سراج الحق کا آخری چانس

سراج الحق کا گزشتہ دور امارت سیاسی طور پر بہت کامیاب نہیں رہا ہے


مزمل سہروردی March 25, 2019
[email protected]

سراج الحق جماعت اسلامی کے دوسری مدت کے لیے امیر منتخب ہو گئے ہیں۔ جماعت اسلامی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہاں امیر جماعت ارکان کے ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے۔ امیر جماعت کے اس انتخاب کے لیے شور اس لیے نہیں ہوتا کہ نہ تو کسی کو امیدوار بننے کی اجازت ہے اور نہ ہی ووٹ مانگنے کی اجازت ہے۔ سراج الحق اب 2024ء تک جماعت اسلامی کی کمان سنبھالیں گے۔

سراج الحق کا گزشتہ دور امارت سیاسی طور پر بہت کامیاب نہیں رہا ہے۔ جماعت اسلامی پانچ سال تحریک انصاف کے ساتھ کے پی میں شریک اقتدار رہی۔ لیکن گزشتہ انتخاب میں یہ ثابت ہوا کہ اس اقتدار کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا ہے۔ متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ اگر دیکھا جائے تو دھرنے میں مصا لحتی کردار کا بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ کرپشن کے خلاف ادھوری تحریک کا بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ میں فائدہ ووٹ بینک کی صورت میں دیکھ رہا ہوں۔

سیاسی جماعت کا سیاسی نظریہ اور اس کی سیاسی حکمت عملی کو جانچنے کا واحد پیمانہ عوامی حمایت ہے۔ عوامی حمایت جانچنے کا واحد ذریعہ انتخابات میں ووٹ بینک ہے۔ اگر کسی بھی جماعت کے ووٹ بینک میں اضافہ ہو رہا ہے تو اس کی پالیسیوں کو عوامی حمایت حاصل ہے۔ لیکن اگر ووٹ بینک میں بتدریج کمی ہوتی جائے تو سمجھیں کہ پالیسیوں کو عوامی حمایت حاصل نہیں۔ کہیں نہ کہیں خامی موجود ہے۔ جسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

یاد ماضی عذاب ہے یا رب کی مصداق ماضی کی بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب سراج الحق کو کیا کرنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سراج الحق اور جماعت ا سلامی کے پاس یہ آخری مدت ہے۔ اگر ان پانچ سالوں کو بھی گزشتہ پانچ سال کی طرح مختلف اور بہت سارے کام اکٹھے کرنے میں ضایع کر دیا گیا تو جماعت اسلامی کی عوامی حمایت میں خدانخواستہ مزید کمی ہو جائے گی۔

سراج الحق نے کرپشن کے خلاف ایک تحریک شروع کی۔ اس تحریک کے تحت ہی پاناما میں شامل چار سو سے زائد لوگوں کو سزا دلوانے کے لیے تحریک شروع کی گئی۔ ٹرین مارچ کیا گیا ۔لیکن پھر سیاسی منظر نامہ میں تبدیلی جماعت اسلامی کو بھی اس کے مقصد سے ہٹا دیتی ہے۔ جماعت اسلامی اور بالخصوص سراج الحق کو اب ان پانچ سالوں میں یکسوئی کی ضرورت ہے۔ اہداف اور مقاصد کے حصول کے لیے ایک مربوط حکمت عملی پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی ملک کی واحد جماعت ہے جس پر کرپشن کا کو ئی الزام نہیں ہے۔ اس کے کسی رہنما کا نیب میں کوئی کیس نہیں ہے۔ یہاں خاندان کی حکومت نہیں ہے۔ اس لیے اگر ملک میں کرپشن اور انصاف کے لیے کوئی جماعت حقیقی کام کر سکتی ہے تو وہ صرف جماعت اسلامی ہے۔

ساری سیاسی جماعتیں نیب سے خفا ہیں۔ سب چاہتی ہیں نیب کو بند کر دیا جائے۔ سب چاہتے ہیں کہ نیب مزید گرفتاریاں بند کر دے۔ حتیٰ کہ کے پی میں ایک گرفتاری کے بعد عمران خان نے بھی نیب کے خلاف ٹوئٹ کر دیا تھا۔ سب چاہتے ہیں کہ نیب اس کی طرف نہ دیکھے، بس اس کے مخالفین کو پکڑتی رہے۔ لیکن صرف جماعت اسلامی اور سراج الحق نیب کو تیز کام کرنے پر مجبور کرنے کے لیے احتجاج کر سکتے ہیں۔ عمران خان بھی پاناما میں نواز شریف کی نا اہلی کے بعد پاناما کے باقی ملزمان کو سزا دلوانے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ ان کی حکومت نے ابھی تک کرپشن کے خلاف سیاسی نعرے لگانے کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ صرف جماعت اسلامی کرپشن کے خلاف حقیقی تحریک چلا سکتی ہے۔

جماعت اسلامی اور بالخصوص سراج الحق کو ان پانچ سالوں کے لیے ایک جارحانہ حکمت عملی بنانی ہوگی۔ کرپشن اورا نصاف کے لیے ایک واضح حکمت عملی بنانی ہوگی۔ اقتدار کے لیے نہیں بلکہ کرپشن کے خاتمہ کے لیے دھرنے اور ریلیاں نکالنی ہوںگی۔ زیر التوا انکوائریوں پر تاخیر پر نیب سے سوال صرف سراج الحق ہی کر سکتا ہے۔ نیب میں نئے ریفرنس بھی صرف جماعت اسلامی ہی دائر کرسکتی ہے۔نیب کے تمام دفاتر کو کام کرنے پر صرف سراج الحق ہی مجبور کر سکتا ہے۔

سراج الحق کو اب پوری جماعت اسلامی کو ملک میں کرپشن کے خاتمے کے لیے متحرک کر دینا چاہیے۔ کرپشن کی ہر درخواست لوگ جماعت اسلامی کے پاس لے کر آئیں اور جماعت اسلامی از خود ابتدائی تحقیقات کے بعد کرپشن کی ان شکایات کے خلاف نیب اور دیگر اداروں میں ریفرنس دائر کرے۔ ہر ضلع ہر شہر کی جماعت اسلامی کو اب صرف کرپشن کے خلاف کام کرنا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے ہر دفتر کو تمام دیگر سیاسی سرگرمیاں معطل کر کے صرف کرپشن کے خلاف کام کرنا چاہیے۔عوام کو کھلی دعوت دینی چاہیے کہ ان کے پاس کرپشن کا کوئی ثبوت ہے تو وہ جماعت اسلامی کو دے۔ جماعت اسلامی اس پر خود تحقیقات بھی کرے اور قانونی کارروائی بھی کرے۔

ملک میں جہاں جہاں کرپشن کے مقدمات زیر سماعت ہیں ان کے جلد فیصلوں کے لیے ان عدالتوں کے باہر دھرنے دئے جائیں۔ عدالتوں کا پہرہ دیا جائے۔ ملک کی احتساب عدالتوں میں کرپشن کے سیکڑوں مقدمات پرکارروائی بہت سست ہے۔ نواز شریف کے مقدمات تو مانیٹرنگ جج کی وجہ سے تیز چل گئے لیکن باقی مقدمات میں کوئی سنوائی نہیں۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے مقدمات میں دس دس سال سے فرد جرم بھی نہیں لگ سکی ہے۔ بیرون ملک جانے والی دولت کی واپسی پر بھی کوئی کام نہیں ہو رہا۔ جن لوگوں کی باہر جائیدادیں ہیں ان کی واپسی پر بھی کوئی کام نہیں ہو رہا۔ یہ کام صرف جماعت اسلامی کر سکتی ہے کیونکہ جماعت اسلامی کے کسی لیڈر کی باہر کوئی جائیداد نہیں ہے۔

جماعت اسلامی کو بے خوف ہونے کی ضرورت ہے۔ اس نظام میں اس کی جگہ کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں جماعت اسلامی کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ووٹ بینک بھی کم ہو رہا ہے۔ ایک عام رائے یہی ہے کہ سیاسی جگہ کے حصول کے لیے جماعت اسلامی نے ایسی مفاہمتیں کی ہیں جن سے نظریاتی ووٹر ناراض ہوا ہے۔ ووٹر کنفیوژہو گیا ہے۔ ووٹر کو واپس لانا ہی سراج الحق کا واحد مقصد ہونا چاہیے۔ انھیں سمجھنا ہوگا کہ وہ جماعت اسلامی کے آخری امیر ہیں جن سے کوئی امید ہے۔ اگر اب انھوں نے جماعت اسلامی کی بحالی کے لیے کوئی بڑے اقدام نہیں اٹھائے تو پھر یہ ایک چھوٹی سی جماعت بن جائے گی۔ جس کا امیر ہونا یا نہ ہونا بے معنی ہو جائے گا۔

سراج الحق کو جماعت اسلامی میں نیا خون لانا ہوگا۔ پرانے انکلز کو پیچھے کرنا ہوگا۔ نیا خون ہی جماعت اسلامی میں نئی روح پھونک سکتا ہے۔ نئی سوچ ہی جماعت اسلامی کو اس بھنور سے نکال سکتی ہے۔ کہیں نہ کہیں یہ احساس بھی ہے کہ جماعت اسلامی میں نئے خون کے آگے آنے کی رفتار سست ہو گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں