منہگائی کا نیا طوفان آنے والا ہے
گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ میں پاکستان کا ہر شہری قریباً 80 ہزار کے بجائے 85 ہزار روپے کا سرکاری سطح پر مقروض ہو گیا۔
مالی سال دوہزار بارہ تیرہ میں خسارے کی مالیت چارارب پیسنٹھ کروڑ ڈالر ہوئی۔ فوٹو : فائل
LARKANA:
رمضان المبارک کے دوران جب ملک بھر میں منہگائی کا طوفان پہلے ہی عروج پر تھا تو ایسے میں امریکی ڈالر نے اپنی قدر و قیمت میں بہ ظاہر اچانک اضافہ کر کے اس طوفان کو سونامی بنانے کا طبل بجا دیا سو جو ڈالر قریب 100روپے کا تھا، وہ 106روپے پر پہنچ کر منہ چڑا رہا تھا۔
ایسے میں معیشت کے ماہرین نے ڈالر کی مزید پیش قدمی کی پیش گوئی کی تو حکومت نے بھی حسب روایت اپنی کم زوریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے آئیں بائیں شائیں پر مبنی جواز تراشنے شروع کر دیے اور یوں صورت حال گو مہ گو سے دوچار ہوتی چلی گئی۔
دراصل یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب غیر قانونی ترسیلات زر پر نظر رکھنے کے لیے پاکستان کے مرکزی بینک نے ایک سرکلر جاری کیا تو اس کے فوراً بعد روپے کی قدر میں ہوش ربا کمی ہونا شروع ہوگئی اور ڈالر روپے کے مقابلے میں تاریخ کی بلند ترین سطح پر چلا گیا۔ جولائی کے آخری دنوں میں انٹر بینک کے تحت ایک امریکی ڈالر 101روپے جب کہ اوپن مارکیٹ میں 105 روپے تک پہنچ چکا تھا۔ یاد رہے اس سرکلر کے بعد معلوم پڑا کہ کرنسی بازار میں ڈالر کا قحط پڑا ہوا ہے اور یوں پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی نے عوام کو افواہوں اور پریشانیوں کے گرداب میں گرداں چھوڑ دیا۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق '' گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ میں روپے کی قدر میں 5 فی صد کمی ہوئی اور زرمبادلہ کے ذخائر جہاں تیزی سے کم ہوئے وہاں پاکستان کا ہر شہری قریباً 80 ہزار کے بجائے 85 ہزار روپے کا سرکاری سطح پر مقروض ہو گیا۔ اس پر وزارت خزانہ کے ایک سابق مشیر اور ماہر اقتصادیات ثاقب شیرانی کا کہنا تھا کہ ڈالر کا 100 روپے کی نفسیاتی حد کو عبور کر جانا ہی شرم ناک امر ہے۔ روپیہ پہلے ہی دباؤ کا شکار تھا اب آئی ایم ایف سے قرضے کے نئے معاہدے اور مرکزی بینک کے سرکلر نے بے یقینی کی ایک نئی خوف ناک فضا تان دی ہے، جس کے نتیجے میں عن قریب منہگائی کا ایک اور ہری کین آسکتا ہے، جس سے ضروریاتِ زندگی کی عام اشیا، جو پہلے ہی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں، چہارم آسماں کی خبر دینے لگ جائیں گی، یہ پیشگوئی حقیقت ہے اور اپنے اندر قوی امکان رکھتی ہے۔
ادھر ہمارے وفاقی سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے، کہ زیرک بہت ہیں، تُرت اس بات کی تردید کر دی اور ایک انٹرویو میں یہ موقف اختیار کیا کہ روپے کی قدر میں حالیہ کمی کی وجہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہر گز نہیں ہے بل کہ یہ صرف افواہیں ہیں۔ ڈالر کے موجودہ بحران کا آئی ایم ایف کے معاہدے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے روپے کی قدر میں کمی کرنے کی کسی شرط کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ان کا استدلال تھا کہ رمضان المبارک میںعمرے پر جانے والوں کی وجہ سے ڈالر کی طلب عموماً بڑھ جاتی ہے، یہ طلب پوری ہوتے ہی ڈالر کی قدر بہ تدریج کم ہوتی جا ئے گی، علاوہ ازیں یہ کہ عالمی اداروں سے ملنے والی رقوم کے بعد روپے کی قدر میں مزید بہتری آجائے گی۔
انہوں نے عید کے موقع پر ترسیلات زر (Remittences) کے ذریعے روپے کی قدر پر مثبت اثرات کا حوالہ بھی دیا۔ بہ قول جنابِ سیکریٹری ''آئی ایم ایف سے تو پاکستان نے ابھی اسٹاف کی سطح پر معاہدہ کیا ہے، بورڈ کی سطح پر تو 4 ستمبر کو بات ہو گی، بدخواہوں نے پہلے ہی افواہیں پھیلانا شروع کر دی ہیں کہ ہم نے روپے کی قدر میں کمی سے متعلق کوئی شرط تسلیم کر لی ہے۔ مرکزی بینک نے جو دو سر کلر جاری کیے ہیں، وہ ڈاکو مینٹیشن کے حوالے سے بہت اچھے ہیں مگر ان کی غلط ''ٹائمنگ'' کی وجہ سے ابہام پیدا ہو رہا ہے۔
آئی ایم ایف کا پروگرام چند دن میں پوری دنیا کے سامنے آجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں زر مبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے مواقع ضائع کیے گئے، کچھ اس وجہ سے بھی موجودہ صورت حال بنی ہے۔ 30 جون2011 کو زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم 8 ارب ڈالر تھا، بعدازاں سی ایف سی کے تحت گزشتہ سا ل مزید 2 ارب ڈالر آئے مگر ہم بیس ہزار ارب سے دس ہزار ارب پر آ گئے ہیں، اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ ہم اپنے ڈالر کھو چکے ہیں۔ اب آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک، اے ڈی پی اور دیگر اتحادیوں کی طرف سے پیسے ملنے کے بعد ہی ملک کے ذخائر میں اضافہ ہو گا'' ۔
مگر دوسری جانب ناقدین مسلسل کہ رہے ہیں کہ پاکستانی روپے کی بے قدری کی بڑی وجہ کرنسی ڈیلرز کی طرف سے بڑی مقدار میں ڈالرز کا ذخیرہ کرنا ، منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرنا اور آئی ایم ایف کے ساتھ طے کی گئی شرائط ہی ہیں۔
اس بارے میں کرنسی ایکسچینج ڈیلر ایسوسی ایشن کے صدر حاجی ہارون کا کہنا تھا کہ مرکزی بینک کی طرف سے منی لانڈرنگ روکنے کے لیے نیشنل ٹیکس نمبر کی فراہمی کی شرط عائد ہونے کے بعد غیر قانونی ترسیلات زر میں اضافہ ہوا کیوں کہ لوگ اپنا ٹیکس نمبر فراہم کرنے کی بجائے مارکیٹ سے منہگا ڈالر خریدنے کو ترجیح دے رہے ہیں لہٰذا روپے کی قدر میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔
جولائی میں مرکزی بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 29 کروڑ 92 لاکھ ڈالر کی کمی ہوئی ۔ یہ ذخائر گھٹ کر 10 ارب، 20 کروڑ 72 لاکھ ڈالر کی سطح پر آ گئے تھے۔
ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ میاں نوازشریف کے برسراقتدار آنے کے بعد امید ہو چلی تھی کہ معیشت اور روپے کی قدر مستحکم ہو گی مگر صورت حال اس کے برعکس ہو چلی ہے۔ حکومت نے سب سے پہلے کشکول
اٹھایا اور عالمی مالیاتی فنڈ کے دروازے پر دستک دی اور یوں بجٹ خسارے، بیرونی امداد پر انحصار اور آمدنی سے زیادہ اخراجات نے معاشی مشکلات کو مزید بڑھا دیا۔ روپے کی قدر میں کمی کے اثرات اب براہ راست عوام پر پڑیں گے اور روپے کی حالیہ بے قدری لامحالہ منہگائی کا ایک اور طوفان لے کر آئے گی۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے علاوہ کھانے پینے کی اشیاء بھی کئی گنا منہگی ہو جائیں گی۔
روپے کی قدر میں مزید کمی کو روکنے کے لیے حکومت نے'' فارن ایکس چینج رسک مینیجمنٹ پروگرام'' اور '' کرنسی ہیچنگ فریم ورک'' کی تجویز کا فوری طور جائزہ لینا شروع تو کیا ہے مگر اس کے مثبت اثرات کب سامنے آئیں گے؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
وزات خزانہ کے مطابق پاکستان کے ذمے واجب الادا غیر ملکی قرضے کا پورٹ فولیو دنیا کی بیس مختلف کرنسیوں میں ہے۔ پاکستان کو قرضے میں ملنے والی کسی بھی کرنسی میں رقم پاکستانی روپے میں تبدیل ہو کر ملتی ہے کیوں کہ پا کستانی رقم میں عالمی سطح پر لین دین نہیں ہوتا جب کہ دوسری کرنسی کی ڈالر کے مقابلے میں خرید و فروخت ہوتی ہے، اس لیے فوری طور پر کچھ ہونا ممکن نہیں۔ ایسے میں ایک عام شہری یہ سوچنے پر مجبور دکھائی دیتا ہے کہ کیا روپے کی قدرمیں حالیہ کمی قیاس آرائی پر مبنی اقدامات کا نتیجہ ہے؟ کیوں کہ جب بھی ڈالر کے مقابلے میں روپیہ اپنی قدر کھونے لگتا ہے تو ایک شیطانی چکر شروع ہو جاتا ہے۔
گھاگ اور سرکاری مخبریوں سے استفادہ کرنے والے ٹوڈی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں روپے کی قدر میں یہ کمی مزید بڑھے گی اور یوں چپکے چپکے طلب میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ طلب میں بہت زیادہ اضافہ روپے کی قدر میں مزید کمی کا باعث بن جاتا ہے۔ ایسے میں کرنسی مارکیٹ کے استحکام کی خاطر، ہمیشہ اسٹیٹ بینک کو بروقت قدم اٹھانے پڑتے ہیں اور اس شیطانی چکر کو توڑنے کے لیے مارکیٹ میں ڈالر کی تازہ فراہمی کو ممکن بنانا پڑتا ہے۔ یہ چکر مئی 2013 کے دوران شروع ہو جاتا مگر انتخابات کی وجہ سے یہ چکر نہ چل سکا مگر اب یہ چل پڑا ہے ۔ روپے کی قدر میں حالیہ کمی اس لیے بھی غیر معمولی ہے کہ انٹر بینک شرح تبادلہ کے مقابلے میں اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت کا فرق ریکارڈ سطح تک بڑھ چکا ہے۔ فرق کا یہ پھیلاؤ کئی دہائیوں بعد دیکھنے میں آرہا ہے۔
جولائی کے آخری ایام میں جس تیزی سے روپے کی قدر میں کمی کا مشاہدہ ہوا، کرنسی لین دین کے بنیادی اصول اسے ہر گز درست قرار نہیں دے سکتے۔ اس دوران جتنی تیزی سے اوپن کرنسی مارکیٹ میں نرخ بدلے، ایسا انٹر بینک کی سطح پر پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ آئی ایم ایف کی طرف سے شرائط کے باعث جو غیر یقینی پیدا ہوئی، وہ نہ جانے کب ختم ہو؟ روپے کی قدر میں کمی کی راہ ہم وار کرنے کے لیے ان شرائط کو اگر بہ طور افواہ استعمال بھی کیا گیا ہے تو اس تاثر کو فوری طورپر ختم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جاسکتے تھے، بروقت اور مناسب توجہ سے افواہوں کو روکنا کافی آسان تھا مگر ۔۔۔۔۔ دیر آید، وفاقی وزیرِ خزانہ نے اس مسئلے پر جب توجہ دی تو واقعی دیر ہو چکی تھی۔
انہوں نے کرنسی ڈیلروں اور بینکاروں سے فون پر گفت گو کی مگر اسٹیٹ بینک آف پاکستان، جو اس ضمن میں روپے کی پہلی دفاعی صف میں تھا اور ہے، وہ اس دوران تمام منظرنامے سے کلیتاً غائب رہا۔ کرنسی مارکیٹ میں جو کچھ ہوا، اسے ٹھوس کارروائی کے ذریعے درست کیا جاسکتا تھا لیکن اسٹیٹ بینک آف پاکستان خود کافی دیر بعد خوابِ غفلت سے بیدار ہوا۔ جب تک ایکسچینج کمپنیوں اوراسٹیٹ بینک کے نمائندوں کے درمیان ملاقات ہوئی اورانٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں فرق کم کرنے پر اتفاق ہوا، اس وقت تک گھاگ لوگ اربوں کھربوں روپے کما چکے تھے۔ ملاقات میں روپے کی قدر مستحکم کرنے کے لیے مختلف امور پر غور ہوا۔ ایکسچینج کمپنیوں نے بتایا کہ اوپن مارکیٹ میں کرنسی ڈیلرز اب بھی روزانہ کی بنیاد پر بیس ملین ڈالر کی طلب پوری کرسکتے ہیں گو کہ سونے کی بے دریغ درآمد کی وجہ سے یہ طلب اب بڑھ کر پچاس ملین ڈالر ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے طلب اور رسد میں توازن نہیں اور ڈالر کے بے قابو ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
ملاقات میں جب ایکسچینج کمپنیوں نے ڈالر کی خریداری پر '' این ٹی این'' کی شرط واپس لینے کا مطالبہ کیا تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس ضمن میں کسی بھی قسم کی یقین دہانی کرانے سے انکار کر دیا اس طرح ایک بار پھر خدشات کے بادل روپے پر منڈلانے لگے۔ اس وقت چاہیے تو یہ تھا کہ روپے کی گرتی ہوئی قدر کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے کے امکانات کو ہر ممکن روکا جاتا۔ اس لیے یہ خدشہ اب بھی ہے کہ روپے کی قدر میں لگاتار کمی ملکی معشیت کو ایک اور دھچکا دے گی۔ ڈالر کی قدر بڑھنے سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں مزید اضافہ ہو گا۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے اوران فلوز میں کمی کے باعث گزشتہ مالی سال میں یہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دوارب انتیس کروڑ ڈالر تھا۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال دوہزار بارہ تیرہ میں خسارے کی مالیت چارارب پیسنٹھ کروڑ ڈالر ہوئی۔ اس طرح کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں گزشتہ مالی سال کے دوران اکیاون فی صد کمی ہوئی لیکن معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں یہ کمی عارضی ہے کیوں کہ خام تیل کی قیمت میں اضافے، روپے کی گرتی قدر اور ان فلوز میں کمی کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گا جو واقعی بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔
پھرجب وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ بجلی کے گردشی قرضوں کی مد میں، 342 ارب روپے کے قرضوں کی ادائی سے روپے کی قدر میں کمی ہوئی تو ماہرین معیشت کو یہ بات بھی ہضم نہ ہو سکی۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافے پر تشویش کی کوئی بات نہیں ہے کیوں کہ 342 ارب روپے کے قرضوں کی ادائی کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی ضرور ہوئی۔ آئندہ چند ہفتوں میں حکومت کے اقدامات کی وجہ سے روپیہ اپنی کھوئی ہوئی حالت پر لوٹ آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا ممبر ملک ہے اور ان اداروں سے قرض لینے کو بھیک مانگنے کے مرادف قرار دینے کا کوئی جواز نہیں، ماضی کی حکومت نے جو معیشت کا حال کیا ہے، اس کو درست کر نے کے لیے حکومت کو ان اداروں سے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ قوم اس پر پریشان نہ ہو، بہت جلد ملکی معیشت کو درست کر دیں گے، جس کے بعد آئی ایم ایف اور دیگر اداروں سے قرضے لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
جولائی کے آخر میں جب یہ خبر آئی کہ یکم اگست سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 5 روپے تک اضافے کا امکان ہے، اوگرا حتمی سمری 29 جولائی کو منظوری کے لیے وزارت پٹرولیم کو ارسال کرے گی، تو حکومتی دعوے ڈھیر ہوتے نظر آئے۔ اوگرا حکام کے مطابق پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ عالمی مارکیٹ میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے متوقع ہے۔