مزدوروں کی تنخواہیں کیوں نہیں بڑھتیں
سرمایہ داری میں محنت کشوں کی کمائی کی ساری رقوم سرمایہ دار ہڑپ کرجاتا ہے۔
حال ہی میں ٹی وی ٹاک شوز پر اسمبلی ارکان کی تنخواہوں میں اضافے پر حمایت اور مخالفت میں بحث ومباحثے ہوئے۔کہا جا رہا ہے کہ نوکرشاہی، سیکریٹریز، ڈائریکٹرز اور جی ایمزکی تنخواہیں اسمبلی ممبران سے بھی زیادہ ہیں تو پھر اسمبلی ممبران کی تنخواہیں اگر ہزاروں کی بجا ئے لاکھوں میں ہوگئیں توکیا ہوا ؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ نوکرشاہی، ایم ڈیز اور سیکریٹریز ملازم ہیں ۔ پھر بھی ان کی لاکھوں کی بجائے ہزاروں میں تنخواہیں ہونی چاہیئیں، مگر اسمبلی ممبران تو ملازم نہیں بلکہ عوام کے خدمت گار اور رضاکار ہیں اور ان میں سے قطعی اکثریت کا پس منظر امیرگھرانوں سے ہے ۔
انھیں تنخواہوں کی ضرورت بھی نہیں اور اگر امیریت کو نکال بھی دیا جائے تو یہ عوام کی رضاکارانہ خدمت کرنے کا حلف اٹھاتے ہیں۔ عوام کے لیے اپنے آپ کو رضا کارانہ طور پر پیش کردیتے ہیں ، پھر تنخواہوں کا تصورکیسے پیش آتا ہے۔ خدمت تو ایدھی ٹرسٹ بھی کرتا ہے، سیلانی والے بھی کرتے ہیں ، سوٹ اورکارڈیو بھی مفت علاج یعنی عوام کی مفت خدمت کرتے ہیں ۔ یہ تو رہے خود کار چھوٹے چھو ٹے ادارے جب کہ اسمبلی تو بحیثیت مجموعی خدمت گاری کا اعلیٰ ادارہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے ۔ اسمبلی میں بھی اکثریت انھیں کی ہے، جوکہ کروڑوں روپے اپنے انتخابات پرخرچ کردیتے ہیں۔ان کے لیے یہ سرمایہ کاری ہے اور اقتدار میں آکر اس سے کہیں زیادہ کمانے کی غرض سے ہی انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ خدمت نہیں ایک منافع بخش تجارت ہے،اگر خدمت اور عوام کی بھلائی کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنا ہے تو پھر چی گویرا، بھگت سنگھ، ڈاکٹر فیدل کاسترو، ہوچی منہہ، گرامچی،کرنل ناصر ، ہوگو شاویز اور موجودہ بولیویا، ایکوا ڈور،کیوبا، وینزویلااور شمالی کوریا اس کی بہترین مثالیں ہیں جنھوں نے پہلے بھی اور اب بھی ایک ہنر مند مزدور کے برابر تنخواہیں لیتے ہیں ۔ ہوچی منہہ، کاسترواور چی گویرا دنیا کی عوامی خدمات کرنے والوں کی بے مثال شخصیتیں ہیں اور ساتھ ساتھ ان کے پاس کوئی جائیداد، ملکیت یا کوئی نجی مکانات تھے ۔
ہم تو اب تک دنیا کی اور نامور لوگوں کی مثالیں دے رہے تھے۔ پاکستان کی حکومت نے (صرف سندھ حکومت) ایک غیر ہنر مند مزدورکی تنخواہ پندرہ ہزار روپے مقررکی ہے ، جب کہ نوے فیصد مزدوروں کو پندرہ ہزار روپے میسر نہیں ہے۔ انھیں چھ ہزار روپے تا بارہ ہزار روپے سے زیادہ نہیں ملتے۔ اب وزراء، اسمبلی ممبران ، نوکرشاہی یہ بتائیں کہ دس ہزار روپے میں کیا آج کی اس کمر توڑ مہنگائی میں گذارا ہوسکتا ہے؟ قطعی نہیں ۔ تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیسے جی رہے ہیں؟ جی ہاں ! وہ نیم فاقہ کشی کی زندگی گزار رہے ہیں ، وہ جب بازار میں جاتے ہیں تو ایک پاؤگوشت، ایک پاؤ سبزی، ایک پاؤ دودھ اور ایک پاؤ دال خریدنے پر مجبور ہیں، ہاں مگر آٹا ایک ساتھ کم ازکم دوکلو تو خریدنا ہی پڑتا ہے، جب کہ ہمارا 2018 کا فوجی بجٹ 13 کھرب رو پے تھا۔
کرکٹ کھیل ہے ، یہ کھیل نہیں بلکہ اربوں ڈالرکا کھیلواڑ تھا ۔ بل بورڈ پر جا بجا درج تھا اور بینرز آویزاں تھے کہ ''مجھے کرکٹ سے پیار ہے'' کہیں پہ بھی یہ درج نہیں تھا کہ ''ہمیں صحت اور تعلیم سے پیار ہے ، ہمیں تھرکے تڑپتے، مرتے ہوئے بچوں سے بھی پیار ہے' ہمیں ان بچیوں اور ماؤں سے پیار ہے، جنھیں زیادتی کرکے آئے روز قتل کردیا جاتا ہے'' یہی وجہ ہے کہ جب نوے فیصد مزدور کسان کم اجرتوں کے حصول کی وجہ سے نیم فاقہ کشی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں تو پھر وہ جینے کے لیے اسٹریٹ کرائم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
امیر تو اربوں روپے اپنی فائلوں اور قلموں کے زور اور اعلیٰ نوکر شا ہی سے تعلقات کے ذریعے ہڑپ کر جاتے ہیں جوکبھی واپس ہوا اور نہ کبھی ہوگا ، مگر فاقہ کش مزدورکسان جب بھوک سے تڑپ اٹھتا ہے تو وہ اگر ہمت والا ہے تو جان کو داؤ پہ لگا کر ڈاکہ ڈالتا ہے ، بیگانگی ذات سے تنگ آکر منشیات نوشی کا عادی ہوجاتا ہے یا پھر خودکشی کرنے پر مجبورہوتا ہے۔ خواتین پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے عصمت فروشی کرواتی ہیں، بعض لوگ کرائے کے قاتل بن جاتے ہیں ، جو یہ سب کچھ نہیں کر پاتے تو ذلت آمیز زندگی کو قبول کرکے گدا گر بن جاتے ہیں۔
نوکر شاہی، اسمبلی ممبران اور اداروں کے سربراہان کی تنخواہیں اگرکم کردی جائیں اور غیر ضروری بجٹ میں پچاس فیصد کم کرکے باقی رقوم کو بے روزگاری ختم کرنے اور روزگارکے حصول تک بے روزگاری الاؤنس دیا جاسکتا ہے۔ جاگیرداری ختم کرکے تمام بے زمین کسانوں میں مفت زمین، چھوٹے ٹریکٹرز، سستے کھاد اور مفت بجلی مہیا کی جاسکتی ہے اور شہروں میں کارخانوں کا جال بچھایا جائے تو یہ ذلت آمیز اورعالمی گداگری کی راہوں کو روکا جاسکتا ہے۔ آج بھی کیوبا کی طرح سو فیصد مفت ، معقول اور بروقت علاج فر اہم کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ کیوبا کی طرح آئی ایم ایف سے چھٹکارا اور جاگیرداری کا خاتمہ کردیں ۔
آج ہمارے ملک میں اسی فیصد لو گوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں جب کہ گلیات، ایبٹ آباد میں چشمے کے پانی کی پاکستان کی سب سے بڑی ٹنکی بنی ہوئی ہے اور یہ پانی مری کے حکمران طبقات کو فراہم کیا جاتا ہے، لیکن گلیات کی محنت کش خوا تین سروں پہ لاد کر پانی اور لکڑیاں ملوں دور سے لاتی ہیں اور راستے میں آتے وقت چیتے کی شکار بھی بن جاتی ہیں۔کراچی، پشاور،کوئٹہ، لاہور، ملتان ، حیدرآباد اور تمام شہروں کے مزدوروں، گاؤں کے کھیت مزدوروں اور بے زمین دھاڑی دار مزدور روزانہ تین چار سو روپے کی دھاڑی پرکام کرنے پر مجبور ہیں تو دوسری طرف جاگیردار لاکھوں ایکڑ زمین کے مالک ہیں اور سرمایہ دار جو بیشتر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ایجنٹی کرتے ہیں، ملک کے مزدوروں کا خون نچوڑنے میں برابرکی شریک ہیں ۔
ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریاست صاحب جائیداد طبقات کی محافظ ہوتی ہے ، اگر ہم نے سرمایہ داری میں لڑکر تھوڑی بہت سہولت یا سوشل ازم میں اس سے زیادہ سہولت حاصل کر بھی لی تو بھی ہم آزاد ہیں اور نہ جائیداد کے مالک ہیں ۔ سرمایہ داری میں محنت کشوں کی کمائی کی ساری رقوم سرمایہ دار ہڑپ کرجاتا ہے جب کہ سوشل ازم میں محنت کشوں وپیداواری قوتوں کو ان کے مقابلے میں بہت زیادہ ملتا ہے لیکن یہاں بھی پیداواری قوتیں آزاد نہیں ہوتیں۔ یہ لڑائی اب فرانس سے پیلی جیکٹ کی شکل میں شروع ہوچکی ہے۔