانی ہوگی۔ وزیراعظم کا تھر میں موبائل اسپتال کے قیام کا اعلان بھی قابل ستائش ہے تاہم عمرا ن خان نے جس انداز میں بلاول بھٹو زرداری کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اس کو مثبت انداز میں نہیں لیا جا رہا ہے۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اگر اپنے خطاب کو علاقے کے مسائل کے حل تک محدود رکھتے تو اس کو ایک کامیاب دورہ قرار دیا جا سکتا تھا لیکن پیپلزپارٹی کے چیئرمین کو تنقید کا نشانہ بنانے سے ان کے تعمیری کام کے پیچھے رہ گئے ہیں اور ساری بحث کا رخ بلاول بھٹو زرداری پر ہونے والی تنقید کی جانب مڑ گیا ہے۔
سندھ اسمبلی کے رواں سیشن کے دوران اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی کے خلاف حزب اختلاف کے ہی ایک رکن کی جانب سے پیش کی جانے والی تحریک استحقاق پر ایوان مچھلی بازار بن گیا اور پی ٹی آئی کے ارکان نے مبینہ طور پر ایم ایم اے سے تعلق رکھنے والے رکن سید عبدالرشید پر حملہ اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کی کوشش کی۔
حکومتی ارکان نے سید عبد الرشید کو اپنے حصار میں لیتے ہوئے انہیں پی ٹی آئی کے ارکان سے بچایا۔ صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن ارکان نے غنڈہ گردی کی ہے اور بد تہذیبی پر مبنی نعرے لگا ئے، جن ارکان نے ہاتھا پائی کی ان کے ایوان میں آنے پر پابندی عائد کی جائے۔ دوسری جانب سید عبد الرشید نے کہا کہ مجھے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں اور کہا گیا کہ ایوان سے باہر نکلو تو دیکھیں گے۔
سندھ اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کے بعد تحریک انصاف کے ارکان کی جانب سے بھی صوبائی وزیر سعید غنی اور شہلا رضا کے خلاف شکایات اسپیکر سندھ اسمبلی تک پہنچ گئی ہیں۔ تحریک انصاف کے رکن عبدالغفار نے صوبائی وزیر شہلا رضا کے خلاف شکایتی خط اسپیکر کو ارسال کردیا جس میں انہوں نے شہلا رضا سے اپنے اوپر لگائے الزامات واپس لینے اور معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے ہی رکن سندھ اسمبلی بلال احمد نے بھی اسپیکر سندھ اسمبلی کو لکھے گئے خط میں شہلا رضا سے معذرت کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مجھ پر رکن سندھ اسمبلی عبدالرشید پر ہاتھ اٹھانے کا غلط الزام لگایا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی راجہ اظہر نے بھی وزیر بلدیات سعید غنی کے خلاف تحریک استحقاق جمع کرا دی ہے۔ قطع نظر اس بات کہ غلطی کس کی تھی کسی منتخب رکن کو دوسرے ارکان کی جانب سے ایوان کے اندر تشدد کا نشانہ بنانے کی کوشش کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔
سندھ اسمبلی وہ ایوان ہے جس نے سب سے پہلے قیام پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ وہاں اس طرح کا واقعہ پیش آنا ایوان کی توہین کے مترادف ہے۔ اس واقعہ کے بعد ایک بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ اس وقت اپوزیشن تقسیم کا شکار ہے۔ ایم ایم اے اور تحریک لبیک پاکستان کے ارکان متحدہ اپوزیشن کے بہت سے فیصلوں سے اختلاف رکھتے ہیں اور اس واقعہ کے بعد ان جماعتوں کا پی ٹی آئی کے ساتھ چلنا مزید دشوار ہوجائے گا۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ واقعہ کی ہر پہلو سے تحقیقات کرائی جائے اور جو بھی رکن ایوان کا تقدس پامال کرنے کا مرتکب ہوا اس پر کچھ عرصے کے لیے سند ھ اسمبلی میں داخلے پر پابندی عائد کی جائے۔
کراچی میں پی ایس ایل کا میلہ سج گیا ہے ۔ حکومت سندھ کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیے گئے ہیں۔ اس مرتبہ یہ بات خوش آئند ہے کہ غیر ملکی کھلاڑی بھی بلا خوف و خطر کراچی میں میچز کھیلنے کے لیے آئے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ شہر میں امن و امان کی صورت حال اطمینان بخش ہے ۔
پاک بھارت کشیدگی کے باعث لاہور میں ہونے والے میچز بھی کراچی منتقل کردیئے گئے ہیں ، جس کی وجہ سے کراچی کے شائقین اور زیادہ پرجوش ہیں۔ اب تک ہونے والے میچز میں نیشنل اسٹیڈیم کراچی تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا۔ پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد سے پوری دنیا میں پاکستان کا مثبت تاثر اجاگر ہوگا، جس کے لیے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور ان کی ٹیم کو کریڈٹ نہ دینا ناانصافی کے مترادف ہوگا ۔