کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی
کالعدم تنظیموں کی ملک میں سرگرمیوں کا معاملہ بین الاقوامی طور پر پاکستان کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔
عمران خان کی حکومت نے جرات مندانہ فیصلہ کیا اور کالعدم جہادی تنظیموں کے خلاف کارروائی شروع کر دی، ان کے کئی رہنما گرفتار ہوگئے، ان تنظیموں کی املاک کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا ۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے کارکنوں کو تین مرحلوں میں قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا۔ پہلے مرحلہ میں ان کارکنوں کو غیر مسلح کیا جائے گا، دوسرے مرحلہ میں ماضی سے لاتعلقی پر ان کو ملازمتیں اور قرضے دیے جائیں گے جب کہ تیسرے مرحلہ میں قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا ،تاکہ وہ قومی زندگی میں مثبت کردار ادا کرسکیں۔
بعض مبصرین نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ ان میں بعض تنظیموں کے کئی ہزار مسلح رضاکار ملک میں موجود ہیں مگر حکومت نے جرات مندی سے ان رضاکاروں کی غیر قانونی کارروائی کے تدارک کے لیے حکمت عملی تیار کر رکھی ہے۔ کالعدم تنظیموں کے بعض رہنما ماضی میں بھی گرفتار ہوئے ہیں مگر عدالتوں میں ثبوت مہیا نہ ہونے کی بنا پر یہ رہا ہوگئے۔
بعض کالعدم تنظیمیں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور ملک کے مختلف علاقوں میں رفاہی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہیں۔ ان میں سے ایک تنظیم نے کراچی سمیت مختلف شہروں میں اسپتال قائم کیے ہیں اور ایمبولینس سروس موجود ہیں اور قدرتی آفات میں انسانی جانوں کو بچانے کے لیے رضاکار ، آلات اور ضروری مشینری بھی ان کے پاس ہے۔ وفاقی حکومت نے ان تمام اسپتالوں، مدرسوں اور ایمبولینسوں کے نظام کو سرکاری تحویل میں لے لیا ہے۔ حکومت نے ا س نظام کو چلانے کے لیے صوبوں کو اضافی گرانٹ بھی دی ہے۔
کالعدم تنظیموں کی ملک میں سرگرمیوں کا معاملہ بین الاقوامی طور پر پاکستان کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی بھارت، امریکا اور برطانیہ نے کالعدم تنظیموں پر اعتراضات شروع کر دیے تھے۔
نائن الیون کی دہشتگردی کے بعد اقوام متحدہ کی جاری کردہ فہرست کے مطابق کئی تنظیموں اور رفاہی ٹرسٹ پر پابندی عائد کی گئی۔ بھارت کے زیرکنٹرول کشمیر میں احتجاجی مہم کے بڑھنے کے ساتھ بھارت یہ پروپیگنڈا کرنے لگا کہ جہادی تنظیمیں اپنے جنگجو کنٹرول لائن کے دوسری طرف برآمد کر رہی ہیں۔ جب سابق صدر پرویز مشرف بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے مذاکرت کے لیے آگرہ گئے تو واجپائی سرحد پار دہشتگردی کی شق معاہدے میں شامل کرنے پر اڑ گئے، یوں بھارتی وزیراعظم کی ہٹ دھرمی سے دونوں ممالک کے درمیان دوستی کا موقع ضایع ہوگیا، مگر پھر نئی دہلی میں بھارتی پارلیمنٹ پر نے حملہ ہوا ۔ بھارت نے حسب روایت الزام لگایا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی سرحد پار سے کی گئی تھی ۔
اس وقت بھی دونوں ممالک جنگ کے قریب پہنچ گئے تھے مگر امریکا، برطانیہ اور چین کی مداخلت پرکشیدگی ایک سطح پر رک گئی۔ 2008ء میں ممبئی میں المناک واقعہ ہوا۔ اس حملے میں بھارتی شہریوں کے علاوہ امریکا اور اسرائیل کے شہری بھی ہلاک ہوئے۔ بھارت نے اس حملے کے بارے میں بھی انگلی پاکستان میں بروئے کار تنظیم پر اٹھائی ۔ امریکا نے بھی بھارت کے مؤقف کی تائید کی ۔
ایشیا پیسیفک کی مالیاتی دہشتگردی کا روک تھام کی ٹاسک فورس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کر رکھا ہے۔ ٹاسک فورس نے حکومت پاکستان کو ہدایت کی کہ ان تنظیموں کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے مختلف نوعیت کے اقدامات کریں۔ حکومت پاکستان نے خاطرخواہ اقدامات کیے۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس نے چند سال قبل سلامتی کونسل میں یہ مؤقف اختیارکیاکہ مولانا مسعود اظہرکو بین الاقوامی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ چین نے دو دفعہ اس قرارداد کو ویٹو کیا مگر امریکا نے یہ معاملہ پھر اٹھایا ہے، مگر چین نے مزید شواہد کی فراہمی تک اس معاملے کو مؤخر کرنے کے لیے ویٹوکا حق استعمال کیا۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ میں تین وزراء کالعدم تنظیموں کے حامی ہیں۔
ایک سرکاری عہدیدار نے گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس میں اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ ٹاسک فورس کہیں پاکستان کے خلاف حتمی اقدام نہ کرے۔ بین الاقوامی ذرایع ابلاغ میںخبریں شایع ہوئی ہیں کہ امریکا نے مالیاتی دہشتگردی کے تدارک کی ٹاسک فورس کی سربراہی بھارت کو سونپنے کی تجویز پیش کی ہے۔
حکومت پاکستان نے انتہائی مناسب موقعے پرکالعدم جہادی تنظیموں کے خلاف کارروائی کا قدم اٹھایا ہے۔ امریکا اور مغربی ممالک نے اس فیصلے کو سراہا ہے مگر اس دفعہ کے اقدامات اور ماضی میں ہونے والے اقدامات میں فرق ہونا چاہیے۔ بعض تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ چین نے امریکا اور یورپی ممالک کے مؤقف کے برعکس قدم اٹھایا ہے جو بین الاقوامی تعلقات میں ایک مشکل قدم تصور کیا جاتا ہے۔ چین کو مزید امتحان میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ عمران خان کی حکومت کو ایسے مضبوط اقدامات کرنے چاہئیں کہ یہ تنظیمیں دوبارہ سرگرمیاں شروع نہ کرسکیں اور بھارت کی پاکستان کو معاشی طورپر مفلوج کرنے کی حکمت عملی ناکام ہو جائے۔