شہباز شریف کی مفاہمت پالیسی
ایک عمومی رائے یہی ہے کہ ن لیگ مفاہمت کا راستہ اختیار کررہی ہے۔
شہباز شریف کی مفاہمتی پالیسی کے ثمرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ادھر یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کی حکومت اس مفاہمت کو روکنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ ایک طرف شہباز شریف کے لیے آسانیاں دوسری طرف عمران خان کی مشکلات بڑھتی نظر آرہی ہیں۔ایک طرف عمران خان کی جانب سے بار بار یہ اعلان کہ کسی کو این آر او نہیں دیا جائے گا دوسری طر ف ن لیگ کے لیے ریلیف میں ایک پیغام دیا جا رہا ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت اس معاملے میں نہ کبھی فریق تھی اور نہ ہی ہے۔
نواز شریف کی چھ ہفتوں کی ضمانت ایک محدود ریلیف ہے۔لیکن غیر معمولی ریلیف ہے۔کیا اس ضمانت میں چھ ہفتوں بعد توسیع ہو جائے گی یا چھ ہفتہ بعد نواز شریف کو دوبارہ جیل جانا ہوگا؟ کیا نواز شریف علاج کرانے کے لیے بیرون ملک جا سکیں گے؟ ان تمام سوالات کا جواب ابھی کسی کے پاس نہیں ہے۔ ایک عمومی رائے یہی ہے کہ ن لیگ مفاہمت کا راستہ اختیار کررہی ہے۔ شہباز شریف مفاہمت کا عمل شروع کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ادھر ریلیف بھی محدود اور مشروط ہے۔ آگے کیا ہوگا، اس کے بارے میں کوئی دو ٹوک پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ سیاسی ماحول اور سیاسی ضروریات اس کا فیصلہ کریں گے۔
ن لیگ کو اس سیاسی مفاہمت کو برقرار رکھنے کے لیے شہباز شریف کی بات ماننی ہوگی۔ محاذ آرائی کے بجائے مفاہمت کی سیاست کرنا ہوگی۔ نواز شریف اور مریم نواز کو اپنی سیاسی خاموشی برقرار رکھنی ہوگی۔ بالخصوص اس وقت پی پی پی سے فاصلہ برقرار رکھنا ہوگا۔ زرداری اور بلاول سے واضح فاصلہ اس مفاہمت کی بنیادی شرائط ہیں۔ ایک طرف بلاول ٹرین مارچ کر رہے ہیں۔ وہ لانگ مارچ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
دوسری طرف ایک ہی دن شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکلنا اور نواز شریف کی چھ ہفتوں کے لیے ضمانت ہونا بڑی اہم پیش رفت ہے۔ ادھر کہیں اپوزیشن کے ممکنہ اتحاد کو روکنے کی سوچ بھی موجود ہے۔ جس طرح کل جب ن لیگ مشکل میں تھی تو پی پی پی ن لیگ سے دور تھی، اسی طرح آج جب بلاول اور زرداری مشکل میں ہیں تو ن لیگ کو ان سے دور رکھنے کے لیے حکمت عملی بنائی گئی ہے۔ کل پی پی پی نے فاصلہ برقرار رکھا تھا۔ آج ن لیگ فاصلہ برقرار رکھے گی۔
شہباز شریف آج نہیں پہلے دن سے مفاہمت کی بات کر رہے ہیں۔ وہ پہلے دن سے کہہ رہے تھے کہ محاذ آرائی کے بیانیہ کا فائدہ نہیں نقصان ہو گا۔ وہ اس بیانیہ کی کھلم کھلا مخالفت کر رہے تھے۔اسی مخالفت کی وجہ سے شہباز شریف کو ن لیگ میں تنقید کا سامنا بھی تھا۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ شہباز شریف کو مسلم لیگ (ن ) سے آؤٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ قیاس آرائیاںکی جا رہی تھیں کہ نواز شریف شہبازشریف اختلافات بہت بڑھ گئے ہیں۔
نواز شریف نے شہباز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی فیصلہ سازی کے عمل سے آؤٹ کر دیا ہے۔ مریم نواز شہباز شریف کو آؤٹ کرنا چاہتی ہیں ۔تجزیہ نگار یہ کہنے لگے کہ نواز شریف کسی کو بھی باری دے دیں گے لیکن شہباز کو کبھی باری نہیں دیں گے۔ جب شہباز شریف محاذ آرائی کی کھلم کھلا مخالفت کر رہے تھے تب ن لیگ میں ان کا سیاسی کیریئر یقینی طور پر داؤ پر لگ گیا تھا۔ کئی مواقعے ایسے آئے کہ ایسا لگنے لگا کہ بس اب شہباز شریف بند گلی میں پہنچ گئے ہیں۔ یہاں سے انھیں اب راستے الگ کرنا ہونگے۔
تاہم شہباز شریف نے ایک طرف اسٹبلشمنٹ سے محاذ آرائی کی مخالفت جاری رکھی۔ وہ مفاہمت کی بات کرتے رہے لیکن ساتھ ساتھ انھوں نے نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ انتخابات سے قبل شہباز شریف کے پاس موقع تھا کہ وہ ن لیگ کو توڑ دیتے۔ اپنے حامی الگ کر لیتے ۔ ایسا کرنے سے شائد سیٹیں کم ملتیں۔ ن لیگ کی سیاسی طاقت اور ووٹ بینک تقسیم ہوجاتا۔لیکن اقتدار کی شراکت داری کے امکانات بڑھ جاتے۔ شہباز شریف کی جماعت ق لیگ سے تو بڑی ہوتی۔ اس لیے اقتدار میں حصہ مل ہی جانا تھا۔
لیکن شہباز شریف نے نواز شریف کا ساتھ نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس لیے اقتدار چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن آج یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پوری ن لیگ شہباز شریف کی سوچ کی حامی ہو گئی ہے۔ آج پوری ن لیگ مزاحمت کے بجائے مفاہمت کی داعی بن گئی ہے۔ محاذ آرائی کے حامی بھی چپ ہو گئے ہیں۔ اور تو اور نواز شریف اور مریم بھی شہباز شریف کے حامی ہو گئے ہیں۔ ان کی خاموشی اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ 23مارچ کو کسی بھی قسم کے احتجاج کی کال کو مسترد کرنا واضح ثبوت ہے کہ اب شہباز شریف کی بات مانی جا رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف کوئی محدود مفاہمت چاہتے ہیں۔ یا یہ مفاہمت پالیسی میں ایک مستقل تبدیلی ہے۔ پہلی پالیسی کو غلط قرار دے دیا گیا۔ پہلی پالیسی کو غلطی مان لیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ن لیگ کو ابھی مزید کام کرنا ہوںگے۔ شہباز شریف کو ن لیگ کو مزید طاقتور کرنا ہوگا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ن لیگ میں اس وقت سب سے طاقتور ہیں۔ وہ پارٹی کے صدر ہیں۔ وہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں۔ اور کیا طاقت دی جا سکتی ہے۔ لیکن سیاسی طاقت اور دینا ہوگی۔ فیصلہ سازی میں خود مختاری دینا ہوگی۔ ن لیگ کی تنظیم سازی کو از سر نو کرنے کی اجازت دینا ہوگی۔ خاموشی کو ختم کرتے ہوئے شہباز شریف کے بیانیہ کے ساتھ عوام میں آنا ہوگا۔
میری تجویز ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنی مرکزی مجلس عاملہ کا شہباز شریف کی صدارت میں اجلاس طلب کرے۔ اس اجلا س میں مسلم لیگ کی نئی مفاہمت کی پالیسی کا واضح اور دو ٹوک اعلان کیا جائے۔ جیسے شہباز شریف نے نیب میں گرفتاری اور نیب ریفرنسز کے باوجود مفاہمت کی پالیسی کو ہی جاری رکھا ہے۔ا سی طرح ن لیگ کو مفاہمت کو ایک مستقل پالیسی کے طور پر سامنے لانا ہوگا تا کہ اس ضمن میں خدشات کو دور کیا جا سکے۔ شہباز شریف کو فری ہینڈ بھی دینا ہوگا۔ میاں نواز شریف کو شہباز شریف کو مسلم لیگ (ن) سونپ دینی چاہیے۔ اسی میں مسلم لیگ (ن) کی بہتری ہے۔
شہباز شریف کی مفاہمت کی پالیسی کے ثمرات عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں۔اسی لیے عمران خان نے نواز شریف کی ضمانت سے ایک دن قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف کو نواز شریف کا فرنٹ مین قرار دیا۔ عمران خان کا اس وقت ٹارگٹ نواز شریف نہیں شہباز شریف ہیں۔ عمران خان کو احساس ہے کہ شہباز شریف جس مفاہمت پر کام کر رہے ہیں اس کے نتیجے میں عمران خان اور تحریک انصاف کی چھٹی ہو سکتی ہے۔ اس وقت ان کی حکومت کی کارکردگی بہت بری ہے۔ وہ عوام کو ریلیف نہیں دے رہے۔
پنجاب میں شہباز شریف کی گورننس کا مقابلہ نہیں ہو پا رہا۔ ایسے میں ان کی ناکامی اور شہباز شریف کی مفاہمت ن لیگ اور شہباز شریف کے لیے اقتدار کے بند دروازے کھول دے گی۔اسی خطرے کی وجہ سے شہباز شریف کی ضمانت کو چیلنج کیا جارہا ہے۔ حکومت نے شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کو بھی چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کیونکہ عمران خان کے لیے اب خطرہ نواز شریف نہیں شہباز شریف کی مفاہمت پالیسی ہے۔