ایک بار پھر دھوکا کھانے کو تیار

جنرل ضیاء الحق کی مثال ہمارے سامنے ہے۔گیارہ سال تک مسلسل وہ اُس کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔


Dr Mansoor Norani March 20, 2019
[email protected]

اِسے ہماری مجبوری کہیے یاہماری سادگی اور معصومیت کہ ہم ستر سال سے صرف ایک ایسی عالمی طاقت سے وفا کی آس و اُمید لگائے بیٹھے ہیںجس نے ہمیشہ ہمیں دھوکہ دیا ہے۔ مطلب نکل جانے کے بعد جس نے آنکھیں پھیر لیں ۔ خان لیاقت علی خان کے دور سے لے کر آج تک ہمارا ہر حکمراں صرف اُسی سے بہتر تعلقات کے حصول میں سرگرداں رہا ہے اوراِسی کو اپنی سب سے بڑی کامیابی تصورکرتا آیا ہے، جب کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے بیچ تعلقات میں بہتری اور کشیدگی کا انحصار صرف اُس کی مرضی سے وابستہ ہے۔

اُس سے تعلقات بہتر بنانے اور بگاڑنے میں ہمارا کوئی اختیار نہیں ۔ اُس کی جب مرضی ہوتی ہے وہ اپنے مفادات کے تحت ہم پر محبتیں اور نوازشیں نچھاورکرنا شروع کردیتا ہے اور جب چاہتا ہے کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کرکے ہمیں آنکھیں دکھانا شروع کردیتا ہے ۔ اول تو اُسے ہمارا بحیثیت ایک مسلم قوم اور ایک نیوکلیئر پاور ہونا ہی ایک آنکھ نہیں بھاتا مگر جغرافیائی اعتبار سے اِس اہم خطے میں ہمارا محل وقوع اُسے ہم سے دور اور لاتعلق بھی رہنے نہیں دیتا ۔ اُس کی مجبوری ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح ہم سے جڑا رہے۔ اور اِسی تعلق کو استعمال کرکے وہ ہم سے اپنے بہت سے کام بھی نکلواتا رہتا ہے اور ادھر ہم ہیں کہ اُس کی تمام چالوں اور سازشوں کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ہر بار اُس کے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔

جنرل ضیاء الحق کی مثال ہمارے سامنے ہے۔گیارہ سال تک مسلسل وہ اُس کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ سوویت یونین کے خلاف اُس کی جنگ میں استعمال ہوتے رہے ، لیکن بالآخرمطلب نکل جانے کے بعد اُس نے اُن کے ساتھ کیاسلوک کیا یہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں، یہی حال جنرل پرویز مشرف کا تھا ۔ دہشتگردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ میں انھوں نے اپنا سب کچھ امریکا کے حوالے کر دیا ۔ امریکا کی تابعداری میں اپنا گھر اور اپنا ملک تباہ کرڈالا اور بدلے میں کچھ نہ پایا۔

ہمارے فوجی حکمرانوں کے علاوہ سویلین اور جمہوری حکمرانوں نے بھی امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے ہمیشہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششیں کیں، مگر دیکھا یہ گیا کہ خود امریکا نے غیر جمہوری حکمرانوں سے معاملات طے کرنے میں ہمیشہ ریلیف اور آسانی محسوس کی۔ سول حکمرانوں کی کچھ آئینی اور دستوری مجبوریاں ہوا کرتی ہیں۔وہ پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے جوابدہ بھی ہوتے ہیں ، جب کہ غیر جمہوری حکمرانوں کی یہ مشکل درپیش نہیں ہواکرتی۔وہ اپنے فیصلے کرنے میں اکیلے ہی مکمل بااختیار اور آزاد ہواکرتے ہیں۔

انھیں فیصلے کرنے کے لیے کسی سے اجازت بھی درکار نہیں ہوتی۔ وہ بڑے سے بڑا فیصلہ بھی منٹوں میں بیک جنبش قلم کر جاتے ہیں ۔اُن سے سوال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔جنرل پرویز مشرف کو اِس سلسلے میں سب پر فوقیت حاصل ہے۔انھوں نے امریکی حکمرانوں کی حکم برداری میں لمحہ بھر کی دیر نہ کی۔رچرڈ آرمٹیج اور کولن پاول کے تمام مطالبوں پر فوراً حامی بھرلی ۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے نوسالہ دور اقتدار میں امریکا کی اطاعت اور فرمانبرداری میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی ۔ وہ اپنے لوگوں کو امریکا کے ہاتھ فروخت بھی کرتے رہے اوراُس پر فخر بھی کرتے رہے۔ اور اپنے اِن کارناموں کا تذکرہ بھی بڑے فخریہ انداز میں اپنی سوانح حیات'' اِن دی لائن آف فائر'' میں بھی کرتے رہے۔

لال مسجد کے واقعے میں بھی انھوں نے صرف امریکا کو خوش کرنے اور خود کو اُس کا خیر خواہ ظاہرکرنے کے لیے اتنا بڑا خونی معرکہ کھیلا ۔ وہ چاہتے تو اِس ظلم وستم سے خود کو بچاسکتے تھے۔ اِس واقعے سے جڑے ذمے داران کہتے ہیں کہ غازی عبدالرشید اور اُن کے تمام ساتھی آپریشن سے چند گھنٹے پہلے خود کو حکومت کے حوالے کرنے پر رضا مند ہوچکے تھے اور اِس ضمن میں ایک سمجھوتہ بھی طے پاچکا تھا، لیکن صرف اور صرف ایک طاقت کو خوش کرنے کے لیے یہ ظلم و ستم کیا گیا اور سیکڑوں انسانوں کا خون بہایا گیا ۔

آج ہماری موجودہ سویلین حکومت بھی اِسی ڈگر پر چل رہی ہے۔ ماضی میں کی گئی اپنی تمام باتوں اور اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے خان صاحب کی بھی اولین ترجیح آج امریکا سے خوشگوار تعلقات کا حصول بن چکا ہے۔ابھی اُن کی حکومت کو برسراقتدار آئے ہوئے محض آٹھ ماہ ہی گزرے ہیں اور وہ امریکا کی مرضی و منشاء پر ہر وہ کام کرنے پر رضامند دکھائی دیتے ہیںجن کی ماضی میںوہ سخت مخالفت کیاکرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ امریکا یہ اعتراف کرنے میں کوئی پس وپیش سے کام نہیں لے رہا کہ گزشتہ اٹھارہ برسوں میں یہ پہلا موقعہ ہے ہمارے اور پاکستان کی بیچ تعلقات انتہائی دوستانہ اورمفاہمانہ ہیں ۔

ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکا ہمارا کبھی بھی خیرخواہ نہیں ہوسکتا ، وہ جب ہم سے خوش ہوتو اِس کا مطلب ہے کہ ہم کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی معاملے میں اُس سے سمجھوتہ کرکے اپنے مفادات کی قربانی دے رہے ہوتے ہیں۔میاں محمد نواز شریف سے امریکا کی ناراضی کی اصل وجہ وہ ایٹمی دھماکے اور تجربات تھے جو انھوں نے ملکی اور قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے امریکی حکمرانوں کی تنبیہ اور دھمکیوں کے باوجود کر ڈالے تھے۔اور پھر اپنے تیسرے دور میں ملک کو معاشی اور اقتصادی استحکام بخشنے کے لیے '' سی پیک '' جیسے عظیم منصوبے پر تیزی سے کام شروع کردیاتھا ۔

یہی وہ منصوبہ ہے جو عالمی طاقتوں کو پہلے دن ہی سے کھٹک رہا ہے۔ خان صاحب کی حکومت کے آتے ہی سب سے پہلا کا م تو یہ ہوا کہ ملک بھر میں تمام ترقیاتی کاموں پرروک لگا دیا گیا اور اِس کی زد میں سی پیک منصوبہ بھی کسی نہ کسی شکل میں متاثر ہونے لگا۔ دوسرا اہم کام ہمارا ملک جوآئی ایم ایف کے آہنی شکنجے سے باہر نکل آچکاتھا اب ایک بار پھر اُس کی ہشت پائی گرفت میں جکڑاجانے لگا ہے ۔ روپے کی یکمشت 30%گراوٹ نے ہماری معاشی اور اقتصادی حالت اور بھی ابتر کردی ہے۔ہم جومایوسیوں اور نااُمیدیوں کے اندھیروں سے نکل کر خوش آیند مستقبل کی جانب بڑھنے لگے تھے یکدم ایک بار پھر بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہوچکے ہیں ۔ ہمارا تاجر اور بزنس مین اِس وقت انتہائی گومگوں کی حالت میں گرفتار ہے ۔

حکومت کے پاس قرضے لینے کے علاوہ کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے۔اُس کی تما م سوجھ بوجھ اور صلاحیت صرف اور صرف نئے قرضوں کے حصول پر خرچ ہورہی ہے۔ادھر یو اے ای نے ادھار تیل دینے سے انکارکردیا تو فوراً چائنا سے دو ارب ڈالرزمزید مانگ لیے گئے۔ ہمارے وزیر خزانہ کی تمام مہارت اور قابلیت اِسی ایک کام پر لگی ہوئی ہے۔خود خان صاحب بھی قرضوں کے حصول کو اپنی بہت بڑی کامیابی گردانتے رہے ہیں ۔ دیکھا جائے تو یہی کچھ امریکا چاہتا تھا کہ پاکستان کبھی بھی معاشی اور اقتصادی طور پر مستحکم اور خود مختار نہ ہو۔ بے بس اور لاچار پاکستان اُس کی اشد ضرورت ہے۔ مضبوط اور مستحکم پاکستان اُس کے عزائم کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہوسکتا ہے۔ہماری اِس نئی حکومت نے اُس کاکام آسان کردیا ہے۔شاید وہ اِسی لیے خو ش ہے۔

ہماری یہ نئی حکومت امریکا سے تعلقات بہتر بنانے پرجو کریڈٹ اپنے نام کر رہی ہے شاید اُسے پتہ نہیںیہ کریڈٹ قوم کو بہت مہنگا پڑے گا ۔ امریکا سے دوستانہ اورمفاہمانہ تعلق پیداکرنے پرسرشار اورشادماں ہونے والے شاید یہ بھول چکے ہیں کہ امریکا کبھی بھی ہمارا دوست اور خیر خواہ نہیں ہوسکتا ۔ ماضی میں ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں کہ جب جب امریکا کے مفادات کا ہم تحفظ کرتے رہیں گے وہ ہم سے دوستی اور محبت کادم بھرتا رہے گا۔ لیکن جونہی ہم اپنے وطن کومستحکم، مضبوط اور خود مختار بنانے کا سوچنے لگیں گے وہ ہمارا دشمن ہوجائے گا۔اب یہ اِس حکومت کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ اِن دو راستوں میں سے کون سا راستہ اپنے اور اپنے لوگوں کے لیے بہتر تصورکرتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں