ہوس تو نکلی مگر حوصلہ کہاں نکلا
رب کریم ان گردش میں آئے ہوئے لوگوں سمیت ہر انسان کی اس چال سے بچنے کی توفیق اور ہمت دے۔
یاس یگانہ چنگیزی کا پورا شعر کچھ اس طرح سے ہے:
لہو لگا کے شہیدوں میں ہو گئے داخل
ہوس تو نکلی مگر حوصلہ کہاں نکلا
میرا مرحوم دوست شمیم اختر سیفی اسے غالب کے اس شعر کی توسیع کہا کرتا تھا جو زبان زد عام ہے کہ
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
یہ دونوں شعر میرے پسندیدہ ہیں اور اکثر یاد آتے رہتے ہیں لیکن کل فیس بک کی ورق گردانی (یا شاید تصویر گردانی) کرتے ہوئے کسی صاحب کی لالچ ، طمع یا حرص کے بارے میں ایک بہت خیال افروز گفتگو سننے کا موقع ملا جس میں بیشتر باتیں تو وہی پرانی تھیں جو اکثر اس موضوع پر ذہن میں آتی ہیں مگر انداز بیان کی خوبی کچھ ایسی تھی کہ ہر بات نئی نئی سی لگ رہی تھی۔ خلاصہ گفتگو یہ تھا کہ لالچ اور ہوس ایک بہت پیچیدہ ذہنی کیفیت کے عکاس ہوتے ہیں جس میں مبتلا شخص کو یہ بات یاد ہی نہیں رہتی کہ گھڑی تین سو روپے کی ہو یا تیس لاکھ کی دونوں ایک ہی جیسا وقت بتاتی ہیں اور یہ کہ ایک خاص حد سے بڑھ کر دولت اور اس کی مالیت کو ظاہر کرنے والے ہندسے بے معنی ہو جاتے ہیں کہ عملی طور پر ان کا ہونا یا نہ ہونا ایک جیسا ہو جاتا ہے۔
قارون کے خزانوں سے لے کر بل گیٹس اور ان جیسے ہزاروں کی مثال آپ کے سامنے ہے فرق صرف اتنا ہے کہ جن لوگوں کو اس بھید کا پتہ چل جاتا ہے وہ اس دولت کو مختلف صورتوں میں اسی معاشرے کو واپس کرنا شروع کر دیتے ہیں جہاں سے یہ کمائی گئی تھی جب کہ کچھ اسے اپنی پہچان اور محافظ سمجھ بیٹھتے ہیں اور ایک ایسے جنون میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کا نہ کوئی انت ہے اور نہ علاج۔
اس سے بھی انکار نہیں کہ لالچ ، طمع اور مفلسی کا خوف انسانی فطرت کا حصہ ہے اور شاید پیغمبروں سے قطع نظر کوئی بھی نارمل اور باشعور انسان اس کمزوری سے مستثنی نہیں اور یہ جاننے کے باوجود کہ ''سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے ''یا یہ کہ '' کفن میں جیبیں نہیں ہوتیں'' ہم سب کسی نہ کسی حد تک اتنی دولت کے مالک ضرور بننا چاہتے ہیں جس سے ہمارا گزارا چلتا رہے اور کسی غیرمعمولی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ جمع پونجی موجود ہو اور دیکھا جائے تو یہ ایک بہت متوازن اور صحیح طرز عمل ہے کہ بہرحال جب تک کوئی انسان زندہ رہتا ہے اس کی ضروریات بھی اس کے ساتھ ساتھ چلتی اور گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں۔
گڑ بڑ اس وقت ہوتی ہے جب ہم اپنی خدمت کے لیے پیدا کردہ اشیاء پر حکومت کرنے کے بجائے ان کے غلام بن جاتے ہیں اور یہی غلامی اس ہوس اور لالچ کی بنیاد بنتی ہے جو انسان کو واپس حیوان کی سطح پر لے آتی ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے اور بیشمار علوم جاننے والوں کو اس تبدیلی کا احساس تک نہیں ہوتا اور وہ دولت کے پیچھے اندھا دھند بھاگتے بھاگتے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں۔
عظیم روسی مصنف ٹالسٹائی کی اسی موضوع پر انیسویں صدی کے پس منظر میں لکھی گئی ایک کہانی اس کی بہترین مثال ہے (جس کا اردو ترجمہ میں نے '' دو گز زمین'' کے نام سے ایک ٹی وی ڈرامے کی شکل میں بھی کیا تھا) اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ایک بے زمین دیہاتی کی بڑی شدید خواہش ہے کہ اس کے پاس زمین کا ایک چھوٹا سا ہی سہی مگر ایسا ٹکڑا ہو جسے وہ اپنا کہہ سکے مگر اس کے وسائل اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔
اسے کسی سے پتہ چلتا ہے کہ ایک جاگیردار نے اعلان کیا ہے کہ ایک بہت معمولی رقم کے بدلے وہ اتنی زمین دے گا جتنی کوئی شخص طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کے درمیانی حصے میں نشان زد کر لے۔ پہلے تو وہ شخص اسے ایک افواہ سمجھتا ہے مگر جب اس خبر کی تصدیق ہو جاتی ہے تو وہ متعلقہ جاگیر دار کے پاس پہنچ جاتا ہے اسے بتایا جاتا ہے کہ اگر وہ سورج کے غروب ہونے تک واپس مقررہ نشان تک نہ پہنچا تو نہ صرف اسے کوئی زمین نہیں ملے گی بلکہ اس کی سکیورٹی بھی ضبط ہو جائے گی۔
جاگیر دار کی طرف سے اسے ایک بیلچہ دیا جاتا ہے کہ وہ اس سے کھدائی کرکے زمین پر نشان لگاتا چلا جائے اب یہاں سے ضرورت اور ہوس کا کھیل شروع ہوتا ہے دوپہر تک وہ کئی ایکڑ زمین کو نشان زد کر لیتا ہے لیکن واپسی کا سفر شروع کرنے سے پہلے اس کی نظر کچھ فاصلے پر ایک بہت بڑے پھلوں کے باغ پر پڑتی ہے اور وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ واپسی کا وقت کم ہے لالچ سے مغلوب ہوکر اس کی طرف مڑ جاتا ہے باغ کے بڑا ہونے کی وجہ سے اس کی طمع بھی بڑھتی چلی جاتی ہے اور یوں واپسی کے سفر میں اسے دیر ہو جاتی ہے کہ سورج غروب کی طرف جا رہا ہے اور ابھی بہت سا راستہ باقی ہے وہ بھوکا پیاسا گرتا پڑتا کسی نہ کسی طرح عین سورج غروب ہونے کے سمے متعلقہ نشان تک پہنچ تو جاتا ہے مگر مشقت اور ٹینشن کی وجہ سے عین منزل کے نشان کے اوپر اس کا دم اکھڑ جاتا ہے اور وہ وہیں گر کر مر جاتا ہے۔ جاگیردار اس کے ساتھ پڑا بیلچہ اٹھا کر اپنے ملازموں کی طرف پھینکتا ہے اور کہتا ہے'' یہاں دو گز لمبا گڑھا کھو دو اسے اتنی ہی زمین کی ضرورت تھی''
کبھی کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ یہ کہانی ان سب لوگوں کو سنائی جائے جن کی جمع کردہ دولت شمار سے باہر تو ہے مگر تمام عمر کی محنت، کوشش، تگ و دو اور ناکامیاں ایک طرف اور گرفتاریاں، مقدمے، ذلت و خواری، بدنامی ، دعوے دوسری طرف اس طرح سے رکھے ہیں کہ ان کا موازنہ کرنے کے بعد نتیجہ کم و بیش اسی صفر جیسا نکلتا ہے جس کا مقام یوں تو دائیں کے بجائے بائیں ہاتھ پر ہے لیکن اگر یہ دائیں ہاتھ پر بہت سے ہندسوں کے بعد بھی ہوتا تب بھی اس نے عملی طور پر صفر ہی رہنا تھا۔ رب کریم ان گردش میں آئے ہوئے لوگوں سمیت ہر انسان کی اس چال سے بچنے کی توفیق اور ہمت دے کہ لالچ کے آگے پیچھے اور اوپر نیچے ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ہے۔