ڈھائی ہزار ای سی ایل والے

مجھے یہ خبر پڑھ کر قدرے مایوسی اور دکھ ہوا کہ ڈیرہ اسماعیل خان جیل سے فرار ہونے والے 38 اہم شدت پسندوں کے ...


Latif Chaudhry August 07, 2013
[email protected]

مجھے یہ خبر پڑھ کر قدرے مایوسی اور دکھ ہوا کہ ڈیرہ اسماعیل خان جیل سے فرار ہونے والے 38 اہم شدت پسندوں کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایف آئی اے نے سرحدوں پر موجود سیکیورٹی حکام کو بھی ان کے کوائف ارسال کر دیے ہیں۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ بنوں جیل سے فرار ہونے والوں کے نام بدستور ای سی ایل میں موجود ہیں۔ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں کے تقریباً ڈھائی ہزار سے زائد افراد کے نام ای سی ایل میں ہیں۔

پہلے بنوں اور پھر ڈیرہ اسماعیل خان جیل سے جو طالبان یا شدت پسند فرار ہوئے' میں سوائے عدنان رشید کے کسی کا نام نہیں جانتا۔ عدنان رشید کے نام نامی سے واقفیت یوں ہوئی کہ وہ اکثر کوئی نہ کوئی بیان جاری کرتا رہتا ہے جو ہمارا میڈیا بغیر تاخیر کے مجھ اور آپ تک پہنچا دیتا ہے۔ عدنان رشید یا کوئی اور شدت پسند میرے سامنے آجائے تو میں انھیں پہچان بھی نہیں سکتا جب کہ وہ ہر اس شخص یا عمارت کو اچھی طرح پہچانتے ہیں جسے انھوں نے ٹارگٹ کرنا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوتے ہیں۔ مجھے یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ حکومتی پابندی کے باعث جیلیں توڑ کر فرار ہونے والے یہ سورما بیرون ملک تو جا نہیں سکتے لہٰذا وہ پاکستان میں ہی ادھر ادھر روپوش رہنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں ان کا مستقبل تو ہے نہیں' بیچارے بیرون ملک بھی نہیں جا سکتے' جان توڑ مہنگائی کے اس دور میں یہ مفرور حضرات کیسے گزر بسر کرتے ہوں گے' اسے محسوس کر کے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ قارئین آپ خود ہی سوچیں، یہ شدت پسند پاکستان میں جیلیں نہ توڑیں تو پھر کیا کریں۔

مجھے تو ڈر ہے کہ حکومت کی ظالمانہ پالیسی میں تبدیلی نہ آئی تو کہیں کوئی اور جیل نہ ٹوٹ جائے۔ اگر حکومت مجھ سے مشورہ کرتی جو وہ کبھی نہیں کرے گی تو میں اسے یہ نادر تجویز دیتا کہ سارے طالبان اور القاعدہ والوں کے نام ای سی ایل سے نکال دے بلکہ انھیں پورے پروٹوکول کے ساتھ بیرون ملک بھیجنے کا انتظام کرے اور کوشش کرے کہ جذبہ جہاد سے سرشار یہ مجاہدین شام' مصر، یمن چلے جائیں یا پھر افریقہ میں لیبیا' مالی اور سوڈان بھی اچھی جگہیں ہیں' وہاں ان کے لیے روز گار اور ترقی کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ تیل کی دولت سے مالا مال عرب ریاستوں میں بھی ان کے لیے حالات ساز گار ہیں' ترکی کو بھی نظر میں رکھا جاسکتا ہے۔ اگر حکومت خود یہ کام نہیں کرنا چاہتی تو انسانی اسمگلروں سے بھی مدد لی جا سکتی ہے 'انسانی اسمگلر ان مجاہدین کو ہر اس ملک میں پہنچا دیں گے جس کی تمنا ان کے دل میں ہے۔ اب ذرا سوچیں کہ صرف خیبر پختونخوا اور فاٹا سے ڈھائی ہزار کے قریب شدت پسند پابندی کے باعث بیرون ملک جانے سے محروم ہیں۔

یہ زیادتی نہیں تو اور کیا ہے' پاکستان میں ان پر اتنی سختی ہے کہ وہ کوئی کام دھندا نہیں کر سکتے، مجھے یہ پتہ نہیں کہ ملا عمر' ایمن الظواہری اور طاہر یلد شیف وغیرہ کہاں ہیں اور پاکستان میں ان کا قانونی اسٹیٹس کیا ہے لیکن آئین ہر پاکستانی کو روزگار اور کاروبار کی آزادی کا حق دیتا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ بے جا بلکہ ظالمانہ پابندیوں نے ان ٹیلینٹڈ لوگوں کو اپنے مستقبل سے مایوس کر دیا ہے اور ردعمل میں وہ انتقام پر اتر آئے ہیں۔ جوان خون ہے اور کچھ کر گزرنے کا جنون بھی دماغ میں سمایا ہوا ہے' اس لیے وہ خود کش حملے کر کے اپنے آپ کو ختم کر رہے ہیں۔ ان کے بموں سے جو پاکستانی مر رہے ہیں' ان کا ہمیں دکھ اس لیے نہیں ہے کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف ہونے والی زیادتی پر آواز کیوں نہیں اٹھاتے۔

جب حکومت پاکستان شدت پسندوں کو روزگار فراہم نہیں کرتی اور بیرون ملک بھی نہیں جانے دیتی تو یہ مایوس لوگ بم نہیں پھوڑیں گے تو اور کیا کریں گے۔ خیبر پختونخوا کے پولیس حکام کا شکریہ ادا کریں، جنہوں نے بڑی دانش اور ذہانت سے انھیں یہ باور کرا رکھا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں' یہ کرکٹ میچ ہے بلکہ ٹی ٹوئنٹی نہیں' ٹیسٹ میچ ہے' یعنی وہ جو کچھ کر رہے ہیں، وہ کھیل ہے اور یہ جلد ختم بھی نہیں ہو گا۔ اس میچ کی خصوصیت یہ ہے کہ طالبان کو باولنگ کی ذمے داری سونپی گئی ہے اور حکومت خود بیٹنگ پر ہے۔ طالبان کے لیے کھلی چھوٹ ہے کہ وہ جتنے چاہیں اوورز کریں' بالر تبدیل کریں' بیٹسمین بے شک آئوٹ ہوتے رہیں لیکن بائولنگ جاری رہے گی، یوں مایوس جنگجوئوں کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ وہ گھبرائیں نہیں' حکومت انھیں چوکے چھکے نہیں مارے گی، وہ اطمینان سے ناصرف بائولنگ کرتے رہیں بلکہ نئے بائولر بھی تیار کرتے رہیں اور اس وقت تک باولنگ کراتے رہیں جب تک حکومت کی پوری ٹیم آوٹ نہیں ہوجاتی۔ یہ ان کے لیے یقیناً اطمینان کا باعث ہے' اگر انھیں یہ احساس بھی نہ دلایا جائے تو پھر سوچیں کہ وہ کتنی تباہی پھیلائیں گے۔

پاکستان کے پالیسی سازوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ مسئلے کی جڑ تک پہنچے بغیر اسے حل کرنا چاہتے ہیں۔ سوات میں آپریشن کر کے کیا ملا؟ جنوبی وزیرستان سے تحریک طالبان کو بھگایا، اس کا کیا فائدہ ہوا ہے' اب کچھ سر پھرے شمالی وزیرستان میں آپریشن کی باتیں کر رہے ہیں۔ پاکستان میں حکومت کیا کچھ کرے' یہاں کبھی بارشیں مصیبت بن جاتی ہیں اور کبھی دریائوں میں سیلاب آ جاتا ہے۔ عوام ڈوب کر مر جاتے ہیں اور کچھ کرنٹ لگ کر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے مشرق میں ایک ازلی دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے' اسے جب موقع ملتا ہے' کوئی نہ کوئی شرارت کر دیتا ہے' اس دشمن کو اوقات میں رکھنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑ رہی ہے' اوپر سے شدت پسند سر کو آ رہے ہیں' ایک مسئلہ اور ہے' بہت سے شدت پسند عدالتوں سے سزا نہ ملنے کی وجہ سے آزاد ہوتے ہیں اور پھر نہ جانے وہ کہاں گم ہوجاتے ہیں، اور وہ جنھیں عدالتوں سے سزا ہو گئی ہے، ان کو ساتھی جیلوں پر حملے کر کے چھڑا لے جاتے ہیں۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں ان کی آمد کا دن اور وقت تک بتا دیتی ہیں لیکن انھیں روکنے کا بندوبست نہیں کیا جاتا۔ دہشت گردی کی ہر کارروائی کے بعد سیکیورٹی سخت کر دی جاتی ہے' ناکے لگ جاتے ہیں۔ کارروائی بڑی ہو تو جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بھی بنا دی جاتی ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ بنتی ہے اور داخل دفتر ہو جاتی ہے۔ مسائل کا ایک انبار ہے' ایسے میں حکومت کہاں کہاں ٹانگ اڑائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں