بے بے اور دہشت گردی کا خاتمہ
ہماراصل مسئلہ جہادی تنظیموں کا ہے ‘یہ مسئلہ چالیس سال سے ہمارے گلے میں پڑا ہوا ہے۔
کریم چاچا ایک غریب کسان اور سادہ قسم کے مسلمان تھے 'رمضان کے مہینے میں مسجد میں مولوی صاحب نے جمعہ کے خطبے میں کہا کہ اس مہینے کے آخری عشرے میں لیلۃ القدر کا ظہور ہوتا ہے 'جس میں عبادت کا ثواب ہزار راتوں کی عبادت سے زیادہ ہوتاہے'اس مقدس رات کی زیارت صرف عبادت گزاروں اور نیک افراد کو نصیب ہوتی ہے'اس وقت کوئی بھی ایک سوال اللہ قبول کرتا ہے۔
چاچا نے گھر آکر بیوی اور بچے کو بتایا اور تاکید کی کہ مہینے کی آخری دس راتیں عبادت کرنے کے لیے جاگ کر گزاریں گے اور اگر یہ مقدس رات نظر آئی تو اللہ سے سوال کریںگے شاید ہماری حالت بدل جائے۔چاچا کی ایک بیمار اوربوڑھی بیوی تھی اور خدا نے آخری عمر میں ایک بیٹا عطا کیا تھا'کوئی دس سال کا تھا۔ایک رات ان کو روشنی نظر آئی اور دیکھا تو'درخت'عمارتیں اور جانور وغیرہ سجدے میں پڑے ہیں۔
چاچا نے کہا کہ جلدی سے اللہ تعالی سے ایک ایک سوال کرو۔بوڑھی اماں نے جلدی دعا کی کہ خدا مجھے سولہ سال کی لڑکی بنادے 'جب چاچا نے سوچا کہ بوڑھی جوان ہوکرکہیںاسے چھوڑ نہ دے' اس نے دعا کی 'کہ اللہ اس عورت کو اور بھی عمر رسیدہ بنادے' وہ مزید عمر رسیدہ ہوگئی 'بیٹے نے سوچا کہ اگر اماں مزید بوڑھی ہوگئی تو گھر کاکام کاج کون کرے گا'اس نے جلدی سے دعا کی کہ امی اپنی اصلی حالت پر آجائے۔
ایک ایک سوال پورا ہوا اور صبح جب لوگوں کو پتہ لگا کہ چا چا کے گھر والوں نے لیلۃ القدر کی زیارت کی ہے تو مبارک باد دینے آگئے 'جب رات کے واقعے کی تفصیل معلوم کی تو بابا تو کچھ اور بتانے لگا لیکن بیٹا چپ نہ رہ سکا اور کہا کہ ''رات کو کچھ بھی نہیں تھا بس ہم لوگ ساری رات بے بے کو بناتے اور بگاڑتے رہے''۔ پاکستان کا بھی حال کچھ ایسا ہے'ہم بھی آج تک بے بے کو بناتے اور بگاڑتے رہے 'کوئی مسئلہ حل نہ کرسکے۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ کو عجیب تجربات کرنے کا شوق ہے۔ایوب خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ان کا پسندیدہ لیڈر تھا'پھر نواز شریف کو لیڈر بنایا اور اب عمر ان خان پتہ نہیں کب تک؟ ۔پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کے لیے ایم کیو ایم بنانے پر اربوں روپے خرچ کیے اور اب اس تنظیم کو ختم کرنے پر بے پناہ سرمایہ اور وقت ضایع کیا جا رہا ہے۔سامراجی مفادات کو پورا کرنے کے لیے جہادی جتھوں کو قائم کیا، نتیجہ کیا ہوا کہ ہمارے لاکھوں لوگ زخمی اور شہید ہوگئے 'اربوں روپے کا مالی نقصان ہوا اور جن کے کہنے پر بنایا تھا 'ان کے کہنے پر اب ان کو ختم کرنے پر دانتوں پسینہ آرہا ہے اور کوئی طریقہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس مصیبت سے کیسے چھٹکارا حاصل کریں۔اس پر مستزاد اور تکلیف دہ 'ان کے بیانات جنہوں نے یہ مصیبت ہمارے گلے میں ڈالی ہے۔
12مارچ کے اخبارات کی ایک خبر کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھارتی سیکریٹری خارجہ وجے گھوکلے سے ملاقات میں کہا ہے کہ ''دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بھارت کے ساتھ ہیں''۔امریکا اور بھارت نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کے انفرااسٹرکچر ختم کرنے کے لیے حقیقی کارروائی کرے۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ کی واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد اعلامیہ''۔مجھے حیرانی امریکا کے مطالبے پر ہورہی ہے کیونکہ یہ ساری مصیبتیں امریکا کے کہنے پر سوشلزم کے خاتمے کے لیے بنائی گئی تھیں۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ!
؎لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ و نام ہوں۔
ابتداء سے ہماری تربیت ہی غلط انداز میں ہوئی ہے۔ ہمیں مسلسل یہ سبق پڑھایاگیا ہے کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور اسلامی بم کا مالک ہے 'اس لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم پوری دنیا کے مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کریں'حالانکہ یہ بہت مشکل ہے کہ تیونس سے لے کرفلسطین اور برما سے بوسنیا 'تک ہم سارے جہاں کی ذمے داری لے لیں 'جب کہ ہماری اپنی حالت بہت نازک ہے۔ملک کے اصل مسائل مثلاً خراب معاشی صورت حال'سیاسی محاذ آرائی'مہنگائی اور بیروزگاری 'ہندوستان کے ساتھ حالیہ تنازع میں پس پشت چلے گئے ہیں لیکن یہ مسائل جلد ہی سر اٹھائیں گے 'یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ قومی ریاستوںکے معرض وجود میں آنے کے بعد امت مسلمہ کی اصطلاح ایک افسانوی چیز رہ گئی ہے۔
مسلمان امریکا اور برطانیہ میں شہریت بھی حاصل کرسکتے ہیں اور وزیر بھی بن سکتے ہیں لیکن حالیہ اسلامی کانفرنس میں ہمارا کیا حشر ہوا' مسلمان اور عرب ممالک میں بغیر ویزہ داخلہ بھی منع ہے 'شہریت تو کیا'عرب کفیل کے بغیرکاروبار بھی نہیں کرسکتے' ہم مومن بن کر اسرائیل کی مخالفت کر رہے ہیں جب کہ عرب ممالک کے نزدیک اسرائیل نہیں بلکہ شام اور ایران اصل اور بڑے دشمن ہیں۔پوری دنیا جذباتیت اور مذہبی رشتوں سے نکل کر معاشی'تجارتی اور سماجی بندھنوں کو اہمیت دے رہی ہے اور ہمارے حکمران اب بھی ہمیں پرانے گیتوں پر ٹرخا رہے ہیں'کشمیر کی آزادی کے نام پر ہم نے پچھلے ستر سال میں جنگوںسے لے کر جہادی عمل تک سب کچھ کرلیا 'نتیجہ کیا ہوا؟۔
وزیر اعظم نے انڈیا کے پائلٹ کی رہائی کا حکم دے کر ایک امن پسندملک ہونے کا ثبوت دیا ہے 'یہ الگ بات ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر بعض مجاہدین اب بھی لڑائی' ہندوستان کی شکست اور لال قلعہ پر سبز ہلالی جھنڈا لہرانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ضرورت کی جنگ لڑنا تو ایک مجبوری ہوتی ہے لیکن خواہ مخوا کی جنگ کا متحمل کوئی بھی ملک نہیں ہوسکتا'امریکا دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے لیکن عراق پر حملہ کرکے اس نے بے پناہ نقصان کیا 'عراق پر حملے کے لیے خطرناک ہتھیاروں کا جھوٹا ڈرامہ رچایا گیا تو امریکا کی اکثریت اس حملے کے حق میں تھی 'ا س حملے میں حاصل تو کچھ نہیں ہوا لیکن امریکا کو نقصان بہت اٹھانا پڑا اور اس کا جھوٹ پوری دنیا کے سامنے آگیا'اب اس حملے کو سب سے بڑا بلنڈر کہا جا رہا ہے۔
ویت نام میں صدر ٹرمپ شمالی کوریا کے لیڈر سے مذاکرات کر تے رہے 'سوشلزم کو ختم کرنے کے نظریے پر لڑی جانے والی اس جنگ میں امریکا کو ذلت آمیز شکست کے بعد وہاں سے بھاگنا پڑا تھا 'افغانستان میں سوشلزم کے خلاف مسلمانوں کے جذبات کو استعمال کرنے اور تباہی مچانے کے بعدآ ج امریکا سترہ سال کے بعد افغانستان سے جان چھڑانے کی کو شش کر رہا ہے۔ 1965کی جنگ بھی غلط مفروضوں کی بنیاد پر ہمارے گلے پڑگئی تھی'یہ تو تاریخی حقیقت ہے کہ کشمیر میں خفیہ کاروائی (غالباً آپریشن جبرالٹر) کا آغاز اس مفروضے پر کیا گیا تھا کہ ہمارے کمانڈو کے وہاں پہنچتے ہی کشمیری بغاوت کردیں گے' کشمیریوں کی بغاوت کے بجائے ہمیں ہندوستان کی طرف سے حملے اور کھلی جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔اس جنگ کی وجہ سے ترقی کا سفر رک گیا'دفاعی اخراجات بڑھ گئے اور ملک ایک مضبوط سیکیورٹی ریاست بن گیا ۔
ہمارے ماہرین اور وزراء ایٹمی ہتھیاروں کی بات بچوں کی طرح کرتے ہیں' حالانکہ ایٹمی ہتھیار صرف دفاعی مقصد (Deterrence) کے لیے ہوتے ہیں'یہ ہتھیار جنگ یا دوسرے کو کسی ایڈونچر سے روکنے کے لیے ہوتے ہیں جنگ کرنے کے لیے نہیں' یہ بات پوری دنیا نے تسلیم کی ہے کہ ہیروشیما اور نا گا ساکی کے المیوں کے بعد انسان کو کبھی بھی ایٹم بم یا ہائیڈروجن بم قسم کے ہولناک ہتھیار استعمال نہیں کرنے چائیے 'کیونکہ ان کا استعمال مکمل تباہی ہے۔
ہماراصل مسئلہ جہادی تنظیموں کا ہے 'یہ مسئلہ چالیس سال سے ہمارے گلے میں پڑا ہوا ہے' سوشلزم کب کا ختم ہوچکا اور یہ تنظیمیں کوئی ملک بھی فتح نہیں کرسکتیں ، یہ فائدہ تو کیا الٹا نقصان پہنچا رہی ہیں۔ہمارا اصلی مسئلہ تعلیمی نظام کی اصلاح 'صحت کے مسائل اور بے روزگاری کا خاتمہ کرناہیں'ان مسائل کو حل کیے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے۔یہ بھی ایک عجیب مخمصہ ہے کہ چونکہ ہم مسلمان ہیں اس لیے پورے دنیا کے مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ ہماری ذمے داری ہے 'اب اس بیانیے کو تبدیل کرنا پڑے گا 'اب پراکسی جنگوں کو برداشت کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے' اب صرف اس فرد کو سیاست کرنے کی آزادی ہونی چائیے جو دہشت گردی کو چھوڑ کرپرامن زندگی گزارنے کا ارادہ کرے۔