کثرت آبادی نہیں بلکہ بیکار آبادی سب سے بڑا مسئلہ

ویران علاقوں کو آبادکیا جائے تو یہی بے کار افراد ملک کا سرمایہ ثابت ہوں گے۔


ظفر سجاد March 24, 2019
ویران علاقوں کو آبادکیا جائے تو یہی بے کار افراد ملک کا سرمایہ ثابت ہوں گے۔ فوٹو: فائل

ایک طرف برما،مقبوضہ کشمیر اور فلسطین سمیت کئی علاقوں میں مسلم نسل کشی کی جا رہی ہے، دنیا کے کئی مہذب ممالک سے مسلمانوں کا انخلا کیا جا رہاہے۔دوسری طرف تقریباً 60سال سے غیر ملکی قوتوں اور اداروں نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کنٹرول کرنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام شروع کر رکھا ہے اور بڑھتی ہوئی آ بادی کو سب سے بڑا خطرہ قراردیا گیا ہے جبکہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔

بلوچستان پاکستان کے کل رقبے کا% 46 فیصد ہے اور پورے بلوچستان کی آبادی صرف 60 لاکھ ہے، جبکہ سمندری حدود تقریباً 650 کلومیٹر ہے،گوادر بلوچستان کی ساحلی پٹی کا حصہ ہے، بلوچستان کی زیادہ تر زمین غیر آباد ہے، اگر توڈیرو روڈ جو کہ پنجاب اور بلوچستان کو ملاتی ہے مکمل ہو جائے اور آبادی کا بہاؤ بلوچستان کی طرف کر دیا جائے تو پاکستان کی آبادی کم پڑ جائے گی،کہا جاتا ہے کہ اگر گوادر پورٹ اور سی پیک کا منصوبہ اصل تناظر میں کامیابی کی طرف بڑھتا جائے اور صنعتوں کا قیام عمل میں لایا جائے تو تقریباً 4لاکھ ہنر مندوں، کاریگروںاور مزدورو ںکی ضرورت ہوگی، تجارتی سر گرمیوں کے لیے 6 لاکھ مکانات اور رہائشگاہوں کی ضرورت ہوگی۔ اگر بنجر زمینوں کو کارآمد بنانے کی کوشش کی جائے تو کم از کم 30 لاکھ کسانوںکی ضرورت ہوگی۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف 6 سال میں بلوچستان کی آبادی میں پونے دو کروڑ کا اضافہ ہو سکتا ہے یعنی پاکستان کے دوسرے حصوں سے ہنرمند، کاریگر، مزدور، کسان ، تاجر پیشہ افراد اور سرکاری ملازمین کی بہت بڑی تعداد بلوچستان میں آباد ہو سکتی ہے، بلوچستان ترقی کے دھارے میں آسکتاہے، بلوچستان کا احساس محرومی ختم ہو سکتا ہے۔ ترقی کے دھارے میں بہہ سکتا ہے، مسئلہ ہماری بڑھتی ہوئی آبادی نہیں بلکہ غیر آباد علاقوںکو آباد کرنا ہے۔اس وقت بلوچستان کی ترقی وقت کا اہم تقاضا ہے اور اس مقصدکے لیے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔کان کنی کے لیے بھی بلوچستان میں لاکھوںافراد کی ضرورت ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کی ترقی کی راہ میں وہاں کا سرداری نظام سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اگر ان کی اجارہ داری کو للکارا گیا تو ملکی سالمیت کو خطرات در پیش ہو سکتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو مفاد پرست سرداروں نے پہلے ہی قومی ترقی میں حصہ نہیں لیا بلکہ بلوچستان کی آزادی کی تحریکیں پیدا کی ہوئی ہیں، انہوں نے ہی حالات ایسے پیدا کر رکھے ہیں کہ بلوچستان میں ترقی نہ ہونے کے برابر ہے، بعض غیر ملکی قوتوں کی بھی خاص دلچسبی رہی ہے کہ بلوچستان ترقی کے دھارے میں شامل نہ ہو سکے، یہی وجہ ہے کہ 650 کلومیٹر ساحلی پٹی ہونے کے باوجود بلوچستان میں ساحلی تفریحی مقامات نا پید ہیں ۔ لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہر نہیں ہیں، وگرنہ ساحلوں کے ساتھ ساتھ کثرت آبادی والے شہر واقع ہوتے ہیں ۔

پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی بجائے قومی ترقی منصوبہ بندی کی ضرورت تھی۔ قومی اثاثوں کو کار آمد بنانے کی ضرورت تھی ایک ایک انچ کو کارآمد بنایا جا سکتا تھا، ایک ایک فرد کو فعال کیا جا سکتا تھا، بلوچستان میں سڑکوں کا جال بچھانے کی ضرورت تھی اور کم آبادی کی پرواہ کیے بغیر بنیادی سہولتوں کی آسان فراہمی ضروری ہے، بنیادی ضروریات زندگی مثلاً پینے کا صاف پانی، بجلی اور گیس مختلف علاقوں میں پہنچانی ضروری ہے، ساحلی علاقوں میں عموماً ہر علاقے سے لا تعداد افراد روز گار کے لیے آتے ہیں، کراچی سمیت پوری دنیا کے ساحلی شہروں اور علاقوں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے مگر بلوچستان کی پوری پٹی ابھی تک غیر آباد ہے۔اگر بلوچستان کی بنجر، غیر آباد اور بیکار زمینوںکی اہمیت میں اضافہ ہو جائے تو وہاںکے مقامی باشندوں اور زمین مالکان کی زندگیوں میں مثبت انقلاب آ جائے گا اور خوشحال ہو جائیں گے، جیسا کہ گوادر اور آس پاس کی زمینوں کی قیمت میں کئی ہزار گنا اضافہ ہوا،کوڑیوںکے مول بکنے والی زمینیں سونے کے بھاؤ بکنے لگی ہیں۔

اسی طرح پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں بھی 85 ہزار ایکڑ زمین غیر آباد ہے جسے معمولی سی محنت سے کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔ بہت بڑا رقبہ زیرکاشت لایا جا سکتا ہے، جس سے لاکھوں لوگوں کو روز گارمل جائے گا۔

وطن عزیز اس وقت عالمی ترقی کی دوڑ میں سب سے پچھلی صفوں میں موجود ہے۔ اگر ملک میں تعلیمی سر گرمیاں شروع ہو جائیں تو ملک بھر میں مزید 8 لاکھ اساتذہ کی ضرورت محسوس ہوگی، تجارتی سرگرمیاں معمول پر آ جائیں تو ملک بھر میں 60 لاکھ ہنرمندوں اور کاریگروں کی ضرورت ہے۔ ملک اگر اپنی ڈگر پر چل پڑے تو کم از کم ایک لاکھ پندرہ ہزار مزید سرکاری اہلکاروں کی ضرورت ہوگی ۔ تجارت سے منسلک افراد کی تعداد میں بھی مزید 60 لاکھ کا اضافہ ممکن ہے، اگر اس تمام تر صورتحا ل کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہو گا کہ بڑھتی ہوئی آبادی مسئلہ نہیں۔ ماضی کی حکومتوں کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے ہم ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں ہو سکے، نہ ہم ملکی اثاثوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں نہ سیاحتی مقامات سے، نہ معدنیات سے اور نہ ہی افراد سے، پاکستان کے دشمنوں نے حکومتوں اور عوام کی توجہ کبھی اس جانب مبذول ہی نہیں ہونے دی۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اپنے اثاثوں اور افراد سے بہت ہی کم فائدہ اٹھا سکا ہے۔

کسی بھی حکومت نے اس بات کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا کہ وہ اپنے اثاثوں، افراد، زمینوں اور قدرتی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے مکمل اعداد وشمار اکٹھا کرے ۔ مردم شماری کو صرف بندے گننے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے،کبھی اس بات کا جائزہ نہیں لیا گیا کہ ہر شے سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، قوم میں بھی وہ جذبہ پیدا نہیںکیا جا سکا کہ پاک سر زمین کے ایک ایک انچ، ایک ایک تنکے اور ایک ایک پتے کو بھی کارآمد اور مفید بنانے کی کوشش کرے، پاکستان نے ابھی ترقی کی دوڑ میں شامل ہونا ہے، اور جب ترقی کا پہیہ چل پڑا تو یہی آبادی انتہائی کم نظر آئی گی، خارجہ پالیسی کے ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ کامیاب سفارتکاری کے ذریعے کم ازکم مزید سات لاکھ پاکستانیوں کو فی الفور روزگار کے لیے بیرون ممالک بھجوایا جا سکتا ہے۔ اس وقت ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو لاکھوں کی تعداد میں ہنر مند درکار ہیں جس کا فائدہ بھارت اور بنگلہ دیش اٹھا رہے ہیں، اصل مسئلہ بڑھتی ہوئی آبادی نہیں، افراد سے کام لینے کا ہے جس کا ادراک ہمارے حکمرانوں کو نہیں ہے۔

کافی عرصہ سے بین الاقوامی قوتیں اور ادارے پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی سے متوحش نظر آتے ہیں، یہ قوتیں اور ادارے اس قدر فکر مند ہیں کہ تقریباً 55 سال سے پاکستان کو آبادی کنٹرول کرنے کے لیے خطیر رقم امداد اور قرضے کی صورت میں فراہم کر رہے ہیں ۔

ان اداروں کا موقف ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل کی کمیابی کی وجہ سے پاکستان مسائل کا شکار ہو رہا ہے، خوراک ، علاج معالجہ اور تعلیمی سہولتوں میں اس قدر اضافہ نہیں ہو رہا جتنا کہ آبادی میں ہو رہا ہے، "خاندانی منصوبہ بندی" یا بہبود آبادی کا پروگرام صدر ایوب خان کے دور اقتدار میں شروع ہوا، یہ وہ دور تھا کہ جب پاکستان کی آبادی موجودہ آبادی سے نصف سے بھی کم تھی، وسیع پیمانے پر آبادی پر قابو پانے کے لیے تشہیر کی بھی کی گئی اور پورے ملک میں بہبود آبادی کے مراکز بھی قائم کیے گئے، اس وقت کچھ علماء کرام نے اس پروگرام کی مخالفت کی اور اس پروگرام کو نبی کریمﷺ کے حکم کے منافی قرار دیا گیا کیوںکہ آپ ﷺ نے اپنی کثرت امت پر ناز فرمایا ہے، ایک حدیث ہے" قیامت کے روز جنت کی طرف 100 ( بعض جگہ120) قطاریں جائیں گی اور ان میں 80 قطاریں صرف میری امت کی ہونگی "۔ اس پروگرام کو اسلام کے منافی قرار دیا گیا اور بعض علماء اور دانشوروں نے بر ملا کہا کہ یہ پروگرام پاکستان میں صرف اس وجہ سے شروع کیا گیا ہے کہ دوسری اقوام مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے فکر مند ہیں۔

مگر بات یہ ہے کہ سماجیات اور معاشیات کے ماہرین کے علاوہ بعض علماء کرام اور مفتی حضرات نے بھی اس پروگرام کی حمایت کی اور کہا کہ وسائل اور آبادی کا تناسب ایک جیسا ہونا چاہیے، بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے خوراک اور دوسری سہولتیں ناپید ہو جا ئیں گی۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ بڑھتی ہوئی آبادی ناقص منصوبہ بندی یا غیر فعال اور بیکار افراد کی کثرت؟خوراک کا رونا رویا جاتا ہے، فصلوں کی انتہائی کم پیداوار کے باوجود بھی ہم خوراک گندم، چاول ،چینی، پھل اور سبزیاں بر آمد کر رہے ہیں جبکہ ہمارے وطن جسے زرعی ملک کہا جاتا ہے میں فی ایکڑپیداوار دنیا کے دوسرے ممالک سے کہیں کم ہے، یہاںفی ایکڑ 20 من گندم پیدا کی جاتی ہے جبکہ جاپان میں 108من فی ایکڑ گندم پیداکی جا رہی ہے۔

دنیاکے تمام ممالک میں زرعی ریسرچ اور تعلیم پر بہت زور دیا جاتا ہے مگر زرعی ملک ہونے کے باوجود اس شعبے کو بری طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ابھی تک صحیح کھاد اور کیڑے مار ادویات کا ہی تعین نہیں کیا جا سکا، ہر علاقے میں ایک جیسی کھاد اور ادویات کا سپرے کیا جا رہا ہے۔ بعض زمینوں پر اس کا الٹ اثر ہوتا ہے،کھاد اور ادویات کے بے پناہ استعمال کے باوجود پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جا سکا ، جبکہ زرعی ماہر اور سابق وزیر زراعت ملک خدا بخش بچہ کا کہنا تھا کہ اگر مناسب توجہ دی جائے تو ہماری زرعی زمینوں سے چار گنا زیادہ فصل حاصل کی جا سکتی ہے، آفات اور موسمی تغیرات کی وجہ سے فصلوں کی بڑی تعداد متاثر ہوتی ہے۔

ـاصل مسئلہ کسی بھی ملک کے لیے کثرت آبادی نہیں ''غیرفعال آبادی''ہوتا ہے۔ لندن، پیرس، جاپان اور ہانگ کانگ سمیت بے شمار ترقی یافتہ ممالک اس بات کی زندہ مثال ہیں، بعض ترقی یافتہ ممالک میں آبادی کا بہت زیادہ دباؤ ہے مگر وہاں کی آبادی چونکہ غیر فعال اور بیکار نہیں ہوتی اور وہاں کا ہر فرد ہی مصروف اور کار آمد ہوتا ہے۔ اس لیے ان ممالک میں ''کم وسائل اور زیادہ مسائل'' والا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔

آج کی جدید دنیا میں حکومتیں ہر فرد کو کار آمد اور فعال بنانے کی منصوبہ بندی کرتی ہیں، ہر فرد کو اصلاحات بنانے اور اس کی خاص صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کی مو ثر پلاننگ کی جاتی ہے، ہر فرد کی بنیادی ضروریات خوراک تعلیم و معالجہ اور رہائش کے لیے بہترین پالیسیاں بنائی جاتی ہیں، عجیب بات یہ ہے ایک زرعی ملک میں پیدا وار کو بڑھا نے کی بجائے آبادی کو کم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے، ہمارے حکمران شائد اس بصیرت سے ہی محروم تھے کہ جو قوموں کی ترقی اور انہیں فعال بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ ابھی تک کسی حکومت نے اس عزم کا اظہار نہیں کہ وہ ہر فرد کو ہر قسم کی بنیادی سہولتیں بھی فراہم کرے گی۔

ان کی عالمی معیار کی تعلیم و تربیت کے پروگرام کوبھی عملی جامہ پہنایا جائے گا اور ضروریات زندگی کی ہر شے مہیا کی جائے گی، علاج کی بہترین سہولتیںفراہم کی جائیں گی۔ وسائل بڑھانا ہی حکومتوں کی اعلی کارکردگی کا ثبوت ہوتا ہے، ترقی یافتہ ممالک میں ہر پیدا ہونے والے بچے کے متعلق بہترین پلاننگ کی جاتی ہے، وہاں کا نظام ہی ان بنیادوں پر استوار ہو چکا ہے کہ وہاں پیدا ہونے والا ہر بچہ ریاست کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے، اس بچے کو ہر بنیادی سہولت فراہم کرنا حکومت اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے، وہاں ان ممالک میں شخصیات کی بجائے نظر یات کی سیاست ہو تی ہے، وہاں یہ نظریہ نہیں جانا چاہیے کہ اگر آپ میں مسائل پر قابو پانے کی اہلیت نہیں ہے تو آپ حکومت میں کیوں آنا چاہتے ہیں؟

پاکستان تجارتی عدم توازن کا شکار ملک ہے، اگر یہاں کی نوجوان آبادی کو پیشہ ورانہ تربیت دی جائے اور ملک بھر میں صنعتوں کا جال بچھانے کی منصوبہ بندی کی جائے تو کل کلاں کو یہی آبادی کم نظر آئے گی، ایک ماہر معاشیات کے بقول اگر تجارتی خسارے میں توازن پیدا کرنا ہو تو صنعتوں کی تعداد دْگنا سے بھی زیادہ کرنی ہوگی، سرمایہ کاروں کو اگر مناسب سہولتیں دے دی جائیں اور ملک میں نئی صنعتیں قائم ہو جائیں تو کم ازکم مزید ڈیڑھ کروڑ افراد کی ضرورت ہو گی۔ اگر ایک کارخانے میں صرف 800 افراد بھی کام کرتے ہوں تو اس کارخانے کو مال مشینری اور دوسری اشیاء مہیا کی جاتی ہیں، ان سے منسلک افراد کی تعداد تقریباً 3500 ہوتی ہے۔

پاکستان کی آبادی بہت زیادہ ہر گز نہیں ہے، البتہ موجودہ دور میں غیر فعال اور بیکار افراد یا آبادی بہت زیادہ ہے۔ آبادی کے تناسب سے پیشہ ور افراد کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے، پہلے الیکٹریشن، پلمبر، ترکھان اور تعمیرات سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثرت ہوتی تھی، اب آبادی کے تناسب سے ان پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

اگر سی پیک کا منصوبہ کامیاب ہو گیا اور سی پیک کے اطراف میں صنعتی زون قائم ہو گئے تو یقیناً ہنر مند افراد کی کامیابی کا مسئلہ در پیش ہوگا، اس وقت شائد دوسرے ممالک کے ہنر مندوں کو پاکستان بلوانے کی ضرورت پڑے گی۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان پاکستان کو ریاست مدینہ کی مانند ایک فلاحی ریاست بنانے کے خواہئشمند نظر آتے ہیں، سب سے پہلے وہ پاکستان سے ہر وہ کام اور نظر یہ ختم کریں جو دین اسلام کی ضد ہے، انہوں نے ایک کروڑ ملازمتیں دینے کا وعدہ بھی کیا تھا، وہ اس سے بھی دگنی آبادی کو روزگار دے سکتے ہیں اگر صرف چند ضروری اقدامات پر توجہ اور زور دیں۔

۱) موجودہ مردم شماری کی رو سے ناخواندہ، بے ہنر اور بے کار افراد کی فہرستیں تیار کی جائیں ۔

۲) پرائمری تک لازمی تعلیم کے قانون کو موثر بنایا جائے، حکومت اعلان کرے کہ سات سال بعد شناختی کارڈ حاصل کرنے کے لیے پرائمری تعلیم مشروط ہوگی۔ پرائمری کا امتحان پورے ملک میں متعلقہ بورڈ لے اور وہی پرائمری کی سند جاری کرے۔

۳) دیہی اور پسماندہ علاقوں میں 72فیصدآبادی کوئی ہنر نہیں جانتی یہ لوگ زندگی بھر مزدوری، کھیتی باڑی اور بھٹوں پر کام کر کے گزار دیتے ہیں، ہر علاقے میں فنی تربیت کے مراکز قائم کئے جائیں جہاں مفت ہنر سکھائے جائیں ۔

۴) زیادہ سے زیادہ افراد کو مختلف ہنر سکھا کر بیرون ممالک بھجوانے کی مو ثر منصوبہ بندی کی جائے، کوشش کی جائے کہ ہنر مندوں کے ساتھ ان کے اہل خانہ کو بھی ہمراہ بھجوادیا جائے۔ یہ لوگ نہ صرف خود روز گار کما کر بہتر زندگی گزار سکیں گے بلکہ ملک کو زرِ مبادلہ بھجوانے کا ذریعہ بھی بنیں گے، اور جن علاقوں میں جائیں گے وہاں کی مسلم آبادی میں اضافہ ہوگا۔

۵) بلوچستان کے غیر آباد علاقوں کو آباد کیا جائے۔ بنجر علاقوں کو کار آمد بنایا جائے۔ ایسی پالیسیاں بنائی جائیں اور بلوچستان کو پر امن صوبہ بنایا جائے تاکہ آبادی کا بہاؤ اس طرف زیادہ سے زیادہ ہو، پنجاب میں بھی غیر آباد زمینیں کاشتکاروں کو تقسیم کر دی جائیں ۔

۶) شمالی علاقہ جات میں بھی فصلوں کی کاشت بڑھانے کی کوشش کی جائے اور زیادہ سے زیادہ پہاڑی رقبہ قابل استعمال بنایا جائے، پہاڑی علاقو ں میں زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جائیں۔ اگر شمالی علاقہ جات عالمی سیاحوں کے لیے مکمل طور پر محفوظ بنایا جائے تو ان علاقوں میں ہوٹل انڈسٹری، گائیڈ ز اور دوسری ضروریات زندگی مہیا کرنے کے لیے کم ازکم 4 لاکھ ہنر مندوں ،کاریگروں اور دوسرے افراد کی ضرورت ہو گی ۔

۷) عالمی تجارت بڑھانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے، تمام صنعتوں اور کارخانوں میں فنی تربیت کے قیام کو ضروری بنایا جائے۔ ایسا قانون بنایا جائے اور ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ کارخانوں اور مختلف قسم کی انڈسٹریز میں ہی بے ہنرافراد کی تربیت دیکھ کر ہی ملازمت پر رکھا جائے ہر فیکٹری اور کارخانے میں مین تربیت کا شعبہ لازمًاقائم ہونا چاہیے اور متعلقہ کارخانہ یا فیکٹری تربیت حاصل کرنے والوں کو باقاعدہ ڈپلومہ دے تاکہ وہ کسی اور جگہ بھی ملازمت کر سکیں۔

۸) میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز، انجیئرنگ کالجز اور یونیورسٹیز کے ساتھ اساتذہ کی پیشہ ورانہ مہارت کے لیے بھی ایسے کالجز اور یونیورسٹیز کا قیام عمل میں لایا جائے کہ جہاں اعلٰی اور عالمی معیار کے اساتذہ تیار کیے جا سکیں، اساتذہ کی پیشہ ور مہارت بڑھانے کے لیے ایسے کالجز اور یونیورسٹیز کا قیام اشد ضروری ہے، ایک قابل ماہر تعلیم ہی قوم کو اچھی تعلیم و تربیت دے سکتا ہے۔

۹) پورے ملک میں شخصیت میں نکھار (کپیسٹی بلڈنگ)کے لیے پروگرام منعقد کیے جائیںاور شرکاء کو بتایا جائے کہ اللہ تعالٰی نے ہر فرد کو مخصوص صلاحیتوںکے ساتھ پیدا کیا ہے، اگر وہ ان صلاحیتوںکو بروئے کار لائے تو وہ معاشرے کا فعال ترین فرد بن سکتا۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کے رقبے کو دیکھتے ہوئے اگر آبادی کو دیکھا جائے تو یہ دنیا کے 40گنجان ممالک کے مقابلے میں کہیں کم ہے، اگر مناسب حکمت عملی اپنائی جائے اور امت مسلمہ کے تصورکو اپناتے ہوئے ایک ایک مسلمان کو اسلام کا سپاہی اور فعال فرد بنایا جائے تو یہی ملک اسلام کا قلعہ اور دوسری عوام کی امامت کا حقدار بن جائے گا۔ انشا ء اللہ ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں