بیمار ہوں نہیں ہوں

وہ عجیب وغریب امراض جو آپ کو حقیقی نہیں لگیں گے۔


وہ عجیب وغریب امراض جو آپ کو حقیقی نہیں لگیں گے۔ فوٹو: فائل

تندرستی کو ہزار نعمت کہا جاتا ہے اور یہ بات صحیح بھی ہے کیونکہ صحت وہ انمول شے ہے جو دولت کے عوض نہیں ملتی۔

اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ امیر لوگ پیسہ ہونے کے باوجود مختلف بیماریوں کی وجہ سے اپنے من پسند کھانے کھانے سے بھی محروم رہتے ہیں اور نیند کی روٹھی دیوی کو منانے کے لیے گولیاں کھانے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن پھر بھی آرام دہ، پُرسکون اور میٹھی نیند کو ترستے ہی رہتے ہیں جبکہ دوسری طرف ایک غریب مزدور روکھی سوکھی کھا کر رات کو گھوڑے گدھے بیچ کر آرام سے سوتا ہے۔ ذیل میں چند ایسے امراض کا ذکر کیا جارہا ہے جو دنیا میں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ سب کو ہر طرح کی بیماریوں سے محفوظ رکھے اور تمام بیماروں کو اپنی رحمت سے شفائِ کاملہ وعاجلہ عطا فرمائے۔ آمین۔

1 ۔ کوٹارڈ ڈیلوژن (Cotard's delusion)
یہ وہ بیماری ہے جس میں مریض کو یہ وہم ہو جاتا ہے کہ وہ مر چکا ہے یا یہ کہ وہ اپنے خون، جسم کے مختلف حصوں (ناک، کان، ہاتھ یا ٹانگ) یا اندرونی اعضاء (دل، جگر، گردے اور پھیپھڑے وغیرہ) سے محروم ہو گیا ہے۔ 1880ء کے اوائل میں فرانس کے دماغی امراض کے ماہرِ 'ڈاکٹرجیولِس کوٹارڈ' (Dr. Jules Cotard) نے پہلی بار اس مرض کی تفصیلات کے متعلق وضاحت کی۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ زندہ لاشوں یعنی زومبی (zombies) کو محض سائنس فکشن اور ڈرائونی فلموں کے کردار سمجھتے ہیں لیکن جو افراد اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں انہیں اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ وہ مر چکے ہیں اور اُن کا جسم گل سَڑ رہا ہے یا کم از کم بھی یہ کہ وہ آہستہ آہستہ اپنے جسمانی اؑعضاء سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ اکثرو بیشتر اسی فکر میں غلطاں وپیچاں رہتے ہیں کہ اگر وہ نہائیں گے تو اُن کے خراب اعضاء بھی پانی کے ساتھ ہی بہہ جائیں گے اور اگر انہوں نے کھانا کھایا تو وہ کہاں جائے گا کیونکہ اُن کے خیال میں اُن کا معدہ تو ہے ہی نہیں۔ اسی وجہ سے وہ نہانے اور کھانے سے گریز کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں۔ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ اس بیماری کی وجہ دماغ کے اُن حصوں کی کمزوری ہے جو جذبات کو کنٹرول کرتے ہیں اور یوں اُن کا دماغ احساسات سے لاتعلق ہوتا چلا جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے اس مرض کے تدارک کے لیے استعمال کروائی جانے والی ادویات اکثر کارگر ثابت ہوتی ہیں۔

2 ۔ فارن ایکسنٹ سینڈروم (Foreign Accent Syndrome)
اس بیماری میں انسان اچانک ہی کوئی غیرملکی زبان بولنے لگتا ہے۔ آپ تصور کریں کہ کسی دن جب آ پ صبح سو کر اُٹھیں اور بالکل صحیح تلفظ کے ساتھ کوئی غیرملکی زبان فراٹے کے ساتھ بولنا شروع کر دیں تو کیا ہو گا ؟ پہلے تو یقیناً آپ کے آس پاس موجود افراد اور گھر والے ششدر رہ جائیں گے اور پھر وہ آپ سے پوچھیں گے کہ آپ کو کیا ہوگیا ہے اور آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ پھر اس کے بعد وہ تشویش کا شکار ہو کر کچھ بھاگ دوڑ شروع کریں گے کہ آپ میں آئی اس حیرت انگیز تبدیلی کا سبب جاننے کے لیے کسی سے معلوم کریں یا کسی ڈاکٹر کو دکھائیں۔ یہ مرض بہت کم افراد میں پایا جاتا ہے۔ امریکا بھر میں اس کے محض 60 کیس ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ پہلے پہل ڈاکٹر اس مرض کو اختباطِ ذہنی کا مسئلہ سمجھتے تھے لیکن 2002ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے یہ دریافت کیا کہ اس مرض کے متاثرین کے دماغ کے بول چال اور الفاظ کی ادائیگی ولہجے کو کنٹرول کرنے والے حصوں میں رونما ہونے والی خلافِ معمول تبدیلیاں ایک جیسی تھیں۔ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ بیماری دماغی دورے یا چوٹ کی صورت میں بھی لاحق ہو سکتی ہے۔

3 ۔ ایکواجینِک اُرٹیکاریا (Aquagenic Urticaria)
اس بیماری کے مریض کو پانی سے الرجی ہوتی ہے۔ تالاب میں تیراکی کرتے یا غسل خانے میں نہاتے ہوئے عام طور پر ہم میں سے اکثر لوگوں کے ذہن میں کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہوتی لیکن اس مرض میں مبتلا لوگوں کے لیے پانی کے پُرسکون اور آرام دہ لمس سے محظوظ ہونا بھِڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے۔ یہ مرض بھی عام نہیں اور 'سی این این' (CNN) کے مطابق پورے امریکا میں اس کے صرف 30 ہی مریض ہیں، جن میں سے زیادہ تر خواتین ہیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ اس مرض کے متعلق زیادہ معلومات میسر نہیں اسی وجہ سے ابھی تک اس کا علاج بھی دریافت نہیں ہو سکا۔ امریکا کے 'نیشنل اِنسٹیٹوٹ آف ہیلتھ' (National Institutes of Health) کے مطابق اس بیماری کے متاثرین اس سے نمٹنے کے لیے مختلف کریموں کا لیپ کر کے اپنے جسموں کو ڈھانپے رکھتے ہیں اور اکثر 'بیکنگ سوڈے' (baking soda) سے نہاتے ہیں۔

4 ۔ پورفیریا (Porphyria)
یہ مرض اعصابی نظام اور جِلد کو متاثر کرتا ہے اور اس کے مریض کے پیشاب کا رنگ جامنی ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ جسم ایک خاص قسم کا پروٹین 'ہیم' (heme) بنانا چھوڑ دیتا ہے۔ اس پرٹین کا کام خلیوں کو آکسیجن پہنچانے میں مدد فراہم کرنا اور ہیموگلوبن کو اس کا مخصوص رنگ دینا ہے۔ 'ہیم' (heme) کی عدم موجودگی کے باعث جِگر میں 'پورفِرنز' (porphyrins) نامی زہریلے مادے پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور خطرناک سطح پر پہنچ کر جسم سے اخراج کے وقت پیشاب کا رنگ تبدیل کر دیتے ہیں۔ چند تاریخ دانوں کے نزدیک 19 ویں صدی کے مشہور ولندیذی مصور 'وِنسینٹ وین گوہ' (Vincent Van Gogh) اور انگلستان کے بادشاہ 'جارج سوئم' (King George III)، جس کو 'پاگل بادشاہ' بھی کہا جاتا ہے، میں ایک غیر معمولی بات مشترکہ ہے اور وہ یہ کہ وہ اِن دونوں اشخاص کے پاگل پن کی حد تک پل پل بدلتے مزاج کو اسی بیماری کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں جبکہ اس نظریئے کے ناقدین 'وِنسینٹ وین گوہ' (Vincent Van Gogh) کی حد تک یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ اس کے 'پل میں تولہ پل میں ماشہ' مزاج کی وجہ یہ بیماری تھی بلکہ وہ اسے اس کی ذہنی کج روی سمجھتے ہیں جو اکثر فنکاروں کی طبیعت کا خاصہ ہوتی ہے۔ اس بات کا ثبوت وہ یہ دیتے ہیں کہ 'وِنسینٹ وین' نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ہسپتال میں زیرِعلاج رہ کر گزارا لیکن ڈاکٹروں کی رپورٹ میں اس کے پیشاب کا رنگ جامنی ہونے کے بارے میں کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ 'وِنسینٹ وین' کی جانب سے اپنے بھائی 'تھیو' (Theo) کو لکھے گئے خطوط میں بھی اس نے ایسی کوئی چیز نہیں بتائی۔

5 ۔ پیکا سینڈروم (Pica syndrome)
اس بیماری میں مریض کا دل پینٹ(paint) اور مٹی وغیرہ کھانے کو کرتا ہے۔ جس طرح 'نیل کنٹھ' کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ہر چیز کھا جاتا ہے اسی طرح اس مرض میں مبتلا افراد بھی کھانے پینے کے معاملے میں کسی تخصیص کے قائل نہیں ہوتے اور پینٹ(paint) ، چکنی مٹی، چونا، صابن، دیواروں کا پلسٹر اور تو اور کچے چاول اور آٹے جیسی عام لوگوں کو نامرغوب اشیاء بھی نگلنے سے نہیں چوکتے۔ کیا کریں بے چارے ؟ ان کا دل جو یہ سب کھانے کو چاہتا ہے۔ اگر کسی کو اِن سب چیزیں کی طلب مسلسل ایک ماہ تک محسوس ہوتی رہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ 'پیکا سینڈروم' کا شکار ہو چکا ہے۔ اس مرض کی علامات عام طور پر بچوں اور حاملہ خواتین میں دیکھی گئی ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ بیماری جسم میں ایک معدنی عنصر کی کمی کے باعث جنم لیتی ہے تاہم میڈیکل کے ماہرین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔

6 ۔ ایلس ان ونڈرلینڈ سینڈروم (Alice in Wonderland syndrome)
اس مرض کے نام سے شاید آپ نے اندازہ لگا لیا ہو کہ اس کا نام 'لیوِس کارول' (Lewis Carroll) کی مشہور کتاب 'ایلسز ایڈونچرز اِن ونڈرلینڈ' (Alice's Adventures in Wonderland) کے نام پر کیوں رکھا گیا ہے۔ 'آکسفورڈ ہینڈ بُک آف کلینکل میڈیسن' (Oxford Handbook of Clinical Medicine) کے مطابق اس بیماری کے متاثرین کو ہوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ تیزی سے سکڑتے یا پھیلتے جا رہے ہیں یا اکثر انہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ اُن کے سامنے پڑی چیزوں کا اصل حجم اس کے برعکس یعنی چھوٹا ہے جو انہیں دکھائی دے رہا ہے۔ تحقیق کار اس مرض کا تعلق آدھے سر کے درد 'مگرین' (دردِ شقیقہ) migraine سے جوڑتے ہیں۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ 'لیوِس کارول' خود بھی دردِ شقیقہ کا مریض تھا، اسی لیے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی اس بیماری کے کچھ ناکچھ اثرات اس کی کتاب کے چند حصوں پر نظر آتے ہیں۔

7 ۔ پروگیریا (Progeria)
اس بیماری کے متاثرہ شخص کی عمر سات گُنا تیزی سے بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس مرض کا شکار ایک یا دو سالہ بچے اپنی ظاہری شباہت کی وجہ سے اپنی عمر سے کہیں زیادہ بڑے لگنے لگتے ہیں۔ یعنی اُن کی جسمانی نشونما تو عام بچوں سے بھی کم رفتار سے ہو رہی ہوتی ہے لیکن بوڑھوں کی طرح اُن کے بال گِر کر کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ بالاخر وہ اپنے جسم کی زیادہ تر چربی کھو بیٹھتے ہیں اور اُن کی کھال پر جھریاں پڑ جاتی ہیں جس کے سبب وہ اپنی اصل عمر سے بیسیوں برس بڑے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ لفظ 'پروگیریا' یونانی زبان سے اخذ کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے 'قبل از وقت بڑھاپا'۔ یہ ایک جینیاتی بیماری ہے۔ 'پروگیریا ریسرچ فائونڈیشن' (Progeria Research Foundation) کے مطابق ابھی تک اس مرض کا کوئی علاج دریافت نہیں کیا جا سکا اور اس کے مریض اوسطاً 14 برس کی عمر میں جہانِ فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔

8 ۔ ایکسپلوڈِنگ ہیڈ سینڈروم (Exploding Head syndrome)
اس بیماری میں مبتلا لوگوں کا کہنا ہے کہ جب وہ سو جاتے ہیں یا سو کر اُٹھتے ہیں تو انہیں انتہائی اُونچی آوازیں سُنائی دیتی ہیں جیسے بندوقوں سے گولیاں برسائی جا رہی ہوں یا پھر بہت تیز آواز میں جھنکار والے ساز بج رہے ہوں، حالانکہ اُس وقت اُن کے آس پاس کوئی بھی موجود نہیں ہوتا۔ میڈیکل سائنس کے ماہرین میں اس مرض کی وجوہات پر اتفاق نہیں پایا جاتا تاہم وہ اس کو کسی ذہنی دبائو یا تھکن کی وجہ سے پیدا ہونے والی نیند کی خرابی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اس بیماری کے متاثرین میں سے بیشتر کو پوری زندگی میں بس ایک یا دو بار ہی ایسی آوازیں سُنائی دیتی ہیں البتہ جن لوگوں کو یہ شکایت مستقل رہے تو اُن کے لیے ادویات کا استعمال ضروری ہے۔

9 ۔ 'کینیٹیز سبیٹا' یا میری اینٹواِنیٹ سینڈروم (canities subita or Marie Antoinette syndrome)
آپ کے بال خدانخواستہ کسی پریشانی یا بُری خبر سُننے کی وجہ سے اگر اچانک سفید ہونا شروع ہو گئے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ آپ 'کینیٹیز سبیٹا' (canities subita) جسے 'میری اینٹواِنیٹ سینڈروم' (Marie Antoinette syndrome) بھی کہتے ہیں، کا شکار ہو گئے ہوں۔ یہ اختراع فرانس کے انقلاب کے موقعے پر 'ملکہ میری اینٹواِنیٹ' (Queen Marie Antoinette) کے لیے گھڑی گئی تھی کیونکہ جس دن اُس کی گردن ماری جانی تھی، اُس سے پہلے راتوں رات اُس کے سر کے سارے بال اچانک سفید ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور سابق امریکی صدر بارک اوباما جیسی مشہور شخصیات بھی اس مسئلے سے دوچار ہوئیں۔ اس کی وجوہات میں مختلف عوامل اس کا سبب ہو سکتے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ جسم کا قدرتی مدافعتی نظام کسی خرابی کے باعث جلد کے رنگ کو کنٹرول کرنے والے نظام کو نشانہء ہدف بنا لیتا ہے جس سے بالوں کے رنگ کی پیداوار متاثر ہو جاتی ہے۔

10 ۔ کانجینیٹل اینالجیزیا (Congenital Analgesia)
آپ اس بات پر یقین کریں یا ناں کہ دنیا میں ایک محدود تعداد ایسے لوگوں کی بھی پائی جاتی ہے کہ جنہیں اگر آپ کوئی چیز چبھوئیں تو اُنہیں درد محسوس نہیں ہوتا۔ دراصل انہیں ایک وراثتی جینیاتی مسئلہ درپیش ہوتا ہے جو جسم کو درد کے سگنلز دماغ کو بھیجنے نہیں دیتا، اس مرض کو 'کانجینیٹل اینالجیزیا' (Congenital Analgesia) کہتے ہیں۔ گو سُننے میں یہ بہت اچھا لگتا ہے کہ شاید ایسے انسان ، سُپر مین کی طرح کی خصوصیات کے حامل ہوتے ہوں گے مگر ایسا ہرگز نہیں ہے اور ناں ہی یہ کوئی فائدہ مند بات ہے، بلکہ اُلٹا اس کا نقصان ہی ہے کیونکہ ایسے شخص کو اگر کوئی چوٹ وغیرہ لگ جائے یا لاعلمی میں اس کے جسم کاکوئی حصہ آگ کی لپیٹ میں آ جائے تو اُسے معلوم ہی نہیں ہوتا اور اگر خدانخواستہ کسی حادثے میں اُن کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے تو درد نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس کے علاج کی طرف سے لاپرواہی کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ نیشنل اِنسٹیٹوٹ آف ہیلتھ (National Institutes of Health) کے مطابق یوں بار بار لگنے والی چوٹیں اُن کی زندگی کا دورانیہ کم کرنے کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔

11 ۔ ہائپرتھیمیزیا (Hyperthymesia)
اگر آپ کسی سے پوچھیں کہ آج سے ٹھیک 8 برس قبل، آج ہی کے دن وہ کیا کر رہا تھا ؟ تو یقیناً بہت سے لوگ اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہوں گے تاہم 'ہائپرتھیمیزیا' کے متاثرین آپ کو اُس دن کے ایک ایک لمحے کا احوال فَر فَر سُنا دیں گے۔ یہ مرض بھی بہت کم افراد میں پایا جاتا ہے۔ پورے امریکا میں اس کے صرف 33 مریض ہیں جن کو اپنی گزری ہوئی زندگی کے ہر ہر دن کی مکمل تفصیل یاد ہے۔ آپ اُن کی نوجوانی کے کسی بھی دن کی تاریخ کا حوالہ دیں اور پھر آرام سے بیٹھ کر اُن کی روداد سُنیں۔ اس مرض کے عام نہ ہونے کی وجہ سے اس پر زیادہ تحقیق نہیں کی گئی، اس لیے ماہرین کے پاس اس کی وجوہات اور علاج کے متعلق زیادہ معلومات نہیں ہیں۔

12 ۔ فائبروڈائیسپلازیا اوسیفیکینز پروگریسیوا (Fibrodysplasia Ossificans Progressiva)
عجیب بیماریوں کی اس فہرست میں یہ مرض سب سے زیادہ عام ہے۔ امریکا کے 'نیشنل اِنسٹیٹوٹ آف ہیلتھ' کے مطابق ایک تا دو ملین افراد میں اس مرض کی تشحیص کی جا چکی ہے۔ یہ بھی جینیاتی خرابی کے باعث لاحق ہونے والی بیماری ہے جس میں کوئی چوٹ یا زخم لگنے کی صورت میں جسم کی نرم بافتیں، ہڈیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور مرض بڑھتے بڑھتے بالآخر جسم کے جوڑوں اور پٹھوں کو اکڑنے پر مجبور کر کے باہم پیوست کردیتا ہے اور مریض کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ اس بیماری کے متاثرین کی کافی بڑی تعداد ہونے کے باوجود ابھی تک اس کا علاج دریافت نہیں ہو سکا۔

13 ۔ ٹری مین سینڈروم (Tree Man Syndrome)
اس مرض میں مریض کے جسم کی کھال درخت کی چھال کی مانند ہو جاتی ہے۔ درحقیقت یہ جلد پر بننے والے لاتعداد 'مسے' (warts) ہوتے ہیں جو اسے یہ شکل دے دیتے ہیں۔ یہ بیماری بھی جینیاتی خرابی کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ ہر سال اس طرح کے 600 کیسیز منظرِعام پر آنے نے ڈاکٹروں کو الجھا کے رکھ دیا ہے۔ گو آپریشن کے ذریعے اِن مسوں کو عارضی طور پر ختم کرنے میں کامیابی ہوئی ہے لیکن طب دانوں کو اس کا مکمل علاج ڈھونڈنا ہو گا۔

14 ۔ موبائل فون سے دھپڑ (Rash from Cellphones)
ذرا تصور کریں کہ موبائل فون، وائی فائی رئوٹر یا کسی بھی ایسے ہی آلے، جن سے برقناطیسی لہروں کا اخراج ہوتا ہو، کے نزدیک جاتے ہی اگر کسی کے سر میں درد شروع ہو جائے یا جسم پر دھپڑ پڑنے لگیں تو کیا ہو ؟ آپ کو اس بات پر شاید یقین نہ آئے لیکن کچھ لوگوں کو روزانہ یہ تجربہ ہوتا ہے۔ برقناطیسی لہروں سے ہونے والی حساسیت کے بارے میں طبی حلقوں میں پائے جانے ابہام و اختلاف کے باعث 2004ء تک 'ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن' (World Health Organization) نے اسے سرکاری طور پر بحیثیت ایک مرض کے تسلیم نہیں کیا۔ ماہرین کے خیال میں ابھی تک اس الرجی اور برقناطیسی لہروں کے درمیان کسی تعلق کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے تاہم اس بیماری کی اصل وجوہات کا پتا لگایا جانا ابھی باقی ہے۔

15 ۔ مورگیلنز (Morgellons)
مورگیلنز ریسرچ فائونڈیشن (Morgellons Research Foundation) کے مطابق اس مرض میں مبتلا افراد اپنے جسم پر کسی چیز کے رینگنے، کاٹنے، چبھنے یا ڈنک مارے جانے جیسا احساس محسوس کرتے ہیں۔ انہیں یوں لگتا ہے کہ جیسے اُن کے سارے جسم کو کیڑوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔ چند مریضوں کو ایسا احساس بھی ہوتا ہے کہ جیسے گہرے رنگ کے عجیب سے دھاگے یا ریشے اُن کی جِلد سے باہر کو نکل رہے ہوں۔ شروع شروع میں ڈاکٹروں نے اس کیفیت کو محض مریض کے دماغ کی کاررستانی قرار دیتے ہوئے زیادہ اہمیت نہیں دی مگر اب جدید تحقیق یہ بتاتی ہے کہ شاید یہ عجیب وغریب بیماری، چچڑی کے انسانی خون چوسنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی انفیکشن (tick-borne illness) کے باعث ہو سکتی ہے۔

16 ۔ مِرر ٹَچ سائنیستھیزیا (Mirror-touch Synesthesia)
ہم سب کے دماغوں میں ننھے ننھے عصبے موجود ہوتے ہیں۔ اُنہیں کی وجہ سے جب ہم دوسروں کو کسی دکھ درد یا تکلیف میں مبتلا دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ 'مِرر ٹَچ سائنیستھیزیا' (Mirror-touch Synesthesia) سے متاثرہ لوگوں کے دماغ میں موجود یہ ننھے عصبے اوروں کی نسبت زیادہ حساس ہونے کی وجہ سے دوسروں کی مصیبت وپریشانی پر اُن کا ردِعمل زیادہ شدید ہوتا ہے۔ اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس طرح کے افراد جب کسی کو تکلیف میں مبتلا دیکھتے ہیں تو اُن کو وہ درد اپنے جسم میں بعینہٖ اسی طرح اور اسی جگہ پر محسوس ہوتا ہے جہاں متاثرہ شخص محسوس کر رہا ہوتا ہے۔ اس مرض کے بعض مریض تو اتنے حساس ہوتے ہیں کہ دوسروں کی ناک پر دھری عینک کا بوجھ بھی انہیں اپنی ناک پر محسوس ہوتا ہے۔

17 ۔ فیٹل فیمیلیَل اِنسومنیا (Fatal Familial Insomnia)
اس بیماری کا نام ہی سُن کر پتا چل جاتا ہے کہ یہ کیا مرض ہو سکتا ہے۔ جینز میں پائی جانے والی اس مورثی خرابی، مریض کو پُرسکون اور گہری نیند سے محروم کر دیتی ہے اور بے خوابی کے باعث وہ ذہنی دبائو، اُکتاہٹ وبیزاری اور دماغی خلجان وہذیان کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نیشنل اِنسٹیٹوٹ آف ہیلتھ (National Institutes of Health) کے مطابق گو اس بیماری کے متاثرین کی تعداد بھی انتہائی کم ہے تاہم وہ بے چارے ایک برس یا اس سے کچھ زائد کی نیند سے محرومی کے بعد اس مرض کا خراج ادا کرتے کرتے ابدی نیند سو جاتے ہیں۔

ذیشان محمد بیگ
[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں