سویر چاہیے یا اندھیر
بلایا تو وہ ملنگی کے نام سے جاتا تھا لیکن بظاہر اس میں ملنگوں والی کوئی بات نہ تھی۔ شکل و شباہت اور کپڑوں کے...
بلایا تو وہ ملنگی کے نام سے جاتا تھا لیکن بظاہر اس میں ملنگوں والی کوئی بات نہ تھی۔ شکل و شباہت اور کپڑوں کے پہناوے سے اچھا بھلا تعلیم یافتہ جنٹلمین دکھائی پڑتا تھا۔ لیکن شہرت غنڈوںبلکہ مہا غنڈوں کی رکھتا تھا۔ لوگوں سے بڑا مودب ہو کر ملتا اور بات چیت کے دوران نیاز مندانہ مسکراہٹ اس کے چہرے پر ہوتی۔ دو ایک بار میرے سامنے گزرتے ہوئے تعظیماً جھکا تو میں نے بھی اچھا تاثر لیا اور سوچا شاید یہاں بھی بد اچھا بد نام برا والا محاورہ مستعمل ہو رہا ہو۔
کسی ضلع کے ایک پر فضا جنگل میں ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران فلم کی مشہور ہیروئن کو ایک ڈانسنگ سین کے عین بیچ میں سے کسی غنڈہ پارٹی نے اسلحے کے زور پر اغوا کر لیا۔ پولیس نے ملنگی کو گروہ کا سرغنہ ظاہر کر کے دوسرے دن اسے حراست میں لے لیا۔ پولیس نے ملنگی کو جس مجسٹریٹ کے پاس پیش کیا وہ ملنگی سے سوال جواب کے دوران اس قدر مطمئن اور اتنا متاثر ہوا کہ اس کا پولیس ریمانڈ بھی نہ دیا۔ اس سے اگلے روز مغویہ خود مجسٹریٹ کے رو برو پیش ہوئی اور بیان دیا کہ وہ بالکل اغوا نہیں ہوئی بلکہ راستہ بھول کر دور نکل گئی تھی۔ معاملہ اور مقدمہ رفع دفع ہو گیا۔ فلم کا عملہ چلاتا رہ گیا کہ اغوا کا واقعہ مبنی بر حقیقت ہے۔ بعد میں مغویہ نے قریبی دوست کو بتایا کہ اگر وہ عدالت میں جھوٹا بیان نہ دیتی تو اس کا فلمی کیرئیر برباد اور نام بد نام ہونا تو الگ شاید زندہ بھی نہ بچی ہوتی اور یہ کہ ملنگی خونخوار بھیڑیا ہے۔
مذکورہ بالا کئی سال پرانا واقعہ مجھے اس وقت یاد آیا جب قسم قسم کے جرائم کی تفصیل پڑھ پڑھ کر میں نے اخبارات اور چینلز پر سزائوں کا خانہ بالکل خالی پایا اور تجزیہ کرنے پر نتیجہ اخذ کیا کہ اگر صورت حال یونہی رہی تو کس کام کی پولیس اور کس مقصد کی فوجداری عدالتیں کیونکہ خدانخواستہ اس لاقانونیت اور دہشت گردی کا گراف اسی رفتار سے اوپر ہی اوپر چڑھتا چلا گیا تو خاکم بہ دہن امن پسند شہری نقل مکانی کی رفتار تیز کر دیں گے اور یہاں خلق خدا کی بجائے شیاطین کا راج ہو گا۔
دشمن یا کریمنل تو ایک مقصد کو پیش نظر رکھ کر جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور اگر ٹارگٹ کوئی فرد مخصوص ہو یا افراد ہوں تو جرم کی وجہ سمجھنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی ۔ لیکن اگر ملک کے انسداد جرائم و دہشت گردی کے ادارے خود و دیگر تعلیمی ادارے، مارکیٹیں، عبادت گاہیں' اسپتال اور مزار نشانہ بننے لگیں توحکومت کے تمام اداروں کو مل بیٹھ کر ملک' اپنے آپ اور اداروں کے تحفظ اور جرائم کی بیخ کنی کے لیے شیاطین کی تربیت گاہوں' اڈوںاور بنیادوں کو ملیامیٹ کر دینے سے کم پر ہاتھ نہیں روکنا ہو گا۔ لیکن نہ ایسا ہوتا نظر آ رہا ہے نہ Clear Cut ان کی نشاندہی ہو رہی ہے۔ اور اگر کوئی مجبوری آڑے آرہی ہے تو اس کی وضاحت یا مجبوری عوام الناس کو بتائی جانی چاہیے تا کہ ہر شہری خود حفاظتی انتظام کر کے حکومت پر تکیہ کرنا چھوڑ دے۔ لیکن اس کے نتیجے میں جو انارکی پھیلے گی صرف فوج کو دعوت دینے کے مترادف ہو گی تو پھر شاید اس شعر کی صورت نظر آئے کہ
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جن جن ممالک میں اپنے اپنے مذاہب کے نام لیوا حقوق العباد پر زیادہ توجہ دیتے ان کا پرچار کرتے اور ان کی خلاف ورزی پر فوری تادیبی کارروائی کرتے ہیں، وہ زیادہ مہذب اور پر امن بھی ہیں، وہ بد امنی پر فوری قانونی گرفت کرتے اور انسانی حقوق یعنی جان مال عزت وغیرہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اس کے برخلاف وہ ملک اور معاشرے جو حقوق اللہ کا بہت زیادہ پرچار کرتے لیکن ان سے روگردانی کرتے اور قانون خود ہاتھ میں لے کر شدت پسندی کو حکم الٰہی گردانتے ہیں، معاشرے اور ملک میں تشدد اور لاقانونیت کا باعث بنتے جا ہے ہیں جس کی مثال ہمارا اپنا اور چند دیگر ممالک ہیں۔ شرم اور افسوس کی بات ہے کہ ہمارا ملک اقوام عالم میں دہشت گردی اور مذہبی منافرت کا گڑھ کہہ کر پکارا جاتا اور اس کا پاسپورٹ بے توقیر ہے۔ اب تو بدقسمتی سے اخبار اور الیکٹرانک میڈیا پر نظر ڈالتے ہوئے لوگوں کے دل کی غیر معمولی دھڑکن اور خوفزدگی روز مرہ اور معمول کی بات ہو چلی ہے۔
ماہ صیام کے تیس دنوں میں شاید ہی کوئی دن دہشتگردی کے واقعے کے بغیر گزرا ہو۔ اس درندگی، یعنی بم دھماکوں اور خود کش بمباروں کے نتیجے میں نہتے معصوم سویلین مرد و زن اور بچوں کے علاوہ سرحدوں اور شہریوں کے محافظ ڈیوٹی پر مامور افراد بھی لقمہ اجل بنے۔ یہ سب مسلمان ہونے کی وجہ سے شہید کہلائیں گے۔ ثابت ہوا کہ ان شہادتوں کے ذمے دار مسلمان نہیں کہلا سکتے۔ لیکن ان سب نہتے بلاوجہ مرنے والوں پر اظہار ہمدردی اور مارنے والوں کی بابت اظہار مذمت ماسوائے مذہبی رہنمائوں کے ملکی و غیر ملکی ہر کسی نے کیا۔ اس سے یہی مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے ان بزعم خود چنیدہ مذہبی و دینی شخصیات کے مطابق یہ تمام بمبار یا قاتل غازی، لیکن مقتول کافر ٹھہرے۔ یہ نقطہ نظر ہر کسی کے لیے اور بطور خاص حکمرانوں اور محافظوں کے لیے غور و توجہ طلب ہے۔ اور اگر ان کے نزدیک یہ ظلم لاقانونیت ہے اور اینٹی اسٹیٹ کام ہو رہا ہے تو وہ کیوں دھینہ پیئے بیٹھے اور ملک کے مفاد کے خلاف دہشتگردی پر عملاً خاموش ہیں۔ عید کے دن سے ایک روز قبل ایک محافظ یعنی پولیس افسر ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوتا ہے جب کہ اس کی نماز جنازہ پر ایک خود کش بمبار پولیس لائنز میں دوران نماز خود کو دھماکے سے اڑا کر 30 سے زیادہ کو شہید اور ساٹھ سے زیادہ پولیس اہلکاروں کو شدید زخمی کر کے دھوکے کی جنت کی طرف ٹکڑے ٹکڑے ہو کر روانہ ہو جاتا ہے۔
اس وقت فوری طور پر آل پارٹیز کانفرنس ضروری ہے جس کے ذریعے اس قسم کی دہشت گردی کے حمایتیوں کی ان کے موقف سمیت نشاندہی ہو جائے گی۔ اور دہشت گردی کے عفریت کا سر کچلنے کے لیے لائحۂ عمل ترتیب دیا جا سکے گا۔ یہ موقف یا سوچ نا ممکنات میں سے ہے کہ ہماری ایجنسیوںکے پاس دہشت گردوں کی تربیت گاہوں' کمین گاہوں' ان کی پشت پناہی کرنے والوں' مقامی و غیر ملکی ذرائع سے مدد لینے والوں کی مکمل تفصیل موجود نہیں۔ حقیقتاً یہ نیت و ارادے کا فقدان اور ذمے داری اٹھانے میں ہچکچاہٹ کا اظہار اور بعض شر پسند ناقدین کا خوف ہے، لیکن ملک کی عزت اور اس کے وقار کی پروا نہیں۔ برائی جو دہشت گردی اور ملک کی سالمیت کے در پے ہے سوات جیسے آپریشن ہی سے ملک کی بقا کی ضامن ہو سکتی ہے۔
جمہوری حکومت اور آرمڈ فورسز کے لیے آج ایسا چیلنج ہے جس میں تاخیر کی گنجائش نہیں رہی۔ گومگو کی کیفیت برقرار رہی تو دیر ہو سکتی ہے جس کا نتیجہ اندھیرے کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ آل پارٹیز کانفرنس Live دکھائی جائے تاکہ ہر پاکستانی کو پتہ چل جائے کہ کون کون سی پارٹی درحقیقت کس کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ کون استحکام چاہتا ہے اور کون انتشار۔ کون محب وطن ہے اور کون دشمن کا کارندہ اور کون کس کے Pay roll پر ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس، جس میں آرمڈ فورسز سمیت ایک مربوط ایجنڈے پر اتفاق ہو، وقت کی فوری ضرورت ہے کیونکہ ایسے کاموں میں دیر ہو جائے تو اندھیر ہی پڑتا ہے۔ کون سا پاکستانی ہے جو دہشت گردی کا قلع قمع نہیں چاہتا۔ لائیو آل پارٹیز کانفرنس معصوم اور گمراہ پاکستانیوں کے چودہ طبق روشن کر دے گی۔