سارے رنگ
خود کو زندہ ثابت کیجئے ۔۔۔ !
''کھاٹ بُنالو'' یا ''چارپائی بُنالو؟''
حکیم خواجہ سید ناصر نذیر فراق دہلوی
اکبر ثانی کے حضور میں پرچا گزرا کہ آج شاہ جہاں آباد میں شہر والوں نے کھٹ بُنوں کو خوب مارا پیٹا، کیوں کہ کھٹ بُنوں کا قاعدہ ہے کہ جب وہ شہر میں پھیری پھرنے آتے ہیں، تو آواز لگاتے ہیں ''کھاٹ بُنالو کھاٹ۔۔۔ کھاٹ بُنا لو کھاٹ!''
شہر والوں نے کہا نکلے تمہاری کھاٹ۔ یہ کیا بری فال منہ سے نکالتے ہو۔ پھر جو انہیں پیٹا تو پیٹتے پیٹتے جھلنگا بنا دیا اور اس ٹکسال باہر لفظ سے توبہ کروائی اور سمجھایا کہ بہ جائے کھاٹ بُنا لو کے چار پائی بُنالو کہا کرو، چناں چہ جب سے اب تک کھاٹ بُنے، چارپائی بُنالو ہی کہتے ہیں۔ اس تکلف وتنبیہہ اور تدبیر اور تدبر سے اردو معلیٰ کو سنوارا گیا ہے اور جگہ اردو کو چار چاند نہیں لگ سکتے۔ ان کھٹ بُنوں کی ایک صفت قابل رشک ہے کہ شاہ جہاں کے عہد سے آج تک ان کا کسی قسم کا مقدمہ عدالت شاہی میں نہیں آیا۔ ان کا سرگروہ جو چوہدری کہلاتا ہے، وہی چُکا دیتا ہے۔
(کتاب ''لال قلعے کی ایک جھلک'' سے چُنا گیا)
۔۔۔
خود کو زندہ ثابت کیجئے ۔۔۔ !
آمنہ احسن، کراچی
حادثے کے موقع پر اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ مجمع تو اکھٹا ہو چکا ہے، لیکن کوئی آگے بڑھ کر مدد کرنے کو تیار نہیں۔ وجہ پوچھو، تو بتایا جاتا ہے کہ صاحب، آج کل کسی کے معاملے میں پڑ کر اپنی جان کیوں خطرے میں ڈالیں؟ یہ نہیں سوچا جاتا کہ خدانخواستہ کل اگر ہمارے ساتھ کوئی حادثہ پیش آگیا، تو ہماری بھی کوئی یہی سوچ
کر مدد نہیں کرے گا کہ اپنی جان کیوں خطرے میں ڈالیں؟
کل میرا بھائی ایک دکان میں والدہ اور اپنے بیٹھے کے ہم راہ خریداری میں مصروف تھا، لمحے بھر کو اپنے بچے پر سے نظر ہٹی اور بچہ بھاگتا ہوا دکان سے باہر سڑک پر نکل گیا۔ میری والدہ نے دوڑ کر اسے پکڑا، ورنہ پتا نہیں وہ کہاں نکل جاتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنے لوگ تھے، لیکن باہر اکیلے جاتے ہوئے بچے کو دیکھ کر کسی نے نہیں روکا۔ باہر موجود مسلح محافظ سے جب میرے بھائی نے کہا کہ آپ ہمیں آواز تو دے سکتے تھے، تو اس نے جواب دیا: ''صاحب یہ ہماری ذمہ داری تھوڑی ہے۔''
اس جواب پر غصہ کرنے والے ہم سب بھی در حقیقت وقت آنے پر ایسا ہی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کے گریڈز کے پیچھے دوڑانے والے ہم، انہیں سب سے قیمتی تعلیم دینے اور انسانیت کا سبق پڑھانے سے قاصر ہیں۔ ہم نے خود بھی اس سبق کو اپنی زندگی کا حصّہ نہیں بننے دیا۔
بڑے اسکولوں میں پڑھنے والے اور بہترین اداروں میں کام کرنے والے جان دے سکتے ہیں، لیکن کسی کی مدد نہیں کر سکتے۔ حالات کو خراب دیکھ کر آنکھیں بند کر لینا مسئلے کا حل نہیں۔ جہاں تک ہو سکے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ مصیبت میں مبتلا کسی فرد کو مجمع کی نہیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم کسی کی زندگی میں اہمیت رکھنے والے کی جان بچا لیتے ہیں، تو یقین جانیے ساری زندگی سکون ہمارا نصیب ہو جائے۔ احساس سے عاری انسان رکے ہوئے پانی جیسا ہے، جو بو پیدا کرتا ہے اور کسی کے کام بھی نہیں آتا۔ وقت پر اپنا مثبت کردار ادا کر کے، خود کو زندہ ثابت کیجیے۔
۔۔۔
ڈاکٹر جمیل جالبی
کا نقشہ
مرسلہ: سید اظہر علی، گلشن اقبال
سلیم کو تو 1947ء میں جیسا چھوڑا تھا، اب بھی ویسا ہی پایا، مگر وہ جواس ٹولی کا دوسرا جوان تھا، جمیل خان اور جس نے آگے چل کر جمیل جالبی کے نام سے اپنی محققی کا ڈنکا بجایا وہ کتنا بدل گیا تھا۔ ماشا اﷲ کیا قد نکالا تھا۔ جب میرٹھ میں دیکھا تھا، تو نام خدا ابھی شاید مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں۔ چھریرا بدن ، گوری رنگت ، پتلے پتلے ہونٹ، ستواں ناک، جیسی اچھی صورت ویسا اجلا لباس، میرٹھ کالج کا نیا دانہ اور اب جو دیکھا، تو نقشہ کچھ سے کچھ ہو چکا تھا۔ لمبا قد، چوڑا چکلا بدن، چہرہ سرخ و سفید، کلے میں گلوری، ہونٹوں پر پان کی لالی، جیب میں پانوں کی ڈبیا اور قوام کی ڈبچی، کتنی جلدی مگر کسی شائستگی سے جیب سے یہ ڈبیاں نکلتی تھیں۔ ''ناصر صاحب پان لیجیے اور یہ قوام چکھیے۔'' ناصر کاظمی کو جمیل خاں کیا ملے، دونوں جہاں کی نعمت مل گئی۔ فوراً ہی مجھے اپنی رائے سے آگاہ کر دیا۔ ''یہ تمہارے جمیل صاحب آدمی شستہ ہیں۔''
پانوں کی اس ڈبیا اور قوام کی اس ڈبچی نے ہمارے بہنوئی شمشاد حسین کو بھی متاثر کیا۔ ''ارے میاں تمہارے دوستوں میں بس یہی ایک جوان کام کا ہے۔ باقی تو سب مجھے یوں ہی سے لگتے ہیں۔ ''
(انتظار حسین کی کتاب ''چراغوں کا دھواں'' سے لیا گیا)
۔۔۔
ہم پر بم پھینکنے والا ''ہیرو''
اکثر ہجوم شدید جذبات میں 'ہُو ہَا' کر رہا ہے۔۔۔ مگر ہم مجمع سے بالکل الگ دَم سادھے بیٹھے ہیں کہ جیسے ہمارے سامنے 'لوڈ' بندوقیں ٹانگے دو ''افراد'' بِھڑ گئے ہوں اور ہمیں یہ خوف کہ کہیں بے دھیانی میں ہی کسی کی بندوق (جوہری بم) نہ چل جائے۔۔۔! ہم اِدھر اُدھر سب ہی کو سمجھا بھی رہے ہیں کہ میاں، لڑائی ختم کرنے کی بات کرو، مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔۔۔ کشمیر سے پکڑے جانے والے بھارتی فضائیہ کے پائلٹ 'ابھی نندن' کو یکم مارچ 2019ء کو امن اور خیر سگالی کے جذبے کے تحت رہا کیا گیا، تو جنگ کے لیے تالیاں پیٹنے والوں کی اکثریت نے اسے ناپسند کیا۔
ہم نے اس قدم کی تائید کی، کہ بات امن کی تھی۔۔۔! مگر صاحب، ہم یہ کیا دیکھتے ہیں کہ اکثر بھارتی ٹی وی چینل تو آگ بھڑکانے میں کئی ہاتھ آگے نکلے ہوئے ہیں اور 'امن' کے لیے کیے جنے والے اس قدم کو پس پشت ڈال کر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ انہوں نے کوئی جنگ جیت لی ہے۔۔۔! یہ تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ڈوبتی ہوئی ساکھ کا مسئلہ تھا کہ وہ 'دشمن' کے ہاتھوں گرفتار پائلٹ کی رہائی کو بھی اپنا 'کارنامہ' گنوانے بیٹھ جائیں۔۔۔ ایسے میں کانگریس اور دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں کو چاہیے تھا کہ ایسے تاثر کو زائل کرتیں۔۔۔ لیکن مستقبل کے وزیراعظم سمجھے جانے و الے کانگریسی راہ نما راہول گاندھی نے تو بالاکوٹ میں بھارتی طیاروں کے گھس آنے پر اپنی فوج کو سلام ٹھوکا تھا۔۔۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حب الوطنی کس قدر 'بے ہنگم' ہو چکی ہے۔۔۔! خیر، کرنے کی بات یہ ہے کہ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی رہائی پر اکثر بھارتی جنتا بھی اتنی 'اتاولی' ہوتی گئی کہ یہاں سے 'امن' کے نام پر چھوڑا گیا قیدی اہل کار وہاں ''ہمارا ہیرو!'' ہو گیا۔۔۔
ستم یہ کہ پاکستان سے امن کی خواہش رکھنے والے افراد بھی اسی جذباتیت میں بہتے دیکھے گئے۔۔۔ ارے بھئی، ابھی نندن کے ''کارنامے'' کو ایک طرف رکھ کر لمحے بھر کے لیے یہ تو سوچ لو، تم ''ہمارا ہیرو'' کہہ کس کو رہے ہو، اُسے، جو ہم پر بم گرانے آیا تھا۔۔۔؟ اگر ایسا کرو گے، تو پھر کہاں جائے گی تمہاری امن پسندی؟ یہ ٹھیک ہے، آپ کا قیدی چُھوٹ کر آ رہا ہے، خوشی کی بات ہے، ریاستی مجبوری بھی ہے کہ حوصلہ بڑھانے کے لیے اس کاخوب استقبال کیا جائے، لیکن 'ہیرو' کہنے کے بہ جائے یہ کہہ کر اظہار مسرت کیوں نہ کیا گیا کہ پڑوسی ملک نے صرف امن کے لیے ایک قدم اٹھایا ہے۔۔۔ اگر اُسے اعتدال پسند حلقے بھی ''ہیرو'' کہیں، تو پھر یہ کسی کی کام یابی یا ناکامی سے قطع نظر آپ کی امن پسندی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔۔۔!
۔۔۔
محبت
اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
میں جب بھی اس کی سحر انگیز آنکھوں کو دیکھتا تو اس کی نگاہیں احمد فراز کے شعر کا استعارہ معلوم ہوتی تھی۔
اس کی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز
سونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی
اس کا نام تو جانے کیا تھا۔ ہم اکثر یونیورسٹی کی کینٹین کے سامنے بڑے گرائونڈ میں سیمنٹ کے بینچوں پر بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے۔ اس کی باتوں اور خیالوں میں ہمیشہ مرد کی ازلی بے وفائی کا طنز ہوتا تھا۔ میں کئی بار اس سے بے سبب اداس رہنے کی وجہ پوچھتا، تو وہ ہنس کر ٹال دیا کرتی تھی۔
ان دنوں رنگ برنگے کھلتے پھول بہار کی آمد کا پتا دے رہے تھے، ہوائیں چلتیں تو موسم کی رومانیت پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی۔ ایک دن ایک سہ پہر معمول کی طرح میں اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ کافی دیر تک ہمارے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ میں نے اس کو بغور دیکھا، تو وہ بہت زیادہ غمگین لگ رہی تھی میں اس وقت اس بے معنی خاموشی کو سمجھنے کی سوچوں میں غرق تھا کہ اس نے سلسلہ تکلّم شروع کیا۔
''اس دنیا میں محبت کے سارے قاعدے اور اصول، حدود و قیود صرف عورت کے لیے کیوں مختص ہیں؟ کیا محبت کرنے اور جتانے کا حق حاصل صرف مرد کو ہے؟ کوئی مرد کی بے وفائی پر کچھ کیوں نہیں لکھتا؟ میں سمجھتی تھی کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، لیکن یہ میرا محض وہم تھا حقیقت نہیں تھی!'' اس کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں کہنے لگی ''تاریخ میں جھانک کر دیکھو تو کوئی ہمارے وجود کو بلا بتاتا ہے، کسی کے نزدیک ہم غلاظت کا پلندا ہیں، کسی کے خیال میں محض ایک کھیل تو کوئی ہمیں کم تر سمجھتا ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے آنسوئوں تک کو ان مرد ادیبوں نے ٹسوئوں سے تشبہہ دی اور کیا برے القاب ہماری توہین نہیں؟''
مجھ میں اس کی مزید گفتگو سننے کا حوصلہ نہیں تھا، یوں میں اس کو اکیلا چھوڑ کر اپنے ہاسٹل کی جانب چل دیا۔
۔۔۔
کارنامہ
مرسلہ: سترط شاداب،
لانڈھی، کراچی
افریقا کے گھنے ترین جنگل میں ایک نہایت قیمتی ہرن گُم ہو گیا۔۔۔ جب مقامی پولیس اور ادارے اسے تلاش کرنے میں ناکام ہوگئے، تو دنیا بھر کے سراغ رسانوں کو تلاش کرنے کے لیے بلایا گیا۔۔۔ پہلے امریکا کی ٹیم گئی، اپنے تئیں چپہ چپہ چھان مارا ناکام رہی۔ پھر جاپانی اہل کار گئے اور کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے مایوس لوٹ آئے۔۔۔ برطانیہ کے اعلیٰ ادارے کے لوگ بھی گئے مگر نامراد پلٹے۔۔۔ الغرض دنیا بھر کے بے شمار ادارے گئے، مگر ہرن کسی کو نہ ملا۔ آخر میں پاکستانی پولیس گئی، ایک گھنٹے میں ایک ہاتھی کو پکڑ کر لے آئی جو زور زور سے یہ کہہ رہا تھا کہ ''ہاں، ہاں میں ہرن ہوں۔۔۔ ہاں، ہاںِ میں ہرن ہوں۔۔۔!''
(عمر شریف کے پیش کیے گئے ایک کھیل سے لیا گیا)
۔۔۔
صد لفظی کتھا
نئی سڑک
رضوان طاہر مبین
ثمر کی ٹانگ میں 'پلاستر' دیکھا تو استفسار کیا، وہ بولا:
''ہماری طرف کی سڑک نئی بن گئی ہے ناں۔۔۔''
''سڑک نہیں اپنی چوٹ کا بتائو۔۔۔؟'' مجھے قطع کلامی کرنا پڑی۔
ثمر بولا ''وہی بتا رہا ہوں۔۔۔
مجھے روزانہ ایک مصروف سڑک پار کرنا پڑتی ہے۔ وہاں 'بالائی گزر گاہ' بھی نہیں۔۔۔
میں دوسری جانب جانے کے لیے ایک گڑھے کا 'سہارا' لیتا تھا۔۔۔ گاڑی قریب بھی ہوتی، تو مجھے اندازہ ہوتا کہ گڑھے میں اس کی رفتار دھیمی ہوگی اور میں آسانی سے گزر جائوں گا۔۔۔
کل وہ سڑک نئی بن گئی۔۔۔!''
ثمر نے کراہتے ہوئے کہا۔