گلستان جوہر کی حالت زار
جب یہ اپنے فرائض دیانتداری کے ساتھ نہیں نبھائیں گے تو ان لوگوں کا کیا فائدہ؟
شہر قائد میں بعض محکموں نے نا اہلی اوراپنے فرائض سے غفلت کی وجہ سے بے شمار لوگوں کو مشکلات سے دو چارکیا ہے، جس مذہب سے ان کا تعلق ہے اس کے مطابق تو راہ کا کانٹا ہٹانا بھی باعث صدقہ ہے، لیکن فرض ناشناسی کے باعث لوگوں کا جینا دو بھرکردیا ہے، عملہ و افسران بالا کا یہ حال ہے کہ وہ کبھی اپنی سیٹ پر نہیں ملتے ہیں، ضرورت مند ان سے ملنے اور اپنے مسائل کے حل کے لیے میلوں کا سفر طے کرکے پہنچتے ہیں لیکن یہ حضرات غائب، گویا ملنا ہی نہیں چاہتے ہیں، صارفین بل ادا کرتے ہیں اگر ادا نہ کریں تو ایک بڑی رقم کا بل بناکر بھیج دیتے ہیں، جس کی ادائیگی آسان نہیں ہے ۔
کام کرنے کے حق میں یہ نہیں ہیں ان کے اسی غیر انسانی رویے نے محلوں، علاقوں اور گلیوں کو غلاظت سے بھردیا ہے ۔ بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ گٹر ابل رہے ہیں، سیوریج کی لائنیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، سڑکوں اور لوگوں کے گھروں کے سامنے گندا اور بدبو دار پانی بہہ رہا ہے اور یہ ادارہ گونگا بہرہ بنا ہوا ہے ، بس تنخواہوں اور دوسرے ذرائع سے پیسوں کا حصول ان کی زندگی کا مقصد ہے، کھاؤ، پیو، عیش کرو اور مر جاؤ، بالکل جانورکی طرح لیکن اگر غورکیا جائے تو جانوروں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں جن پر وہ عمل پیرا ہوتے ہیں لیکن یہ غیر ذمے داران، انسانی قدروں سے ناواقف اپنے ہی مفاد پر نگاہ رکھتے ہیں ، ان کی اسی بے حسی سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
کراچی کے بے شمار علاقے ایسے ہیں جہاں گٹروں کے کھلے ڈھکن معصوم بچوں کو نگلنے کے لیے منتظر رہتے ہیں۔ تھوڑے سے وقفے کے بعد ہی انتظارکی گھڑیاں ختم ہوجاتی ہیں اور کسی ماں کی گود اجڑ جاتی ہے، ایسا آئے دن ہوتا رہتا ہے۔ لیکن کنٹونمنٹ بورڈ کے انجینئر جن کے پاس اختیارات ہیں وہ دوروں پر رہتے ہیں ، ان کی بلا سے شہر میں بیماریاں پھیلیں، اموات اور حادثات ہوں وہ ان تمام باتوں سے بے خبر رہتے ہیں۔ انھیں احساس نہیں کہ ان کی ہی وجہ سے گھروں کا چین و سکون غارت ہوچکا ہے ، صفائی ستھرائی ناپید ہوگئی ہے، کوڑے کچرے کے انبار جگہ جگہ لگے نظر آتے ہیں یہ چشم پوشی کرکے اپنی رسی کو درازکرتے ہیں، لیکن کب تک ایک وقت ضرور آتا ہے جب رسی کھینچ لی جاتی ہے اور یہ سب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔
اللہ رب العزت نے ڈھیل دینے کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے لیکن جب بندہ پکڑ میں آتا ہے تو اسے کوئی نہیں چھڑا سکتا ہے۔ یہ معاملہ تمام ان لوگوں کے ساتھ ہے جو حقوق کی ادائیگی اور مخلوق خدا کی خدمت نہیں کرتے ہیں اور ناجائز دولت کمانے کو ایمان سمجھتے ہیں۔ گلستان جوہرکا شمار صاف ستھرے علاقوں میں ہوتا ہے ،کشادہ اور صاف سڑکوں کے ساتھ ساتھ ہرے بھرے درخت بھی دلکشی کا باعث ہیں یہاں فلیٹس اور گھروں میں بے شمار لوگ آباد ہیں ان میں سے اکثریت تعلیم یافتہ اور شرفا پر مشتمل ہے لیکن گزرے دنوں میں گلستان جوہر خصوصاً بلاک 13 کے مکینوں نے بہت دکھ اٹھائے اور انھیں بنیادی ضرورتوں سے محروم کردیا گیا۔ اس میں واٹر بورڈ کا ادارہ پیش پیش تھا۔
واٹر بورڈ کے ایم ڈی اور منتظمین نے پانی کی لائنیں فروخت کرنی شروع کردیں اس طرح N کیٹیگری کی تینوں گلیاں اور تقریباً 100 گھر متاثر ہوئے اور وہ پانی کی بوند بوند کو ترس گئے اور اگر کبھی پانی آیا بھی تو اس میں سیوریج کا گندہ پانی شامل ہوگیا۔ اسی طرح ٹینک گندہ اور پاکی ناپاکی کے مسئلہ پیدا ہوا۔ نہانا، دھونا، وضو کرنا مشکلات میں اضافے کا باعث بنا۔ حالات اس قدر بگڑے کہ لوگ بددعا کرنے پر مجبور ہوگئے اس کی وجہ کوئی پرسان حال نہ تھا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا افسران بالا سے نیچے کم تر عہدے والے بھی روپے پیسے کی بندر بانٹ میں مصروف رہے اور پانی کا اب بھی یہی حال ہے لوگ ٹینکر منگوانے پر مجبور ہیں ۔ تنخواہ کا چوتھائی حصہ پانی خریدنے پر خرچ ہوتا ہے اور ٹینکر کی قیمت 4 ہزار اور آٹھ ہزار سے کم نہیں ہے آدھا ٹینکر خریدیں یا پورا ایک بڑی رقم کی ادائیگی کرنی لازم و ملزوم بن چکی ہے۔
حکومت بدل گئی، نیا پاکستان وجود میں آگیا لیکن بے شمار مسائل جوں کے توں ہیں ، بے شک پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے خارجی حالات قابل تعریف ہیں، عمران خان اور ان کے ساتھی ملک و قوم کی خدمت خلوص دل کے ساتھ کر رہے ہیں، بڑے بڑے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، تعلیمی نظام میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، مزید ہوں گی لیکن اندرونی حالات اور اداروں کی کارکردگی صفر ہے۔ ہمارے صوبہ سندھ کے حالات اب تک ابتر ہیں ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہے اندرون سندھ اور بیرون سندھ ابھی تک مشکلات سے نہیں نکلا ہے۔پانی، گیس، صفائی ستھرائی اور گلیوں میں بنی ہوئی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ بے شمار گھروں سے گیس بھی گھنٹوں غائب ہوجاتی ہے۔
اسی طرح کوڑے کرکٹ کے جمع شدہ تعفن نے سانس لینا دوبھر کردیا ہے۔ ممبر قومی اسمبلی علی زیدی بھی لگتا ہے چھٹیوں پر ہیں، لوگ خوش تھے کہ اب کام ہوگا اور بنیادی ضرورتیں پوری ہونے کا وقت قریب آگیا، لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا اور سہانے خواب چکنا چور ہوگئے۔ کنٹونمنٹ بورڈ میں جو علاقے شامل ہیں اور جن کے وہ ماہانہ بل کی شکل میں رقم وصول کرتے ہیں ان علاقوں کے صارفین پابندی کے ساتھ بل ادا کرنے کے باوجود یتیمی کا شکار ہیں۔
بلاک 13 کے مکینوں نے بارہا حکام بالا کی توجہ مبذول کروائی، درخواستیں دیں لیکن نتیجہ صفر۔ کوئی سنوائی نہیں ہوئی اور آج حالات یہ ہیں ٹوٹے گٹروں اور سیوریج کی لائنوں سے گندہ پانی بہہ کر لوگوں کے دروازوں پر آکر جمع ہوجاتا ہے اگر مذکورہ ادارہ مکانات کے سامنے پختہ سڑکیں بنوا دیتا تو حالات مختلف ہوتے لیکن وہ کوئی ایسا کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جس میں ان کا ذاتی فائدہ نہ ہو، سڑکیں بنائی جاتی ہیں تو پیوند کاری کی شکل میں کہیں 20 فٹ یا پھر پچاس اور 100 فٹ سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے۔ پیسہ خرچ کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ جو کوئی بڑی سفارش لے آتا ہے تو بھیگی بلی بن کر دم ہلانا شروع کردیتے ہیں اور راتوں رات ٹوٹے راستوں اور سڑکوں پر تارکول بچھا دیا جاتا ہے اور صبح ہوتے ہی کام تقریباً مکمل ہو جاتا ہے۔
یہ فرسودہ اور ناقص نظام آخر کب بدلے گا۔ سندھ حکومت کب عملی طور پر میدان میں کودے گی اس علاقے سے کامیاب ہونیوالے علی زیدی کبھی اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر ایسے علاقوں خصوصاً بلاک 13 کا بھی دورہ کرلیں اور اسی کی طرح بہت سے محلے بدبودار پانی اور مچھروں کی یلغار میں جی رہے ہیں ان کے بچے بارہا گٹروں میں گر کر جان کی بازی ہار گئے ہیں ان کے گھروں میں غم، مایوسی اور دکھوں نے جگہ بنائی ہے پہلے ہی کون سے آسودہ حال اور خوشحالی کی زندگی بسر کر رہے تھے ۔ اس کے ساتھ بنیادی ضرورتوں کی محرومی نے انھیں جیتے جی مار دیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کون کون سی ذمے داری نبھائیں گے یہ وزرا، ارکان اسمبلی کس لیے منتخب کیے جاتے ہیں، جب یہ اپنے فرائض دیانتداری کے ساتھ نہیں نبھائیں گے تو ان لوگوں کا کیا فائدہ؟ ایسے لوگوں کو ہٹا کر ان لوگوں کو مواقع فراہم کرنا چاہئیں جو کام کرنا چاہتے ہیں، جنھیں اپنے ملک سے محبت ہے اور جو خوف خدا رکھتے ہیں اللہ کا خوف وہ چیز ہے جو انسان کو راستی کی راہ سمجھاتی ہے جب کہ فرعونیت انسانوں کی زندگیوں میں زہر گھولنے کے لیے کافی ہے ۔