شہری انتظامیہ کی نا اہلیوزیر بلدیات نے معاملات خود سنبھال لئے
ہفتہ 3اگست کو پورے سندھ میں زبردست بارشیں ہوئیں جس سے کراچی اور حیدرآباد سب سے ...
ہفتہ 3اگست کو پورے سندھ میں زبردست بارشیں ہوئیں جس سے کراچی اور حیدرآباد سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور دونوں شہروں کا انفراسٹرکچر ان بارشوں کا مقابلہ نہ کرسکا ۔
طویل عرصے کے بعد پہلی مرتبہ حکومت سندھ نے ان شہروں کے معاملات میں مداخلت کی اور صورت حال کو کنٹرول کیا ۔ سندھ کے وزیر بلدیات اور صحت سید اویس مظفر نے بارش کے پہلے دن 7 گھنٹے تک کراچی شہر کا دورہ کیا اور متاثرہ علاقوں میں نکاسی آب اور دیگر امدادی سرگرمیوں کی خود نگرانی کی ۔ سندھ کے کسی وزیر بلدیات کے لیے یہ ایک عجیب وغریب تجربہ تھا کیونکہ طویل عرصے تک کراچی کے بلدیاتی اداروں کا کنٹرول متحدہ قومی موومنٹ( ایم کیو ایم) کے پاس تھا ۔ کراچی اور حیدرآباد کے معاملات میں سندھ حکومت کی مداخلت کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ۔
سید اویس مظفر کو سکیورٹی اداروں نے منع کیا کہ وہ اس طرح کھلے عام شہر کا دورہ نہ کریں لیکن انہوں نے اس سکیورٹی وارننگ کی پرواہ نہیں کی اور شہر کے گنجان آباد علاقوں میں نکل گئے ۔ انہوں نے جب شہر کی صورت حال دیکھی تو سخت تشویش کا اظہار کیا اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے درخواست کی کہ بلدیہ عظمی کراچی کے ایڈمنسٹریٹر کو فوری طور پر ہٹا دیا جائے کیونکہ شہری اداروں کا کہیں بھی وجود نظر نہیں آ رہا ہے ۔ انہوں نے ڈائریکٹر میونسپل سروسز اور دیگر افسران کو بھی معطل کرنے کے احکامات جاری کیے ۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ بلدیہ عظمیٰ کی مشینری اور گاڑیاں ناکارہ پڑی ہیں اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کا کوئی انتظام نہیں ۔ انہوں نے اگرچہ سابقہ شہری حکومتوں کو براہ راست تنقید کا نشانہ نہیں بنایا لیکن ان کی گفتگو سے یہ اندازہ ہورہا تھا کہ وہ سابقہ شہری حکومتوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں ۔
سید اویس مظفر نے تمام ہسپتالوں میں بھی ہنگامی حالت نافذ کرنے کی ہدایت کردی تھی ۔ مگر ان کے لیے کچھ رپورٹس تشویش ناک تھیں ۔ بلدیاتی افسروں نے بتایا کہ پانی کی نکاسی کی کارروائیوں کے دوران انہیں سیوریج لائنوں سے ریت کی بوریاں ملی ہیں ۔ یہ بوریاں کچھ شرپسند عناصر کی طرف سے ڈالی گئی ہوں گی تاکہ سیوریج لائنیں بند ہوجائیں اور پانی کی نکاسی نہ ہوسکے ۔ محکمہ صحت کے افسران نے انہیں بتایا کہ ہسپتالوں میں دوائیں نہیں ہیں ۔ بلدیاتی اداروں کی گاڑیاں اور مشینری خراب ہونے کا بھی انہوں نے سخت نوٹس لیا اور اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ ہزاروں بلدیاتی ملازمین تنخواہیں تو لے رہے ہیں لیکن ڈیوٹی نہیں کر رہے ۔ صوبائی وزیر بلدیات اور صحت نے صوبے بھر کے تمام بلدیاتی اداروں اور محکمہ صحت کا گزشتہ 10 سال کا آڈٹ کرانے کا حکم بھی دیا ۔
حالیہ ایک دن کی بارش سے کراچی اور حیدرآباد میں نظام زندگی درہم برہم ہوگیا تھا ۔ اس حقیقت کے پیش نظر تمام سیاسی اور غیر سیاسی حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ سندھ کے ان دونوں بڑے شہروں کے بلدیاتی اور شہری ادارے مکمل طور پر ناکام ہوگئے ہیں ۔ ایم کیو ایم اس ناکامی کا بنیادی سبب منتخب بلدیاتی حکومتوں کی عدم موجودگی کو قرار دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں مصطفٰی کمال اور کنور نوید جمیل کو بالترتیب کراچی اور حیدر آباد کا عارضی طور پر ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا جائے ۔
یہ دونوں رہنما کراچی اور حیدرآباد کے شہری اور ضلعی ناظم رہ چکے ہیں ۔ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (فنکشنل) اور دیگر سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کا مؤقف ایم کیو ایم کے برعکس ہے ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ان دونوں شہروں کا کنٹرول طویل عرصے تک ایم کیو ایم کے پاس رہا ۔ اس عرصے میں یہاں کوئی ایسا انفرااسٹریکچر نہیں بنایا گیا کہ ایسی بارشوں کی صورت میں شہر کا کاروبار زندگی چلتا رہے ۔ جب ایم کیو ایم کے ناظمین بھی ہوتے تھے تب بھی یہ شہر بارشوں میں ڈوب جاتے تھے ۔
وزیر بلدیات اور صحت اویس مظفر کا کہنا ہے کہ وہ اس بحث میں نہیں الجھنا چاہتے اور آگے بڑھ کر کام کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کریں اور انہیں قابل عمل منصوبے بناکر دیں ، جن پر تیزی سے عمل درآمد کیا جائے گا ۔ مفاہمتی سیاست کے باعث پیپلز پارٹی کراچی اور حیدرآباد کے امور سے مکمل طور پر لاتعلق رہی لیکن اب وزیر بلدیات و صحت نے سندھ کے دونوں بڑے شہروں کو اون کرنا شروع کردیا ہے یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی اداروں میں آڈٹ کی اطلاع نے ماضی میں تعینات تمام افسروں میں کھلبلی مچا دی اور انھوں نے سیاسی رابطے شروع کردیئے ہیں ۔
دوسری طرف سندھ میں ایک نیا بلدیاتی قانون لانے کے لیے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی طرف سے قائم کردہ وزارتی کمیٹی نے اپنا کام تقریباً مکمل کرلیا ہے اور لوکل گورنمنٹ آرڈی ننس 1979ء میں ترامیم کا مسودہ تیار کرلیا ہے ۔ یہ مسودہ تیار کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں سے تجاویز بھی طلب کرلی ہیں۔ ایم کیو ایم اور چند ایک دوسری سیاسی جماعتوں نے حکومت کو اپنی تجاویز سے آگاہ کردیا ہے لیکن زیادہ ترجماعتوں کی تجاویز آنا ابھی باقی ہیں ۔
وزیر قانون سندھ ڈاکٹر سکندر میندھرو کا کہنا ہے کہ یہ تجاویز ویب سائٹ پر ڈال دی جائیں گی اور ان پر لوگوں کی آراء لی جائیں گی ۔ سیاسی جماعتوں اور لوگوں کی آراء کو مسودہ قانون میں شامل کیا جاسکتا ہے ۔ حکومت سندھ کا یہ بھی ارادہ ہے کہ وہ 15 اگست سے پہلے اس مسودہ قانون کی سندھ اسمبلی سے منظوری لے لی جائے ۔ وزیر قانون کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیا بلدیاتی نظام صرف سندھ کا بلدیاتی نظام ہوگا ، جوسندھ کے حالات کو مدنظر رکھ کر بنایا جارہا ہے۔
ایم کیو ایم نے اپنی تحریری تجاویز میں سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ ( ایس ایل پی جی اے ) 2012ء کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن وزیر قانون کا کہنا ہے کہ مذکورہ ایکٹ بحال نہیں ہوسکتا ۔ البتہ سندھ میں ایسا بلدیاتی قانون لایا جائے گا ، جو تمام سیاسی جماعتوں سمیت اسٹیک ہولڈرز کے لیے قابل قبول ہوگا ۔ سندھ میں اس نئے مسودہ قانون کا شدت سے انتظار کیا جارہا ہے ۔ سندھ حکومت نہ صرف سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق 15 اگست تک قانون سازی کرنے بلکہ آئندہ تین ماہ کے اندر اندر بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے پرعزم نظر آتی ہے ۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سندھ کی حکومت بلدیاتی اداروں اگرچہ صوبائی امور منتقل نہیں کرنا چاہتی لیکن انہیں بلدیاتی امور میں مالیاتی اور انتظامی طور پر زیادہ بااختیار بنانا چاہتی ہے ۔ حالیہ بارش کی تباہ کاریوں کے بعد سندھ ایک بہتر بلدیاتی نظام کا منتظر ہے ۔