ہم بھی ظرف پیدا کریں
رنگ اور نسل کی تمیز کے بغیر نیوزی لینڈ کے شہریوں نے اس مسجد میں جا کر پھول، موم بتیاں اور تعزیتی پیغامات چھوڑے ہیں۔
دس دن ہو گئے ہیں آج اس سانحے کو کہ جس کے بارے میں سوچ کر اب بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ فیس بک اور واٹس ایپ پر اپ لوڈ کی گئی وڈیو کو کھول کر دیکھ رہی تھی تو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کسی نے وڈیو گیم کھیلتے ہوئے اسے لائیو اپ لوڈ کیوں کیا ہے اور اسے کسی نے مجھے کیوں بھیجا؟
اس کے بعد اس سے اگلا پیغام آیا کہ نیوزی لینڈ میں جمعے کی نماز کے دوران مسجد میں ایک جنونی نے حملہ کر کے اس کی لائیو وڈیو وائرل کی ہے۔ نیوزی لینڈ بہت سے حوالوں سے ہم سے بہت آگے ہے مگر وقت کے مطابق بھی ہم سے آٹھ گھنٹے آگے ہے، سو جس وقت یہ المناک واقعہ پیش آیا اس وقت ہمارے ہاں شاید فجر کا وقت ہوا ہو گا۔
لمحوں میں ہی یہ بریکنگ نیوز ہر طرف میڈیا اور سوشل میڈیا پر پھیل گئی اور اس جنونی قاتل کا شہرت حاصل کرنے کا مقصد پورا ہوا۔ شہرت جو یقیناً منفی ہے اور اس کے باعث نیوزی لینڈ میں بھی اس کے اس اقدام کی ہر حلقے سے شدید مذمت ہوئی ہے اور بالخصوص ان کی وزیر اعظم کی طرف سے اظہار شرمندگی اور مسلمانوں کے ساتھ یک جہتی نے ان کی شخصیت کو ہم سب کی نظروں میں بلند کر دیا ہے۔ ہمیں وہ اس لیے اچھی لگ رہی ہیں کہ انھوں نے اپنا اخلاقی فرض نبھایا ہے اور جو نقصان ہوا، اس کی نہ کوئی تلافی کر سکتا ہے نہ ازالہ مگر ہمارے نقصان کو اپنا نقصان سمجھنا، ہمیں حرف تسلی کہنا اور اس شخص کا نام بھی لینا گوارا نہ کرنا جس نے اس تن تنہا اس گھناؤنے اقدام سے پچاس مسلمانوں کو جمعے کے اجتماع کے وقت شہید کر دیا اور دیگر زخمی ہیں۔
پچاس نمازیوں کی شہادت پچاس داستانوں کا مجموعہ ہے، ان لوگوں کی داستانیں جو اپنے وطن سے دور، کسی نہ کسی وجہ سے دیار غیر میں تھے اور کسی جنونی کے جنون کا نشانہ بن کر امر ہو گئے... جام شہادت نوش کیا اور ابدی زندگی پا گئے۔ اس دن سے لے کر آج تک کوئی دن ایسا نہیں جب کسی نہ کسی طرف سے اس غیر مسلم کے لیے دنیا بھر سے مذمتی پیغامات نہ موصول ہو رہے ہوں ۔ شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی غیر مسلمان کی دہشتگردی کو اس کی دماغی حالت میں خرابی کا کہہ کر نظر انداز نہیں کیا گیا اور اسے ایک دہشتگرد ہی کہا گیا ہے جس نے انسانیت کا خون کیا ہے ۔ دنیا میں ہر دہشتگردی کے ڈانڈے مسلمانوں سے یا بالخصوص پاکستان سے ملانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے... اس بار بھی کسی نہ کسی طرح ایسی بات پھیلانے کی کوشش کی گئی کہ مجرم گزشتہ برس اکتوبر میں پاکستان میں تھا ، ایساکسی کم عقل اور نادان اینکر پرسن کی طرف سے کہا گیا جس کے باعث سوشل میڈیا پر ان پر خوب تنقید بھی ہوئی۔
2006 میں نیوزی لینڈ میں چھتیس ہزار بہتر مسلمان تھے... 2013 میں یہ تعداد 28 فیصد بڑھ کر چھیالیس ہزار ایک سو انچاس ہو گئے تھے۔ اب ہم اس میں اسی شرح سے ممکنہ اضافہ دیکھیں تو لگ بھگ ساٹھ ہزار کے قریب ہو گی۔ نیوزی لینڈ میں مسلمان اور دیگر اقلیتیں، اس وقت ان کی کل آبادی کا ایک فیصد ہیں ۔ یہ تعداد ہمارے ہاں کی ہندو اور عیسائی اقلیتوں سے کہیں کم ہے۔ اس وقت ہندو لگ بھگ تین اعشاریہ چھ اور عیسائی دو اعشاریہ پانچ ملین ہیں ۔ ہمارے ہاں اقلیتیں ہماری کل آبادی کا ایک اعشاریہ چھ فیصد ہیں ، ان اقلیتوں میں ہندو اور عیسائی بڑی اقلیتیں ہیں اور ان کے علاوہ سکھ، پارسی اور دیگر مذاہب ہیں ۔
ہم نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی طرف سے اب تک کے بیانات اور تقاریر، ان کے حلیے، مسجد میں سے بلند ہونے والی اذانوں اور ان مساجد کو دیکھنے کے لیے جانیوالوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں جان کر خوش ہیں کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور اس ملک میں ایک چھوٹی سی آبادی ہیں جہاں پر اس سانحے کے بعد لوگوں میں اسلام کے بارے میں جاننے کا شوق جاگا ہے۔ یہ اسلام کے لیے ایک مثبت رویہ ہے۔ مجرم نے اپنی گن پر جو جو کچھ کندہ کر رکھا تھا اس سے اس کی مسلمانوں کے خلاف نفرت کا برملا اظہار ہوتا ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کئی صدیوں سے ہونیوالے واقعات کے تناظر میں مسلمانوں سے انتقام کی ایسی آگ میں بھڑک رہا تھا اور اس نے بربریت کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ نیوزی لینڈ کی دوسری بڑے یونیورسٹی ، کینٹر بری یونیورسٹی سے بلند ہونے والی اذان کی آواز، اس کویتی طالبعلم کی آواز میں جو گزشتہ جمعے کو اس مسجد میں فائرنگ کی زد میں آنے سے محفوظ رہا تھا، بلاشبہ ایک اورقسم کی نئی تاریخ رقم کر نے کے لیے تھی، ورنہ کون سوچ سکتا تھا کہ کبھی اس یونیورسٹی سے اذان کی آواز بلند ہو سکتی تھی!!
ایک چینی مسلمان خاتون کی لکھی گئی ایک نظم سوشل میڈیا پر گردش میں ہے، اس نے بہت خوبصورت انداز میں اس واقعے سے ہونیوالے نقصانات کے ساتھ ساتھ اس کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے، ایسے مثبت نکات کو ایک عام نظر نہیں دیکھ سکتی۔ دکھ اور کرب اپنی جگہ مگر اس واقعے کے نتیجے میں وہ تمام لوگ جو شہید ہوئے ان کا مقام ان کے اللہ کی نظر میں اور اس دنیا کی نظر میں کتنا بلند ہو گیا ہے۔ اس سے قبل کسی غیر مسلمان کو علم بھی نہ ہو گا کہ اس علاقے میں کوئی مسجد بھی ہے... کیونکہ دیار غیر میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی ہوتی ہے اور اذان بغیر لاؤڈ اسپیکر کے دی جاتی ہے، اس واقعے کے بعد نہ صرف اس علاقے ، اس شہر یا نیوزی لینڈ کے باشندوں کو علم ہوا ہے کہ وہاں پر مسجد النور ہے بلکہ دنیا بھر کو اس کاعلم ہو گیا ہے۔ دنیا بھر کو علم ہو گیا ہے کہ اسلام امن اور آشتی کا مذہب ہے اور ہمارے عبادت گاہوں کے دروازے سب پر کھلے ہوتے ہیں۔
رنگ اور نسل کی تمیز کے بغیر نیوزی لینڈ کے شہریوں نے اس مسجد میں جا کر پھول، موم بتیاں اور تعزیتی پیغامات چھوڑے ہیں۔ وہاں دوسروں کی جان بچانے کی خاطر خود اپنی جان قربان کر دینے والوں کی مثالیں بھی قائم ہوئی ہیں جن کا تذکرہ دنیا بھر میں ہے۔ مسجد نور میں جا کر اس سانحے پر اشکبار ہونے والی آنکھوں میں مسلمانوں کی آنکھیں بھی ہیں اور غیر مسلموں کی بھی۔ یک جہتی کے اظہارکے لیے وہ اپنا مذہب بھول کر مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں ۔
اب آپ سوچیں... ہمارے ملک میں بھی اقلیتیں ہیں، ان کے ساتھ بھی حادثات اور سانحات ہوتے ہیں۔ کہیں ان کے حقوق سلب ہو رہے ہوں ، ان کی مذہبی یا شخصی آزادی پر پابندی ہو یا ان پر کوئی غلط الزام لگ جائے اور اس کی حمایت میں ہمارے سرکردہ افراد میں سے کوئی کھڑا ہو، ہمارا کوئی وزیر یا اہل کار، ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے ان کی طرح کا لباس پہن لے... ان کی خوشی کے لیے ان کے کسی تہوار میں شامل ہو جائے تو ہمارا ظرف اتنا بڑا ہے کہ ہم اسے برداشت کر لیں؟؟ کفر کے فتوے نہ دیں ؟ غیر مسلموں کی حمایت کرنیوالے پر واجب القتل ہونے کے فتوے جاری نہ کر دیں؟
میں نے کینیڈا میں، ان کے وزیر اعظم کو ماہ رمضان میں مسلمانوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر افطاری کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے، انھیں اپنے لوگوں کے ساتھ مل کر شام کے مہاجرین کے لیے اپنے ہاتھوں سے ریلیف پیک بناتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ عید پر ہمارا دیسی پاجامہ قمیض پہن کر ٹیلی وژن پر السلام علیکم سے آغاز کر کے عید مبارک پر اختتام ہونے والی تقریر کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ اگر اس سب کو شہرت حاصل کرنے کے لیے ڈرامہ بھی سمجھ لیا جائے تو کسی نے ان کے اس اقدام پر اعتراض کیا نہ انگلی اٹھائی کہ وہ غیر عیسائی ہوگئے ہیں۔ وہ ہندوؤں اور سکھوں کے تہواروں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ اس کے باوجود اس وقت وہ دنیا کے سب سے پاپولر وزیر اعظم کے طور پر مانے جاتے ہیں ۔
ہمارے ہاں بھی جو بھی کرسیء اقتدار پر ہے وہ سب کے لیے ایک برابر ہے ، وہ مسلمانوں کا نہیں بلکہ پاکستانیوں کا سربراہ ہوتا ہے اور اس کے لیے سب پاکستانیوں کی خوشی اور مفادات کا تحفظ کرنا فرض ہے نہ کہ صرف پاکستانی مسلمانوں کا۔ وہ صرف مسلمانوں کے نہیں بلکہ باقی مذاہب کے لوگوں کے ووٹوں سے جیت کر اس مقام تک پہنچتا ہے ۔ ہم نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کے اقدامات کو اگر مثبت اقدامات سمجھتے ہیں تو یہی اقدامات ہمارے لیڈروں کے ساتھ منفی کیوں ہو جاتے ہیں۔ ہم تو اس مذہب کے ماننے والے ہیں جو سب سے پہلے باقی مذاہب کے لیے برداشت اور گنجائش پیدا کرنے کا درس دیتا ہے۔ نقصان تو جو ہوا سو ہوا مگر اس کے نتیجے میں ہم چاہیں تو اپنی سوچ کو بدل سکتے ہیں ، کئی چیزیں جو اس سے پہلے کسی نے ہوتے ہوئے نہیں دیکھیں ، مسلمانوں کا ایک مثبت تاثر دنیا پر قائم ہوا ہے، اسے قائم رہنے دیں اور ہمارے ہاں جو اقلیتیں ہیں انھیں بھی حسن سلوک کا حقدارسمجھیں۔