آئی جب اُن کی یاد تو آتی چلی گئی
وطن واپس آتے تو نئی نئی اور مشہور کتابوں سے لدے پھندے ہوتے
مو بائل فون پرمحترمہ بیگم ستار طاہرنے یاد دلایا ہے کہ25مارچ کو ستار طاہر مرحوم کی26 ویںبرسی منائی جا رہی ہے۔اُن کی یاد میںاکادمی ادبیات گلبرگ (لاہور) سہ پہر تین بجے ایک نشست کا اہتمام بھی کررہی ہے ۔ محترمہ بیگم ستار طاہر نے مجھے حکم دیا ہے کہ اس نشست میں شرکت کروں کہ مرحوم ستار طاہر صاحب سے میرا بھی کچھ تعلق رہا ہے ۔موبائل میسج ملتے ہی ستار طاہر صاحب مرحوم سے وابستہ کئی یاد یں برس کر رہ گئی ہیں ۔حیرانی ہُوئی کہ انھیں رخصت ہُوئے ڈھائی عشرے سے زائد کا عرصہ اتنی سرعت سے بِیت گیا ہے۔
یہ توابھی کل ہی کی بات لگتی ہے ۔ یاد آیا کہ مارچ کے آخری ہفتے کے یہی دن تھے جب وہ ہم سے رخصت ہُوئے تھے۔ اُن دنوں وہ ماہنامہ ''قومی ڈائجسٹ'' سے وابستہ تھے ۔ مجھے بھی اِس شاندار جریدے کی خدمت کرنے کا اعزاز حاصل رہا ہے ۔ ستار طاہر مرحوم جس محنت ، شوق اورعرق ریزی سے لکھتے تھے، یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھے ہیں ۔ مجھے حیرت ہوتی تھی ، اور یہ حیرت اب تک قائم ہے، کہ اتنے متنوع موضوعات پر اتنی تیزی سے وہ کیسے انصاف کر پاتے ہیں! ستار طاہر صاحب نے انگریزی کے بے شمار مضامین اور بہت سی تصنیفات کے تراجم کیے ، لیکن اُن کے ہر ترجمے پر تخلیق کا گمان ہوتا تھا۔ موٹے عدسوں کا چشمہ لگائے میرے سامنے ہی وہ اپنی میز پر تشریف رکھتے تھے ۔کم ہی گفتگو کرتے تھے ۔
سگریٹ پھونکتے تھے یا سر جھکائے لکھنے میں مگن رہتے تھے ۔ مجھے یاد پڑتا ہے، سگریٹ سلگانے سے قبل وہ سینے پر لگی اپنی بائیں جیب کچھ لمحوں تک ٹٹولتے رہتے اور پھر آہستگی سے سگریٹ کی ڈبیا نکالتے ۔ مجھے سگریٹ کے دھوئیں سے تکلیف تو ہوتی لیکن مارے ادب کے خاموش رہتا ۔ قلم کا بادبان کھولنے سے قبل وہ دو اخبارات کا مطالعہ بھی ضرور کرتے تھے ۔ کسی کتاب کا ترجمہ کرنے سے پہلے ساری کتاب پڑھتے ۔ مَیں اگر کبھی جسارت کرکے پوچھ لیتا : ستار طاہر صاحب، کب تک ترجمہ ہو جائے گا؟ وہ چشمے کے عقب سے اِک شانِ بے نیازی سے تکتے اور کہتے : ترجمہ مکمل ہو چکا ہے ۔ پھر اپنے سر کو اُنگلی سے بجاتے ہُوئے کہتے:یہاں!!
اللہ اللہ ، کیا رواں دواں،تیز اور سہل زبان میں ترجمہ کرتے تھے! ترجمہ کی جانے والی کتاب سامنے اوندھے منہ پڑی رہتی اور کاغذ پر اُن کا قلم فراٹے بھرتا رہتا ۔ اکثر نیوز پرنٹ پر بال پین سے لکھتے تھے ۔ بائیں ہاتھ کی اُنگلیوں میں سگریٹ سُلگتا رہتا اور چھوٹے چھوٹے الفاظ کا دریا کاغذات پر بہتا رہتا ۔ بکثرت سگریٹ نوشی سے اُن کی اُنگلیوں کی پوریں سیاہ ہو چکی تھیں ۔ سگریٹ کا مضر دھواں ہی اُن کی جان لے گیا ۔ اُن کے جانے سے علمی و ادبی سطح پر ہمیں بہت نقصان اٹھانا پڑا لیکن قافلہ تو چلتا رہتا ہے ۔
اُن کے کریڈٹ پردو سو سے زائد کتابیں ہیں ۔ لاہور ، کراچی اور ملتان کے بے شمار پبلشرز نے اُن کی تصنیفات اور تالیفات سے بے شمار روپیہ کمایا لیکن خوشحالی ستار طاہر کا مقدر نہ بن سکی۔ حیرانی ہے کہ اِس کے باوجود کسی پبلشر یا مالک مدیر کے بارے میںانھیں کبھی گلہ شکوہ کرتے نہیں سُنا۔ اُن کے سینے میں پاکستان کے بہت سے پبلشرزاور ایڈیٹرز کے بارے بہت سے راز دفن تھے لیکن اپنے نام کی لاج رکھتے ہُوئے انھوں نے کبھی کسی کے بارے زبان کھولی نہ قلم ۔ راقم نے انھیں جب بھی دیکھا، شلوار قمیض ہی میں دیکھا ۔ صبح اکثر رکشے پر دفتر آتے تھے۔ ہاتھوں میں کئی کتابیں پکڑے۔ کلین شیوڈ اور گہرے سانولے رنگ کے حامل۔ آخری ایام میں بوجھل وزن کے ساتھ تھکے تھکے سے محسوس ہوتے تھے۔ دل کااحوال مگر کسی کو کم کم سناتے ۔ اُن کی علمی خدمات دیکھ کر رشک آتا ہے۔سماج اور ملک نے مگر اُن کی قدر نہ جانی۔ اپنی ذات میں ایک اکیڈمی تھے ۔ اُن کے لاتعداد کالمز،ادبی تنقیدات، بک ریویوز اور کتابیں ایسی ہیں جو ڈائجسٹوں، ادبی جرائد اور اخبارات کے صفحات میں دفن ہیں ۔
کاش کوئی ہمت دار محقق اس دفینے کو باہر نکال لائے۔ اس کی روشنی اہلِ علم اور اہلِ ذوق تک پھیلنی چاہیے۔ اُن کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ جتنے شاندار مصنف و مولف و مترجم تھے ، اُتنے ہی منفرد ایڈیٹر بھی تھے ۔ انھوں نے اپنے دَور کے بہترین جریدے '' سیارہ ڈائجسٹ'' کی ادارت بھی کی اور '' حکایت ڈائجسٹ'' کی بھی اور ''ممتاز'' کو بھی اپنی زیر ادارت ممتاز بنایا۔ مجھے ایک بار ''حکایت ڈائجسٹ'' کے مالک مدیر ، عنایت اللہ، نے ہنستے ہُوئے بتایا تھا:ہمارا نصف سے زائد رسالہ تو اکیلے ستار طاہر صاحب لکھ ڈالتے ہیں ۔ تحریر کے معیار میں مگر کبھی کمی نہ آنے دی۔ وہ ''اُردو ڈائجسٹ'' سے بھی وابستہ رہے ۔ اس ذہن ساز جریدے کے ایڈیٹر جناب الطاف حسن قریشی(جنرل ضیاء الحق کے دَورِ اقتدار میں) بکثرت غیر ملکی دَوروں پر جاتے تھے ۔
وطن واپس آتے تو نئی نئی اور مشہور کتابوں سے لدے پھندے ہوتے ۔ یہ کتابیں ستار طاہر صاحب کی نذر کی جاتیں ۔ راقم نے یہ دلکشا مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھے ہیں ۔ ستار طاہر صاحب ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ طاری کیے ان کتابوں کا چند روز تک جائزہ لیتے اور پھرباری باری ان کا تلخیص و ترجمہ بھی منصہ شہود پر آنے لگتا ۔ستار طاہر اپنے زمانے میں لاہور کے سبھی اخبارات ، معروف ادبی جرائد اور ہر دلعزیز ڈائجسٹوںکی مرغوب و محبوب شخصیت تھے ۔ اُن کی تحریر جہاں بھی چھپتی ، چار چاند لگا دیتی تھی ۔ ہر نئی سیاسی ، سوانحی اور ادبی کتاب حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے ۔ مصلوب کیے گئے ذوالفقار علی بھٹواُن کے دل میں بستے تھے۔ اُن کی تحریرIf I AM ASSASSINATEDزندان کی دیواروں سے نکل کر باہر آئی تو یہ ستار طاہر ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے اس کا ''اگر مجھے قتل کیا گیا'' کے زیر عنوان ترجمہ کیا۔ اِس کتاب کو بڑی مقبولیت ملی تھی ۔ اب تک اس کے کئی ایڈیشنز شایع ہو چکے ہیں۔ ''دنیا کی 100عظیم کتابیں'' ان کی بہترین علمی، ادبی خدمت قرار دی جاتی ہے ۔
علمی و ادبی خدمات کے تذکرے پر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب بھی یاد آ رہے ہیں ۔ماشاء اللہ، پاکستان بھر میں اور بیرونِ ملک ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کی تالیف ''قرآنی انسائیکلو پیڈیا'' کی دھوم مچی ہے ۔ کئی شہروں میں اِس کی نورانی تقریبات منعقد ہو چکی ہیں ۔ کسی تقریب میں ڈاکٹر صاحب نے خود شرکت فرمائی ہے اور بعض تقریبات اُن کے صاحبزادگان کے زیر صدارت ہُوئی ہیں۔ آٹھ جلدوں اور ہزاروں صفحات پر مشتمل اِس بے مثل علمی خدمت کی اساس پر جدید دُنیا میں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے اپنی علمی و تحقیقی وجاہت کی دھاک بٹھا دی ہے ۔
عالمِ اسلام اور مغربی دُنیا میںاس خدمت سے پاکستان کا نام بھی روشن ہُوا ہے کہ آخر ڈاکٹر صاحب پاکستان ہی کے ایک لائق اور عالمی شہرت یافتہ فرزند ہیں ۔ جناب طاہر القادری اِس سے قبل قرآن مجید کا بھی نہایت دلنشین اور سہل اسلوب میں ترجمہ کر چکے ہیں۔ دہشتگردی اور خود کش حملوں کے خلاف اُن کی معرکہ خیز کتاب Fatwa On Terrorism and Suicide Bombing کو عالمی سطح پر بڑی پذیرائی ملی ہے ۔ پاکستان سمیت عالمِ اسلام اور کئی مغربی ممالک نے بھی شدت پسندی اور دہشتگردی کے جس عفریت کو بھگتا ہے، ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی یہ تصنیف اس خونی عفریت کے کامل خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے ۔ دو جلدوں پر مشتمل اُن کا لکھا گیا ''مقدمہ سیرت الرسول '' صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ایمان افروزمعرکہ ہے۔ دو ہی جلدوں پر مشتمل کتاب ''ہدایہۃ الامہ''بھی اُن کی اسلام سے محبتوں اور محنتوں کا نتیجہ ہے ۔ اب تک وہ ڈھائی سو سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے اپنی بے پناہ سیاسی و عالمی تبلیغی مصروفیات کے باوصف وہ ایسی عظیم المر تبت تحقیقی وعلمی خدمات کیسے سر انجام دے سکے ہیں!