دینی سیاسی جماعتیں سیاسی میدان میں ناکام کیوں

مادہ پرستانہ سوچ کو مفاد پرستانہ سوچ کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔


جبار قریشی March 24, 2019
[email protected]

KARACHI: کارل مارکس ایک عظیم مفکر اور دانشور گزارا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ اگر اہل مذہب کی جانب سے کوئی سیاسی دعویٰ کیا جاتا ہے تو یہ موضوع مذہبی نہیں رہتا بلکہ سیاسی بن جاتا ہے اور اسے سیاسی دائرے میں رکھ کر دیکھنا چاہیے۔ آئیے کارل مارکس کی بات کے تناظر میں ہم دینی سیاسی جماعتوں کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں۔

دینی سیاسی جماعتوں میں System یعنی نظام کو اہمیت حاصل ہوتی ہے وہ زندگی کے خارجی ڈھانچے کی تبدیلی کو سب سے بڑا کام بتاتی ہیں ۔ عوام الناس بالخصوص تعلیم یافتہ طبقے کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ انسانیت کی تعمیرکے لیے اصل کام اجتماعی ڈھانچے میں تبدیلی لانا ہے۔ اس کے برعکس تبلیغی جماعتوں میں ساری اہمیت انسان اور فرد کو دی جاتی ہے اور فرد کے اندرونی وجود میں مکمل داخلی انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

تبلیغی جماعتوں کے نزدیک نظام کی تبدیلی کا مزاج اپنے مد مقابل کو اپنا دشمن اور حریف سمجھتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہر وقت ضرب لگانے کی فکر میں مبتلا رہتا ہے۔ یہ طرز عمل مخالف میں ردعمل پیدا کرتا ہے جس سے نفرت اور تصادم کی فضا جنم لیتی ہے جو دعوت و تبلیغ کے لیے زہر قاتل ہے اس لیے نظام کی اصلاح کے بجائے فرد کی ذات میں انقلاب پیدا کیا جائے۔

تبلیغی جماعتوں کے نزدیک ایک شخص جو صحیح معنوں میں مذہبی اور دینی ہوگا زندگی کے جس شعبے میں داخل ہوگا اس کا مذہب اس کے ساتھ رہے گا۔ سیاست میں داخل ہوگا تو اس کی سیاست اصولی ہوگی ، تاجر ہوگا تو اس کی تجارت دیانت دارانہ ہوگی ، جج ہوگا تو اس میں عدل ہوگا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں جواب دہ نہ ریاست ہے اور نہ ہی معاشرہ اور نہ ہی ادارے۔ وہاں فرد اللہ تعالیٰ کے روبرو ہوگا اور اپنے اعمال کا جواب دے گا۔

تبلیغی جماعتیں عرصہ دراز سے اسی فکرکی بنیاد پر اپنا کام انجام دے رہی ہیں لیکن یہ جماعتیں معاشرے کو مکمل اسلامی معاشرہ بالخصوص تعلیم یافتہ طبقے جو معاشرے کے رہنما ہوتے ہیں اس کو متاثر کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں؟ میری ذاتی رائے میں تبدیلی خارجی نوعیت کی ہو یا داخلی نوعیت کی، ایسی صورت میں ہی کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے جب اس کے کام کے حق میں عملی اور فکری فضا موجود ہو اور اس کے مقاصد اور نصب العین کی پشت پر علمی افکار کا وزن شامل ہو۔ تبلیغی جماعتیں زیادہ تر فضائل کی بنیاد پر چلائی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے اسلامی تعلیمات کو عوام الناس بالخصوص تعلیم یافتہ طبقے میں شعوری طور پر منتقل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہ ایک نہایت سنگین خلا ہے جس کو پر کرنا ضروری ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اب آئیے! ہم دینی سیاسی جماعتوں کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں۔ موجودہ دور میں عالمی سطح پر جو تحریکیں اٹھیں ان کا سارا زور نظام بدلنے پر تھا۔ یہ تمام تحریکیں انسان کو مادی وجود قرار دیتی ہیں اس لیے فرد کے اندر انقلاب لانا ان میں سے کسی کا نشانہ نہ تھا جب کہ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ مادی وجود کے ساتھ اخلاقی اور روحانی وجود بھی رکھتا ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اسی بنیاد پر دنیا کے بیشتر حصوں میں دینی سیاسی جماعتوں نے جنم لیا لوگوں کی اکثریت اپنے سماج کی تشکیل میں مذہب کو ایک بنیادی فیکٹر یعنی عامل کے طور پر قبول کرتی ہے تو جمہوری اقدار کا تقاضا ہے کہ ان کے اس حق کو قبول کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی سیاسی جماعتیں سیاسی میدان میں مصروف عمل ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں دینی سیاسی جماعتیں ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ منظم اور متحرک ہیں۔

دینی مدارس کی صورت میں ان کا وسیع نیٹ ورک ہے ان جماعتوں کے پاس مخلص کارکنان ایک اثاثے کی صورت میں موجود ہیں۔ ان کے پاس علمی اور فکری افکار کا اثاثہ بھی موجود ہے جو پڑھے لکھے طبقے کو متاثر کرتا ہے۔ ان تمام خصوصیات کے باوجود دینی سیاسی جماعتیں سیاسی میدان میں ناکام ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں؟ میری ناقص رائے میں اس کی وجہ یہ ہے کہ دین کے تقاضے اور حالات کے تقاضوں میں فرق ہوتا ہے۔ دین کے تقاضوں میں تبدیلی ممکن نہیں ہوتی جب کہ حالات کے تقاضے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ سیاست حالات کے تابع ہوتی ہے۔ دینی سیاسی جماعتیں اگر حالات کو نظرانداز کرکے فیصلے کرتی ہیں تو وہ جمود کا شکار ہوجاتی ہیں اور جب حالات کے تابع ہوکر سیاسی فیصلے کرتی ہیں تو اس سے انکا دینی تشخص متاثر ہوتا ہے۔

جہاں سیاسی تقاضے دینی سیاسی جماعتوں کے تحریکی اور فکری سرمائے سے متصادم ہوتے ہیں وہاں ان جماعتوں میں بے چینی اور فکری انتشار پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے دینی سیاسی جماعتیں بحران کا شکار ہوکر ناکامی سے دوچار ہوجاتی ہیں۔ ماضی میں عورت کی حکمرانی کے حوالے سے محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی مخالفت ایسا معاملہ رہا ہے جو آج بھی موضوع بحث ہے۔

ایسے معاملات لبرل اور سیکولر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی پیش آتے ہیں لبرل اور سیکولر جماعتوں میں اختلاف رائے کو سیاست کا حسن قرار دیا جاتا ہے۔ وہ سمجھوتے کے ذریعے عمل کی راہیں متعین کرتی ہیں۔ دینی سیاسی جماعتوں سے وابستہ ذہن کسی بھی معاملے میں درست اور صحیح کا تعین قرآن و سنت کی روشنی میں کرتے ہیں۔

اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو وہ اسے قبول نہیں کرتے نتیجے میں دینی سیاسی جماعتیں بحران کا شکار ہوکر سیاسی میدان میں ناکامی سے دوچار ہوجاتی ہیں۔ دینی سیاسی جماعتوں سے وابستہ اہل فکر و دانش کو اس پر غور کرتے ہوئے اپنی حکمت عملی واضح کرنی چاہیے تاکہ دینی سیاسی جماعتیں سیاسی میدان میں کامیابی سے ہم کنار ہوسکیں۔ تبلیغی جماعتیں ہوں یا دینی سیاسی جماعتیں اس وقت معاشرے کی ضرورت ہیں۔ اس وقت معاشرے پر مادہ پرستانہ سوچ کا غلبہ ہے۔

مادہ پرستانہ سوچ کو مفاد پرستانہ سوچ کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کیونکہ مادہ پرستانہ سوچ میں انسان کا ذہن کچھ اس طرح کا بن جاتا ہے کہ انسان اپنے مفادات کے تحت ہی سوچتا ہے۔ اس کے نتیجے میں برائیاں اور خرابیاں معاشرے میں جنم لیتے ہیں جب تک معاشرے سے مادہ پرستانہ سوچ کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا معاشرہ برائیوں سے پاک نہیں ہوسکے گا۔ مادہ پرستانہ سوچ کا خاتمہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ انسان کا اس کے مذہب سے تعلق کو جوڑا جائے اور اسے مضبوط بنایا جائے۔ مذہب انسان کو اس کے مقصد حیات سے روشناس کرکے زندگی کو معنی عطا کرتا ہے۔ مذہب ہی وہ واحد کنٹرولنگ فورس ہے جو انسان کے اندر خود احتسابی کا نظام واضح کرتا ہے جس سے انسان برائیوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں