جنونی ذہنوں کی تبدیلی
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کا مثبت کردار اور نیوزی لینڈ اور دیگر ممالک کے عوام کا رویہ روشنی کی امید دلاتا ہے۔
KARACHI:
نیوزی لینڈ میں ایک جنونی کے ہاتھوں پچاس سے زائد بے گناہ افراد کی ہلاکت ، قاتل کا اپنی بندوق پر صلیبی جنگوں کی تاریخ لکھنے اور پھر عدالت میں فخریہ انداز میں پیش ہونے اور فیس بک پر اس قتل کا براہِ راست نشر ہونے سے مذہبی جنونیت کی جڑوں کے گہرے ہونے اور جدید ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کے نقصانات پر سنجیدگی سے غور کرنے کا وقت آگیا ہے۔
اس قتل عام پر مسلمانوں سے اظہار یکجہتی اور نیوزی لینڈ کے اظہار ندامت سے محسوس ہوتا ہے کہ ریاست اور عوام میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ اپنے معاشرے کو اس عفریت سے پاک کرنے کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات کریں گے۔ مسلمانوں کا قاتل بنیادی طور پر آسٹریلیا کا شہری ہے، وہ کسی ہیلتھ کلب میں انسٹرکٹر کے فرائض انجام دیتا تھا۔ برنٹن نے پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک کا دورہ کیا تھا، وہ گلگت کی خوبصورتی سے متاثر ہوا تھا۔
اس نے سلواکیہ میں گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والی لڑائی اور لاکھوں مسلمانوں کے قتل کے واقعات کی تاریخ کا مطالعہ کیا تھا اور اس کے دماغ میں بہت زیادہ مسخ شدہ تاریخ جمع تھی۔ اگرچہ اس کے اہل خانہ نے اس واقعے پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ برنٹن نے کبھی اپنے انتہا پسندانہ خیالات کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اس نے جو کچھ کیا وہ ان کے اہل خانہ کے لیے حیرت کا باعث تھا۔ پولیس نے اس قاتل کی اہلیہ کو زیر حراست لیا ہوا ہے، تاکہ اس کے خیالات کا ابلاغ نہ ہوسکے۔
برنٹن کے مجموعی رویے سے واضح ہوتا ہے کہ برنٹن کے ذہن کی تبدیلی کسی ایسے گروہ کی کوششوں کی بناء پر ہوئی ہے جو خاصے عرصہ سے نسل پرستی اور مسلمانوں کے خلاف جنون پھیلانے کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ آسٹریلیا، فرانس اور ہالینڈ میں ایسے گروہ سرگرم عمل رہے ہیں۔ ان گروہوں نے اسلام کے خلاف مواد جمع کرنے اور اس کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان گروہوں کی جنونی سرگرمیوں کی بناء پر امریکا اور یورپی ممالک میں مسلمانوں اور ایشیائی شہریوں پر قاتلانہ حملے ہوئے ہیں۔
آسٹریلیا میں نسلی پرستی کے علمبرداروں کی تحریک خاصی مضبوط ہے۔ یورپ کے کئی ممالک خاص طور پر فرانس، ہالینڈ اور اٹلی وغیرہ میں اس نوعیت کی تحریکیں پائی جاتی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی بنیادی وجہ بھی مسلمانوں، ایشیائی، افریقی اور لاطینی ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو امریکا میں داخلہ سے روکنے کی تحریک کی بناء پر ہوئی۔ اگرچہ پاکستان، بھارت اور ایشیائی اور افریقی کارکنوں نے برطانیہ سمیت یورپ اور امریکا کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان مزدوروں نے کم اجرت کے عوض اپنی محنت بیچ کر ان ملکوں کی صنعتوں کو آزاد معیشت میں دولت کمانے کے مواقعے فراہم کیے مگر گزشتہ صدی میں 80ء کی دہائی سے یورپی مزدوروں اور ایشیائی مزدوروں کے درمیان معاشی تضادات ابھر کر سامنے آئے تھے۔
جب 1977ء میں امریکا نے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مل کر سوویت یونین کے خلاف جہاد کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا تو پاکستان اور افغانستان بھارت کے علاوہ یورپ اور امریکا میں مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔ نائن الیون کی دہشت گردی کو امریکی صدر بش نے عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان قدیم لڑائی کا تسلسل قرار دیا۔ امریکا اور یورپی ممالک میں دہشت گردی کے مسلسل واقعات اور ان واقعات میں مسلمانوں کے ملوث ہونے سے یورپ اور امریکا اور آسٹریلیا میں فضاء تبدیل ہونا شروع ہوئی۔
سفید فام نسل پرستوں نے اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے کا سلسلہ شروع کیا۔ پہلے ہالینڈ میں توہین آمیز خاکے اور کارٹون تیار کیے گئے، ڈنمارک میں چند جنونیوں نے صورتحال کے پس منظر اور اس کے تدارک کے لیے سائنسی طریقہ کار استعمال کرنے کے بجائے سڑکوں پر پرتشدد مظاہروں کا طریقہ کار استعمال کیا۔ کراچی میں ہجوم نے سینما کو آگ لگادی تھی، کئی نوجوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
بین الاقوامی ذرایع ابلاغ نے ان واقعات کو بھرپور طور پر پیش کیا۔ شاید کارٹون بنانے والے یہی چاہتے تھے ، یوں جنون کے مقابلے میں جنون کے جواب سے یورپ اور امریکا میں جنونیوں کے مقاصد پورے ہوگئے اور جدید ٹیکنالوجی خاص طور پر فیس بک کے استعمال نے صورتحال کو مزید کشیدہ کردیا۔ سوشل میڈیا پر تحقیق کرنے والی استاد پروفیسر فلک ناز اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ فیس بک استعمال کرنے والوں کے لیے ایک آپشن رپورٹ کا ہوتا ہے۔
اگر بربریت کے اس واقعہ کو فیس بک پر براہِ راست دیکھنے والے اس آپشن کو استعمال کرتے تو فیس بک کی کنٹرولنگ اتھارٹی کو صورتحال کی سنگینی کا ادراک ہوتا اور وہ اس صورتحال کے تدارک کے لیے فوری اقدام کرتے ہوئے کرائسٹ چرچ کی انتظامیہ کو باخبر کرتی اور اس طریقے سے بہت سے بے گناہوں کی جان بچ جاتی۔ اس بدترین صورتحال میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کا مثبت کردار اور نیوزی لینڈ اور دیگر ممالک کے عوام کا رویہ روشنی کی امید دلاتا ہے۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے کسی دوسرے ملک پر الزام لگانے کے بجائے اس بات کو تسلیم کیا کہ مذہبی جنونی مائنڈ سیٹ اس بدترین صورتحال کا ذمے دار ہے۔ وہ دوپٹہ سر پر اوڑھ کر مسلمانوں کے غم میں شریک ہوئیں اور متاثرہ خاندان کی خواتین سے گلے ملیں اور اعلان کیا کہ آج کا دن نیوزی لینڈ کا بد ترین دن تھا۔ انھوں نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ دہشت گرد قاتل ہے، میں اس کا نام نہیں لوں گی۔ دنیا میں کوئی اس دہشت گرد کا نام نہیں یاد رکھے گا۔ یہ ملک تبدیل ہوگیا ہے۔ انھوں نے اسلحے کی خریدوفروخت پر پابندی کے لیے قانون سازی کا بھی اعلان کیا۔ اس طرح نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں عیسائی مساجد میں زنجیر بنا کرکھڑے ہوگئے تاکہ مسجد میں نماز ادا کرنے والے مسلمانوں کو تحفظ کا احساس ہو۔
آسٹریلیا کے ایک شہری نے مغرب کی اذان کا ٹیپ اپنے گھر میں چلایا۔ نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ کی کارروائی کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ کرائس چرچ کی یونیورسٹی میں اذان دی گئی۔ نیوزی لینڈ میں آباد یہودیوں نے مرنے والے افرادکے سوگ میں اپنی عبادت گاہوں کو بند کیا۔ عیسائیوں نے اپنے چرچ کے دروازے مسلمانوں کے لیے کھول دیے۔ ایفل ٹاور کی لائٹس کو گل کیا گیا مگر مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار زندہ معاشروں کی بنیاد ہے، مگر حقیقی مسئلہ جنونی ذہنوں کی تبدیلی کا ہے۔ یہ تبدیلی اس وقت آسکتی ہے جب نیوزی لینڈ ، یورپ، امریکا اور مسلمان ممالک میں جنونی ذہنوں کی تبدیلی کے لیے ادارہ جاتی اقدامات ہوں۔