منیر بھائی بھی چلے گئے…
دوست نوازی کا یہ عالم تھا کہ دفتر میں اکثر و بیشتر دوستوں کا جم گھٹا لگا رہتا تھا
منیر بھائی چلے گئے، جانا تو ایک دن سبھی کو ہے جو آیا ہے وہ ایک دن ضرور جائے گا مگر کچھ لوگوں کا جانا بڑا جانکاہ ہوتا ہے، یوں لگتا ہے جیسے جانے والا ہمارا بہت کچھ لے گیا اور ہمیں بہت دکھ درد دے گیا، منیر بھائی کے جانے کے بعد میں بھی کچھ ایسا ہی محسوس کر رہا ہوں جیسے میری کوئی قیمتی چیز گم ہو گئی ہے جیسے میں ایک دم تنہا ہو گیا ہوں۔
دوست نوازی کا یہ عالم تھا کہ دفتر میں اکثر و بیشتر دوستوں کا جم گھٹا لگا رہتا تھا، یہ ہر طرح کے لوگ ہوتے تھے، کھلاڑی بھی، ادیب و شاعر بھی، صحافی بھی اور کے سی سی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی چائے کے دور تو چلتے ہی رہتے تھے۔ اکثر کھانے کا دور بھی چلتا۔ جس پر ڈھائی تین سو روپے آسانی سے خرچ ہو جاتے تھے۔ اس زمانے میں (آج سے کوئی تیس سال پہلے) یہ رقم خاصی بڑی رقم ہوتی تھی۔ کھانے اور کھلانے کے بے حد شوقین تھے۔ قمر احمد (بی بی سی کے اسپورٹس رپورٹر) پاکستان میں جب کوئی ٹورنامنٹ منعقد ہوتا تو کراچی کے دوران قیام وہ روزانہ منیر حسین کے مہمان ہوتے، منیر بھائی کا کھانا گھر سے آتا تھا مگر مہمان آ جاتے تو باہر سے بھی کھانا منگواتے تھے۔''اخبار وطن'' کے حوالے سے انھوں نے کرکٹ کے ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کی بڑی حوصلہ افزائی کی، ان کو خصوصی پبلسٹی دیتے تھے۔ رمیز راجہ، وسیم اکرم، سلیم ملک اور اس دور کے کئی اور کرکٹرز ان کے بڑے صاحبزادے اور اخبار وطن کے فوٹوگرافر اقبال منیر کے دوست تھے، ان کے اخبار وطن کے دفتر آتے تھے۔ منیر بھائی اقبال منیر ہی کی طرح انھیں اپنے پیار اور شفقت سے نوازتے تھے، اخبار وطن کے ذریعے انھیں ملک گیر نہیں عالمگیر سطح پر عوام سے متعارف کراتے تھے۔
کرکٹ کے حوالے سے ان دنوں بڑی بڑی شخصیتوں سے مجھے ملنے کا موقع ملا جو اخبار وطن کے دفتر آتے تھے۔ حنیف محمد، آصف اقبال، مشتاق محمد، اقبال قاسم، جاوید میانداد، صلاح الدین صلو، سراج الاسلام بخاری، سکندر بخت، چشتی مجاہد کے علاوہ کئی اور نامور شخصیتں جن کے نام اس وقت یاد نہیں آ رہے ہیں۔ اقبال قاسم نے جو اپنی یادداشت لکھی تھی اسے بھی اخبار وطن پبلی کیشن کے زیر اہتمام منیر بھائی نے شایع کیا تھا کرکٹ تو آسان زبان میں سمجھنے اور سمجھانے کے لیے منیر بھائی نے خود بھی اردو زبان میں کئی کتابیں لکھیں اور شایع کی تھیں۔اردو زبان سے انھیں بڑی محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اردو میں کمنٹری کی طرح ڈالی اس سے پہلے صرف انگریزی میں کمنٹری کی جاتی تھی جس سے بہت بڑا طبقہ لطف اندوز نہیں ہو سکتا تھا۔ پہلے پہل انھوں نے ریڈیو پاکستان کے لیے اردو میں کمنٹری کی پھر اس کی مقبولیت کے بعد ٹی وی پر بھی انھوں نے اردو کمنٹری کی، اس حوالے سے انھوں نے متعدد غیر ملکی دورے بھی کیے۔
اخبار وطن کے اجرا کی بھی بڑی دلچسپ کہانی ہے، اس کا ڈیکلریشن لیتے وقت ان کے ذہن میں یہ بات نہیں تھی کہ اسے کرکٹ کا جریدہ بنائیں گے، ان ہی دنوں کی بات ہے کہ جاپانی پہلوان انوکی پاکستان آیا تھا اور اپنی کُشتی کے حوالے سے بہت مقبول ہو گیا تھا۔ پاکستان میں اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئی ان کے ایجنٹ (اخباری ایجنٹ جس کے پاس ان کے میگزین فلم ایشیا کی ایجنسی تھی) نے ان سے کہا کہ اگر انوکی کی تصویروں کا ایک البم نما پرچہ شایع کیا جائے تو ہاتھوں ہاتھ بک جائے گا۔ منیر بھائی نے اخبار وطن کے زیر اہتمام اپنے ایجنٹ کی فرمائش پوری کر دی، رنگین تصویروں کا یہ بڑا خوبصورت گلدستہ تھا جو واقعی گرم کیک کی طرح بک گیا۔ جس کے بعد انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کیوں نہ اسے کھیلوں کا پرچہ بنا دیا جائے۔ ان دنوں ان کا پرچہ ماہنامہ '' فلم ایشیا'' ایکسپریس کے سنڈے میگزین سائز پر چھپا کرتا تھا جو ادب اور ثقافت کا آئینہ دار تھا۔
سیاسی اور معاشرتی مضامین بھی اس میں چھپتے تھے اور فلم اور کھیل سے متعلق بھی تحریریں ہوا کرتی تھیں، منیر بھائی اس جریدے میں چھپنے والی ہر تحریر کا معاوضہ دیا کرتے تھے اگرچہ ان کا پرچہ کوئی ڈائجسٹ نہیں تھا، ادبی اور ثقافتی پرچہ تھا مگر انھوں نے اس پرچے کے لکھنے والوں کو معاوضہ دینے کی ریت شروع کی۔ جب اخبار وطن باضابطہ کرکٹ کا رسالہ بن گیا تو ''فلم ایشیا'' مکمل طور پر فلم کا جریدہ بن گیا۔ اخبار وطن نے جہاں کرکٹ کی مقبولیت میں ملک گیر طور پر نمایاں کردار ادا کیا اور ابھرتے ہوئے کرکٹرز کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا وہاں کرکٹ جرنلزم کو بھی ایک نئی زندگی بخشی، آج کے نامور کرکٹ جرنلسٹ سید محمد صوفی، احسان قریشی، عبدالماجد بھٹی، عبدالرشید بلبل، عالیہ رشید، شاہد اختر ہاشمی، محمد مشتاق وغیرہ اخبار وطن ہی کی پیداوار ہیں، منیر بھائی نے اخبار وطن میں ان کی تحریریں چھاپ کر انھیں صحافتی وقار اور اعتبار سے بہرہ ور کیا۔
ایک وقت تھا کہ ''اخبار وطن'' پاکستان کا کثیر الاشاعت اور بے حد مقبول جریدہ تھا۔ جس میں کئی کرکٹرز اور کرکٹ سے متعلق اہم شخصیات بھی لکھا کرتی تھیں، اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ روزانہ سو ڈیڑھ سو خطوط اس کے قارئین کے آتے تھے، آدھا پرچہ قارئین کی تحریروں پر مشتمل ہوتا تھا۔ منیر بھائی کی طبیعت ہمیشہ مذہب کی طرف مائل رہتی تھی وہ سال میں ایک بار اخبار وطن کا ایک خصوصی شمارہ سیرت نبوی صلی اﷲ علیہ و سلم پر نکالتے تھے جو پیارے نبیؐ سے پیار کرنے والوں کو مفت تقسیم کیا جاتا تھا۔ دوست نوازی کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ ان کے دفتر میں دستوں کا جم گھٹا لگا رہتا تھا۔
یہ ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوتے تھے جن کی وہ چائے اور کھانے سے تواضع ہی نہیں کرتے تھے ان کے دکھ درد میں بھی شریک ہوتے تھے۔ بے مثل صلاحیتوں کے آل رائونڈر صحافی نادر شاہ عادل جب بھی کسی اخبار کی انتظامیہ سے ناراض ہو کر استعفیٰ دے دیتے تو منیر بھائی اپنی کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دفتر کا دروازہ ان کے لیے کھول دیتے اور جب تک وہ کسی دوسرے اخبار میں ملازمت نہیں کر لیتے اخبار وطن اور فلم ایشیا کے لیے کام کرتے رہتے۔ نادر شاہ عادل کے بارے میں یہ بتاتا چلوں کہ وہ بڑے کھرے انسان ہیں، انتہائی دیانتداری کے ساتھ اپنا کام کرتے ہیں۔ اس لیے مالکان اور انتظامیہ سے بھی ایسے ہی رویہ کے طلب گار ہوتے ہیں جب بھی ان کے مزاج کے خلاف ان کی طرف سے کوئی سلوک ہوتا ہے وہ فوراً استعفیٰ دے کر ادارے سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔
یادوں کا تو ایک طویل سلسلہ ہے اب تو وہ ہماری یادوں ہی میں زندہ رہیں گے کہ اچھے لوگ ہماری نگاہوں سے اوجھل ہونے کے باوجود اپنی اچھائیوں کی وجہ سے ہمیشہ ہمارے قریب ہی ہوتے ہیں۔