عوام کا پیمانہ صبر لبریز

زیرِ گردش قرضوں کی ادائیگی کے وقت یہ فرمایا گیا کہ اِن کی ادائیگی سے بجلی کی پیداوار میں فوری اضافہ ہو گا


Dr Mansoor Norani August 06, 2013
[email protected]

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ 11 مئی 2013کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو شکست صرف اُس کی پانچ سالہ کارکردگی کی وجہ سے ہوئی۔ وہ عوام کی توقعات پر پورا نہیں اُتر سکی اور اپنی ناقص حکمتِ عملی اور غیر تسلی بخش پالیسیوں کی بدولت سارے ملک سے سمٹ کر صرف ایک صوبے تک محدود ہو کر رہ گئی۔ کرپشن اور لوٹ مار کے علاوہ عوام کو ریلیف پہنچانے کی بجائے اُن پر مصائب اور مشکلات کے پہاڑ توڑنے کے سوا کوئی قابلِ ذکر کام اُن کے نامہ اعمال میں درج نہ ہو سکا۔ بجلی کا بحران و ہ اپنے پانچ سالہ دور میں ختم نہ کر سکے بلکہ اُس میں اضافہ ہی کیا۔

اب عوام نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اِن اُمیدوں اور تمناؤں کے ساتھ ایک بار پھر اِقتدار سونپا ہے کہ وہ اُن کے مسائل پر فوری توجہ دیکر اُنہیں مشکلات سے باہر نکالے گی لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) بھی اپنے وعدوں اور نعروں کے برعکس اُسی طرزِ عمل پر چل پڑی ہے جو سابقہ حکمرانوں کا وتیرہ رہا تھا۔ اپنے ساٹھ دنوں میں اُنہوں نے بجلی کے بحران پر اتنے بدلتے بیانات دے ڈالے ہیں کہ لگتا ہے کہ یہ بحران اب اُن سے بھی حل ہونے والا نہیں۔ دو تین سالوں سے بڑھ کر وہ اب چار سالوں کی باتیں کرنے لگے ہیں اور بہت ممکن ہے کہ وہ چوتھے برس اپنے اِس بیان ہی سے مکر جائیں اور عوام کو راجہ پرویز اشرف کے وہ وعدے اور دلاسے ایک بار پھر یاد آ جائیں جو اُنہوں نے جوشِ و جذبات میں عوام سے کر ڈالے تھے۔

زیرِ گردش قرضوں کی ادائیگی کے وقت یہ فرمایا گیا کہ اِن کی ادائیگی سے بجلی کی پیداوار میں فوری اضافہ ہو گا اور گرمی سے بیزار عوام کو لوڈ شیڈنگ کی عذاب سے کچھ نہ کچھ ریلیف ملے گا مگر یہ خوش فہمی بھی ایک سراب کی مانند ثابت ہوئی اور اِن قرضوں کی ادائیگی سے قوم کو تو ریلیف نہ مل سکا البتہ بجلی پیدا کرنے والے پروجیکٹس کے مالکان کو ضرور مل گیا۔ عوام تا حال اُسی عذاب سے گزر رہے ہیں اور بیس بیس گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ اب اُن کے اگلے پانچ سالوں کا بھی مقدر بن چکی ہے۔

اِسی پر اکتفا اگر ہو جاتا تو بھی خیر تھی لیکن ہمارے اِن نئے حکمرانوں نے تو بجلی کی نرخ بھی مسلسل بڑھانے کا نہ صرف عندیہ دے دیا ہے بلکہ اُس پر عملدرآمد کرتے ہوئے بجلی کے نئے ٹیرف بھی متعارف کروا دیے ہیں۔ اب روزانہ کی بنیاد پر ایک نئی خوش خبری ہمارے عوام کو ملنے لگی ہے اور بجلی کے علاوہ پیٹرول، گیس اور دیگر ضروریات ِ زندگی کے نرخ بھی تیزی کے ساتھ بڑھنے لگے ہیں۔ ابھی تو صرف دو ماہ ہی گزرے ہیں اور کوئی مہینہ ایسا نہیں گیا ہے جس میں ہمارے اِن نئے مہربانوں نے پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ نہیں بڑھائے ہوں۔

فوری آمدنی کا یہ آسان ذریعہ ہر حکومت کو عزیز ہوا کرتا ہے۔ سبسڈی ختم کرنے کے بہانے پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ تو بڑھائے جاتے ہیں لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ سبسڈی کبھی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ اعداد و شمار کا پیچیدہ گورکھ دھندہ سارے عوام کو بیوقوف بنائے ہوئے ہے اور ہمارے حکمران اِس سے مسلسل مستفید ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ موجودہ نئی حکومت کی کرم نوازیوں کا سلسلہ اگر یونہی تیزی کے ساتھ چلتا رہا تو بہت ممکن ہے کہ لوگ سابقہ حکومت ہی کو ایک اچھے نام سے یاد کرنے لگیں، گرچہ اُنہوں نے ملک و قوم کو تباہ و برباد کرنے کی کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی تھی لیکن یہ ہمارا قومی المیہ رہا ہے کہ ہر نئی حکومت اپنی نااہلیوں اور ناقص حکمتِ عملیوں کی وجہ سے سابقہ حکومت کے گناہوں کو دھو ڈالتی ہے اور لوگ اُسے پھر سے اچھے ناموں سے یاد کرنے لگتے ہیں۔

جناب اسحق ڈار بظاہر تو بہت ذہین اور ہوشیار معلوم ہوتے ہیں لیکن ابھی قوم نے اُنہیں مکمل طور پر آزمایا نہیں ہے۔ آئی ایم ایف سے بات چیت کا معرکہ تو اُنہوں نے بخوبی سر کر لیا ہے لیکن نجانے ایسی کونسی شرائط پر یہ معاملہ طے پایا ہے کہ قرضہ دینے والا بھی خوش ہے اور لینے والا بھی۔ یہ معمہ تو اُس وقت کُھلے گا جب پانی سر سے گزر چکا ہو گا اور عوام اپنے نصیبوں کا سودا کرنے والوں کو تلاش کر رہے ہونگے۔ روپے کی قدر میں اچانک پانچ فیصد اضافے پر ہمارے حکمراں چُپ سادھے ہوئے ہیں، کیونکہ یہ اضافہ شاید اُن خفیہ شرائط ہی کے مرہونِ منت ہو جو جناب اسحق ڈار نے خود اپنی مرضی سے طے کی ہوں۔ جیسے کہ وہ اکثر فرمایا کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ ہم نے اپنی شرائط پر طے کیا ہے لیکن یہ شرائط کیا ہیں عوام الناس پر یہ عقدہ شاید کھیت چگ جانے کے بعد ہی کُھلے گا۔ ہاں البتہ روپے کی اِس بے وقتی سے ہمارے قرضوں کا بوجھ کتنا بڑھ چکا ہے اِس کی جناب اسحق ڈار کو کوئی فکر نہیں۔ اور جس کی وجہ سے اِس ملک کے غریب عوام پر مہنگائی اور گرانی کا جو اضافی بوجھ آن پڑا ہے اُسکی تلافی کون کرے گا۔

حکمرانوں پر مثبت اور جائز تنقید خود اُن کے مفاد میں ہوا کرتی ہے۔ اِسے ہرگز اپنے خلاف ہرزہ سرائی یا مخالفت برائے مخالفت نہیں گردانہ جانا چاہیے۔ مسلم لیگ کی نئی حکومت سے ابھی تک ہمارے لوگوں کو کوئی ریلیف نہیں مل پایا ہے۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ میاں صاحب کو اپنی اُن تقاریر کو ایک بار پھر یاد کر کے دوہرانا ہو گا جو وہ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے ابھی چند ماہ بیشتر ہی کیا کرتے تھے، جب اُنہیں عوام کی حالتِ زار پر رونا آیا کرتا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ملک کی حالت دیکھ کی دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ لیکن اب کیا اُن کا دل خوشی کے نغمے گانے لگا ہے۔ عوام تو اُن کے اقتدار کے بعد مزید مصیبت اور ابتلا میں گرفتار ہو چکے ہیں۔

اُنہیں چاہیے کہ وہ اپنی حکمتِ عملی کا فوری جائزہ لیں اور ملکی مالی مشکلات کا بوجھ عوام پر منتقل کرنے کی بجائے خود اپنی حکومت کے کاندھوں پر ڈالنے کی کوشش کریں۔ اور ایسی منصوبہ بندی کی جائے کہ عوام کوئی راحت اور سکون محسوس کر سکیں۔ وہ اگر بجلی کا بحران فی الحال دور نہیں کر سکتے تو کم از کم روز افزوں مہنگائی کو تو کم کر سکتے ہیں۔ روپے کی گرتی ہوئی ساکھ کو تو روک سکتے ہیں۔ اگر اُنہوں نے بھی وہی کچھ کرنا ہے جو سابقہ حکمراں کر گئے تو بہتر ہے اگلے پانچ سال ضایع کرنے کی بجائے عوام سے معذرت کر لیں اور اقتدار قوم کے حوالے کر دیں۔ جمہوریت صرف پانچ پانچ سال اپنی اپنی باری کھیلنے کا نام نہیں۔ عوام کو اگر خوشحالی اور راحت میسر نہ ہو تو اِس جمہوریت سے اُن کی بیزاری ایک فطری ردِ عمل ہو گا۔ ہمیں عوام کے اِس ردِ عمل سے بچنا ہو گا اور ایک بہتر کارکردگی کے ذریعے خود کو جمہوریت کا اہل ثابت کرنا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں