وزراء کی کارکردگی کا جائزہ اور قلمدانوں کی تبدیلی کی افواہیں
صرف تحریک انصاف ہی قبائلی اضلاع میں انتخابی معرکہ سرکرنے کے لیے سرگرم نہیں۔
پنجاب میں وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان کو بوجوہ ان کے عہدے سے ہٹانے کے بعد وہاں دیگر وزراء کی کارکردگی اورکچھ وزراء کو تبدیل کرنے کی باتیں چل نکلی ہیں جس کے اثرات خیبرپختونخوا بھی پہنچے ہیں اور یہاں بھی دبی، دبی آوازوں میں بعض وزراء کی کارکردگی کے بارے میں باتیں ہونا شروع ہوگئی ہیں اور اقتدار کے ایوانوں سے تعلق رکھنے والے خود یہ بتا رہے ہیں کہ موجودہ حکومت نے نصف سے زائد سال اقتدارمیں گزار لیا ہے اور اتنے عرصے کے دوران جو وزراء تحریک انصاف کے ایجنڈے کے مطابق کام نہیں کر سکے یا پھر وزیراعظم عمران خان کی توقعات پر پورے نہیں اترے انھیں تبدیل کرتے ہوئے نئی بھرتی کی جائے گی۔
اگرچہ باقاعدہ طور پر تو اس امر کی تصدیق نہیں ہو پا رہی تاہم یہ باتیں موجود ضرور ہیں جس کے ڈانڈے پی ٹی آئی کے ان رہنماؤں کے ساتھ بھی جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے جنہوںنے ضمنی انتخابات کے بعد اپنوں کو کابینہ میں شامل کرانے کی کوششیں کیں تاہم انھیں ان کوششوں میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی تاہم وہ تھک ہار کر بیٹھے نہیں بلکہ جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یقینی طورپر اس موڑ پر کہ جبکہ محمودخان صوبہ کے وزیراعلیٰ ہیں،ان کی کابینہ میں اگر کوئی ردوبدل ہوتا ہے یا پرانے چہروں کو ہٹا کر ان کی جگہ نئے چہرے لائے جاتے ہیں تو اس میں ان سے لازمی طور پر مشاورت بھی ہوگی اوران کی رائے کا احترام بھی کیا جائے گا،کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ محمودخان چونکہ پرویزخٹک نہیں اس لیے اگر پارٹی کی ٹاپ لیڈر شپ نے کابینہ میں ردوبدل کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا تو وہ سرتسلیم خم کرتے ہوئے اس فیصلے کو مان لیں گے۔
تاہم دھیمے مزاج کے محمودخان خود بھی اپنے الگ انداز میں کام کرنا جانتے ہیں اور پھر انھیں پارٹی کے چیئرمین اور وزیراعظم عمران خان کی چھترچھایہ بھی میسر ہے اس لیے وزیراعظم نے اگر کوئی قدم اٹھانا ہوا تو اس کے لیے وزیراعلیٰ سے ضرورمشاورت کریں گے، تاہم اس موقع پر اب جبکہ قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد بھی نزدیک آگیا ہے ،کابینہ میں کسی قسم کا ردوبدل یا کمی بیشی اس حوالے سے مناسب نہیں ہوگی کہ اس سے قبائلی اضلاع کے لیے جاری معاملات متاثر ہو سکتے ہیں اور پی ٹی آئی کبھی بھی ایسا نہیں چاہے گی۔
چونکہ قبائلی اضلاع میں آئندہ دو، تین ماہ کے دوران منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے نتیجے میں اسمبلی ارکان کی تعدادمیں21 کا اضافہ ہو جائے گا اس لیے تحریک انصاف قبائلی اضلاع سے آنے والے ارکان کو بھی صوبائی کابینہ میں شامل کرے گی جس کے لیے پہلے ہی گورنر خیبرپختونخوا شاہ فرمان عندیہ دے چکے ہیں کہ قبائلی اضلاع سے دو نمائندوں کو صوبائی کابینہ کا حصہ بنایا جائے گا۔
اس لیے خیبرپختونخوا کابینہ میں ردوبدل یا کمی، بیشی کے حوالے سے فوری طور پر کوئی امکان نظر نہیں آتا، تاہم قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی انتخابات اور آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش ہونے کے بعد اس سلسلے میں ضرور پیش رفت ہوگی اور جو وزراء تحریک انصاف کی قیادت کے معیار پر پورے نہیں اتر رہے انھیں ممکنہ طور پر سائیڈ لائن کرتے ہوئے نئے چہروں کو کابینہ کا حصہ بنایا جائے گا تاکہ کام کی رفتار کو تیز کیا جا سکے، تاہم جہاں تک کابینہ میں خواتین ارکان کو نمائندگی دینے کا تعلق ہے تو اس بارے میں پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے نہ تو کوئی اشارہ ملا ہے اور نہ ہی کوئی ایسی سوچ بچار جاری ہے ۔
تاہم پی ٹی آئی چیئرمین اور وزیراعظم عمران خان کو خواتین ارکان میں سے بھی کچھ کا انتخاب کرتے ہوئے انھیں کابینہ میں شامل ہونے کا موقع دینا چاہیے تھا تاہم ایسا نہیں ہوسکا جس کے باعث امکان یہی نظر آرہا ہے کہ جب پارلیمانی سیکرٹریز کا تقرر ہوگا اس وقت خواتین ارکان کی ایڈجیسٹمنٹ کی جائے گی ۔
صرف تحریک انصاف ہی قبائلی اضلاع میں انتخابی معرکہ سرکرنے کے لیے سرگرم نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی مذہبی جماعتیں بھی میدان میں اترنے کے لیے پوری تیاری کر چکی ہیں،اگر ایک جانب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان انتخابی شیڈول کا اعلان نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیرستان جاکر وہاں انصاف صحت کارڈز کی تقسیم کر رہے ہیں تو دوسری جانب مولانا فضل الرحمٰن اپنا ملین مارچ لے کر وزیرستان جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور رواں ماہ کے تیسرے عشرے میں وہ وزیرستان میں ملین مارچ کا انعقاد کررہے ہیں ۔
جس کے لیے ان کی پارٹی زوروشور سے تیاریاں کر رہی ہے حالانکہ اب تک مولانا فضل الرحمٰن نے یہ اعلان نہیں کیا کہ آیا وہ قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے جا رہے ہیں یا نہیں؟ تاہم ان کی جانب سے وزیرستان میں ملین مارچ کا انعقاد اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ فیصلہ ہو چکا ہے بس صرف اعلان ہونا باقی ہے جو الیکشن کمیشن کی جانب سے شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی کردیا جائے گا کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن نے جب قاضی حسین احمد مرحوم کے اصرار کے باوجود 2008ء کے عام انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کیا تو وہ اب بائیکاٹ کیوں کرینگے؟
اورجمعیت علماء اسلام(ف)کی طرح جماعت اسلامی بھی میدان میں اترنے کے لیے تیاری کر رہی ہے،جماعت اسلامی کے زیر اہتمام پشاورمیں قبائل ورکرز کنونشن کا انعقاد قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی انتخابا ت کا وارم اپ ہے جس کے بعد پارٹی کے مرکزی امیر سراج الحق خود بھی قبائلی اضلاع میں جلسوں کے انعقاد کا سلسلہ شروع کریں گے کیونکہ جماعت اسلامی، جے یوآئی کے ساتھ مل کر ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے میدان میں اترنے کی بجائے اپنے طور پر تنہا پرواز کرنے جا رہی ہے اورتنہا پرواز کے لیے ضروری ہے کہ وہ مکمل طور پر میدان میں اترنے کے لیے تیار ہو یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے جہاں ایک جانب اپنی نئی صف بندی مکمل کی ہے وہیں وہ اب اپنے قوت بازو کو آزمانے کے لیے تنہا پرواز کرنے جا رہی ہے۔
اے این پی اور جے یوآئی کے ساتھ مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی میں بھی انٹرا پارٹی انتخابات کا سلسلہ جاری ہے، اے این پی میں اضلاع کی سطح کے انتخابات منعقد ہو رہے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ اپریل میں صوبائی اور مرکزی انتخابات ہونگے جس میں قیادت میں کوئی تبدیلی آنے کا امکان نہیں ، جے یوآئی(ف)کے انٹرا پارٹی انتخابات میں بات ابھی اضلاع کی سطح تک نہیں پہنچی اور نچلی سطح پر تنظیم سازی کی جا رہی ہے جس کے بعد مارچ، اپریل میں اضلاع کی سطح پر انتخابات ہونگے جبکہ اپریل ہی میں صوبائی سطح پر بھی انتخابی عمل ہونے کا امکان ہے۔
تاہم جہاں تک مرکزی سطح کے انتخابات کا تعلق ہے تو وہ عید کے بعد ہی منعقد ہونگے کیونکہ ماہ رمضان میں انٹرا پارٹی الیکشن کا کھٹراگ نہیں پھیلایا جائے گا، مسلم لیگ(ن) بھی نچلی سطح سے تنظیم سازی کرنے میں مصروف ہے اور امکان یہی ہے کہ صوبائی سطح تک بات پہنچتے، پہنچتے وقت لگے گا جس میں انجنیئر امیر مقام ہی دوبارہ صدر منتخب ہو جائیں گے کیونکہ صدارت کے دیگر امیدواروں میں نہ تو وہ تحریک نظر آرہی ہے اور نہ ہی جذبہ جس کے باعث میدان امیرمقام کے لیے خالی ہے۔
پیپلزپارٹی نے بھی تنظیم سازی کا عمل شروع کر رکھا ہے اور نچلی سطح پر پارٹی کو منظم کیا جا رہا ہے تاہم ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ صوبائی سطح پر بھی انٹرا پارٹی الیکشن کا انعقاد ہوگا بلکہ حسب سابق پارٹی کی ٹاپ قیادت نامزدگی کا سہارا لیتے ہوئے مختلف صوبائی عہدوں پر نامزدگیاں کردے گی اور کام چلتا رہے گا۔
اور قومی وطن پارٹی کی صورت حال یہ ہے کہ پارلیمانی طور پر آؤٹ ہونے اور بڑی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کے باوجود وہ پختونوں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنے کے لیے کوشاں ہے جس کے لیے وہ ان پارٹیوں کے ساتھ ہاتھ ملا رہی ہے جن کی نہ تو پارلیمان میں نمائندگی ہے اور نہ ہی پارلیمانی اعتبار سے وزن، تاہم ایسا کرنا قومی وطن پارٹی کے لیے وقت کی ضرورت ہے اور وہ اپنی اس ضرورت پوری کرنے کے لیے مصروف عمل ہے۔