غزل
بڑے سلیقے سے اس کو جدا کیا میں نے
پھر اس کے بعد یہ سوچا کہ کیا کِیا میں نے
رکھا منڈیر پہ ٹوٹا ہوا دِیا کوئی
پھر انتظار ترا بے بہا کیا میں نے
تمھاری یاد کا پنچھی جب آ گیا اُڑ کر
قفس سے ایک پرندہ رہا کیا میں نے
یہ اور بات کہ تُو نے ابھی ابھی دیکھا
اشارہ ورنہ کئی مرتبہ کیا میں نے
جو دھوپ تیز ہوئی میں نے تجھ کو سوچ لیا
ترا خیال چُنا اور ردا کیا میں نے
مِرے بدن سے اندھیرے کی دھول چھٹنے لگی
جو دل کے داغ کو روشن ذرا کِیا میں نے
میں اپنے قول کا پکا رہا ہمیشہ اویسؔ
کسی حریف سے جو بھی کہا، کیا میں نے!
(اویس احمد، فیصل آباد)
...
غزل
خوش بُو کی قندیل جلائی اور سجائی شام
شب نے دھیرے سے دستک دی اور بجھائی شام
تیرے خیال سے خود کو سوچا، جگمگ دیپ جلے
تیری آنکھ سے خود کو دیکھا اور مسکائی شام
تیرے دھیان کا کنگن چھنکا، ڈھیروں ساز بجے
تیری یاد کا کاجل پہنا اور شرمائی شام
بانہیں تن کا ہار ہوئیں، سب لمحے بنے گلاب
بلبل نے اِک گیت سنایا، اور شہنائی شام
دیوانوں نے دیوانوں سے پوچھا کون ہے وہ
جس کے عشق میں پاگل رینا اور شیدائی شام
برہا آگ میں جل جل کر تن سارا راکھ ہوا
راکھ سے اٹھی اک سسکاری، اور کُرلائی شام
نیناؤں کی بدری سے جھر جھر موتی برسیں
چندرما نے نظر اتاری اور فدائی شام
(سارا خان، راولپنڈی)
...
غزل
میں نے سوچا تھا کچھ، عیاں کچھ تھا
اور حقیقت میں آسماں کچھ تھا
یہ تری آنکھ کی کرامت تھی
ورنہ منظر میں کب، کہاں کچھ تھا
اس محبت سے بھی بہت پہلے
ترے اور میرے درمیاں ... کچھ تھا
سرِِ دیوار کچھ نہیں تھا اگر
پسِِ دیوار بھی کہاں کچھ تھا
ڈوبتی ناؤ کے علاوہ بھی
جھیل کے عین درمیاں کچھ تھا
(ذیشان مرتضی، پہاڑپور۔ ڈیرہ اسماعیل خان)
...
غزل
ہے جو بھی درمیاں گرد و غبار، چھٹ جائے
وہ کچھ کہے، نہ سنے، مجھ سے بس لپٹ جائے
اسی لیے تو تمہیں اپنے ساتھ لایا ہوں
میں چاہتا ہوں سفر خیریت سے کٹ جائے
میں روند دوں گا محبت کو اپنے پیروں تلے
اسے کہو کہ مرے راستے سے ہٹ جائے
میں تیرا ذکر کروں اپنے شعر میں، یعنی!
فقط دو مصرعوں میں یہ جہاں سمٹ جائے
جُھکا ہوا ہوں ترے سامنے میں، اور اسی وقت
ہے میرا دنیا سے جو رابطہ وہ کٹ جائے
(حذیفہ ہارون، کراچی)
...
غزل
پاؤں جب میرے آسمان میں تھے
اس گھڑی آپ ہی دھیان میں تھے
جس گھڑی ہم بہت تھے پُرامید
اس گھڑی آپ کے جہان میں تھے
عسرتِ زیست ہم غریبوں پر
دھوپ چھوٹی تو ہم تھکان میں تھے
یاد ہے ہم بھی کارآمد تھے
تیر تھے اور تری کمان میں تھے
سیر دیوار و در کی، کی ہم نے
عیش تھی رات ہم مکان میں تھے
یاد رہتے تو چُور ہو جاتے
خواب کیا کیا مرے گمان میں تھے
کس قدر ہو چلی ہے بے زاری
دل میں بھی ہم تھے، ہم تو جان میں تھے
(ابو لویزا علی، کراچی)
...
غزل
رنگ مل جائے خوشی کا تو دغا بازی کروں
خاک میں پگھلا کے اس کو آئینہ سازی کروں
وہ تخیل میں اگر آجائے میرے سامنے
اے خدائے بے نیازی کیا اسے راضی کروں
ایک بچے کی طرح سے ضد کیے جب دل مرا
صنعتِ ابلاغ پھر میں کیسے لفاظی کروں
اک معمہ سا کھڑا ہے آئینے کے سامنے
اپنی غمازی کروں کہ اس کی غمازی کروں
میں چراغِ آخرِ شب ہوں، کہ شمسِ صبحِ نو
کیا اسی اک چپقلش میں حال کو ماضی کروں
(محمد فراز، کراچی)
...
غزل
مجھے تو اس سے خوش بُو آ رہی ہے
جو اس نے پھول پھینکا کاغذی ہے
مرے گھر والوں سے پوچھے یہ کوئی
بھلا کس چیز کی اُس میں کمی ہے
کوئی تو بات ہے اس کے بھی دل میں
جو مجھ کو دیکھ کہ یوں ہنس پڑی ہے
مجھے ڈر ہے کہیں تجھ کو نہ تَک لے
اداسی روح و دل میں جھانکتی ہے
تیری تصویر کو دیکھا ہے میں نے
اگر تجھ سے کبھی فرصت ملی ہے
وہ بھی اکتا چکی ہے شاعری سے
غزل سانول ؔکی بھی یہ آخری ہے
(عمران اختر القادری سانول، لاہور)
...
غزل
مرے گماں سے نکل کر یقین میں آؤ
تم آسماں سے نکل کر زمین میں آؤ
میں دے رہا ہوں تمہیں اک حسین سی دعوت
بتوں کو توڑ کے دینِ مبین میں آؤ
میں کہہ رہا ہوں اداسی کو گھر سے دور رہو
نہیں ہے تم کو اجازت مکین میں آؤ
تُو ناسمجھ ہے چلا جا ہماری محفل سے
تمھارا کام نہیں تم فطین میں آؤ
میں اختتام غزل اس سمے کروں گا سیفؔ
کہ پہلے اس سے کہو سامعین میں آؤ
(سیف الرّحمٰن، سرگودھا)
...
غزل
خاک کا یہ ڈھیر بھی آخر پڑا رہ جائے گا
ڈوب جائے گا سفینہ ناخدا رہ جائے گا
ہم رہیں گے یا نہیں اشعار تو رہ جائیں گے
لاش اٹھ جائے گی لیکن حادثہ رہ جائے گا
ایک فرضی سے تعلق میں کہاں رعنائیاں
مل نہ پائیں گے کبھی ہم، رابطہ رہ جائے گا
ہم یونہی مرتے رہیں گے گر خدا کے نام پر
دیکھنا اک دن زمیں پر بس خدا رہ جائے گا
ہم کہاں تک روک لیں گے خون کی ترسیل کو
تجھ کو جاتا دیکھ کوئی دیکھتا رہ جائے گا
(وقاص علی، قصور)
...
غزل
کاش کوئی یہ بے بسی سمجھے
خوف میں جینا زندگی سمجھے
کیا عجب جھوٹ کے پجاری ہیں
تیرگی کو جو روشنی سمجھے
سب مری موت مانگنے والے
سانس لینے کو زندگی سمجھے
ہاں الٹ دے بساط ہر غم کی
آدمی کو جو آدمی سمجھے
درد اپنے غزل میں لکھتا ہوں
کون ایسا جو شاعری سمجھے
(اسلم صابر، عیسی خیل)
...
غزل
آہ بَھرتے ہوئے نکلتے ہیں
اشک جلتے ہوئے نکلتے ہیں
خوف پھیلا ہے اتنا بستی میں
لوگ ڈرتے ہوئے نکلتے ہیں
دل کی دھڑکن بدلنے لگتی ہے
جب وہ ہنستے ہوئے نکلتے ہیں
ہم قلندر مزاج گلیوں میں
رقص کرتے ہوئے نکلتے ہیں
شام ہوتے ہی تیری یادوں کے
سانپ ڈَستے ہوئے نکلتے ہیں
گھر سے نادِ علی کا ہم شافیؔ
وِرد کرتے ہوئے نکلتے ہیں
(محسن رضا شافی، کبیر والا)
...
غزل
جس طرح درختوں کا سائباں نہیں جاتا
جذبۂ محبت بھی رائیگاں نہیں جاتا
ہر قدم قیامت کے درد سہنے پڑتے ہیں
طالب محبت کا امتحاں نہیں جاتا
دن گزر تو جاتے ہیں غم کی دھوپ چھاؤں کے
سَر سے بدنصیبی کا آسماں نہیں جاتا
زخم بھر تو جائیں گے وقت کے گزرنے پر
عشق کا جو گھاؤ ہے جان جاں نہیں جاتا
آسماں کی پلکیں بھی اس سے بھیگ جاتی ہیں
دادؔ رات دن رونا رائیگاں نہیں جاتا
(داد بلوچ، فورٹ منرو)
...
غزل
نیک ہو عندلیب اچھا ہو
بیٹیوں کا نصیب اچھا ہو
قابلِ قدر ہو نظامِ نو
قوم کا جب نقیب اچھا ہو
اچھی تحریر سے نہیں مطلب
لکھنے والا ادیب اچھا ہو
ایک مدت سے بدگمانی ہے
یہ گماں عنقریب اچھا ہو
ایسا نقشہ کوئی نہیں حارثؔ
جس میں شہرِ غریب اچھا ہو
(حارث انعام، نوشہرہ)
...
غزل
نیند ذرا سی جب بھی آنے لگتی ہے
یاد تمہاری شور مچانے لگتی ہے
ساتھ ملاتے ہیں آواز پرندے بھی
ہوا مجھے جب گیت سنانے لگتی ہے
دیکھ کے کھڑکی سے بارش کو پاگل لڑکی
آج بھی دو کپ چائے بنانے لگتی ہے
پچھلے چہروں کو دفنا کے مٹی میں
آنکھ نیا اک عکس اگانے لگتی ہے
کچے پکے آم سہم سے جاتے ہیں
جب بھی چڑیا شاخ ہلانے لگتی ہے
اس کی آنکھ میں آنکھیں ڈال کے دیکھنا تم
دنیا کیسے آنکھ چرانے لگتی ہے
ہاتھ میں لے کر سورج کا نارنجی البم
شام وہ فوٹو کسے دکھانے لگتی ہے
دروازے پہ آن رکے باراتی تب
دلہن اک تصویر جلانے لگتی ہے
مجھ کو پاس بٹھا کے ماں کی خاموشی
سارے دل کے راز بتانے لگتی ہے
میرے آنچل پہ ست رنگی کرنوں سے
روشنی کوئی پھول بنانے لگتی ہے
(ناہید اختر بلوچ، ڈیرہ اسماعیل خان)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچۂ سخن''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
[email protected]