نسرین انجم بھٹی
ہمیں ہمارے حالات بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں آنے والی تبدیلیوں نے ہمارا کچھ بگاڑا ہے۔
KARACHI:
آمریت کے خلاف لکھنے والے شاعروں، ادیبوں اورصحافیوں کی نہ کل کمی تھی اور نہ ہی موجودہ دور میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف لکھنا ترک کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بدلے ہوئے حالات نے اُس زمانے کو تاریخ کا حصہ بنا دیا، جس میں سیاست کو عبادت کا درجہ دیا جاتا تھا اور مختلف سیاسی پارٹیوں کا ایک ثقافتی پلیٹ فارم بھی ہوا کرتا تھا جس کے تحت بڑے بڑے مشاعرے منعقد ہوتے تھے۔
موجودہ دور میں جو شاعر سیاسی اور سماجی جلسوں میں اپنی نظمیں نہیں سنا پاتے یا جن کا کلام اخبارات اور رسائل میں نہیں چھپتا وہ سوشل میڈیا پر دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں، مگر یہ کہنا شاید درست نہیں ہوگا کہ آج کا ادیب اور شاعر مختلف زیادتیوں کے خلاف کچھ بھی نہیں لکھ رہا ۔
ہمیں ہمارے حالات بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں آنے والی تبدیلیوں نے ہمارا کچھ بگاڑا ہے اور نہ ہم نے اپنے آس پاس سے کوئی سبق سیکھا ہے۔ بعض دفعہ تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم جہاں سے چلے تھے وہاں نہیں بلکہ اس سے بھی بہت پیچھے چلے گئے ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو فیض ، فراز ، جالب اوردوسرے انقلابی شعرا کا کلام تین چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ہمارے موجودہ حالات کی ہو بہو عکاسی کیوں کرتا ۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ بلاول بھٹو نے اپنانکتہ نظر واضح کرنے کے لیے کسی لمبی چوڑی تقریر کے بجائے اپنے ٹویٹر کے اکاؤنٹ میں حبیب جالب کے چار شعر درج کر دیے جو لگ بھگ آدھی صدی قبل کی طرح آج بھی بالکل تازہ تھے۔
ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے کے بعد تمام تر پابندیوں کے باوجود آمریت کے خلاف لکھنے والے ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کے قلم پر پابندی نہ لگائی جا سکی ۔ اُس کڑے دور میں جہاںآمریت کوسہارا دینے والے ادیب اور صحافی موجود تھے وہاں حق اور سچ کے چاہنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی۔ جن شعرا نے اُس دور میں آمریت کے خلاف بھرپور جدوجہد کی اُن میں فہمیدہ ریاض اورکشور ناہید جیسی شاعرات کا نام تو سرفہرست ہے گا مگر اردو اور پنجابی کی شاعرہ اور براڈ کاسٹر نسرین انجم بھٹی کا نام بھی فراموش کرنا مشکل ہے۔
نسرین انجم بھٹی 1971ء میں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئیں اور 1977ء میں معروف صحافی زبیر رانا کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ گئیں جس کے بعد ان کی زندگی کا نیا دور شروع ہوا ۔ زبیر رانا بائیں بازو کی سوچ کے حامل صحافی اور مصنف تھے اور دونوں کے درمیان میاں بیوی کے علاوہ اُس انقلابی سوچ کا رشتہ بھی موجود تھا جس کے سہارے انھوں نے انتہائی مشکلات کے باوجود پوری زندگی ایک چھت کے نیچے گزار دی۔
پنجابی اور اردوکی منفرد شاعری کے حوالے سے نسرین انجم بھٹی ادبی دنیا میں اپنا الگ مقام پہلے ہی بنا چکی تھیں مگر بھٹوکو تختہ دار پر لٹکایا گیا تو اُن کے قلم نے ''میں مرزا مہران دا میری راول جنج چڑھی۔'' جیسی شاہکار نظم کو جنم دیا۔ یہ اُس دور کی مشہور ترین انقلابی نظم تھی مگرکسی کو پتہ نہیں تھا کہ یہ کس کی نظم ہے اورتب تک پتہ نہ چل پایا جب تک خود نسرین انجم بھٹی نے یہ نہ بتایا کہ یہ اُن کی نظم ہے۔
1985ء کو انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جو بلی منائی گئی تو اس میں شرکت کے لیے ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح پنجاب سے بھی معروف ادیب اور شاعرفخر زمان کی سربراہی میں نوجوان انقلابی شعرا اور ادیبوں کا وفد کراچی آیا۔ اُس زمانے میں جہلم سے تعلق رکھنے والے نوجوان ادیب و شاعر اور صحافی احمد لطیف بھی کراچی آئے اورکافی عرصے تک یہیں قیام پذیر رہے۔
احمد لطیف کو پنجاب کے دیگر ترقی پسند شاعروں کے علاوہ نسرین انجم بھٹی کی نظمیں بھی زبانی یاد تھیں جنھیںوہ دوستوں کی نجی محفلوں میں لہک لہک کر سنایا کرتے تھے۔ احمد لطیف نہ صرف نسرین انجم بھٹی کے مداح تھے بلکہ انھیں زبیر رانا سے بھی دلی لگاؤ تھے جن کا کہنا تھا کہ اُس زمانے میں جہلم اور لاہور کے مضافاتی شہروں سے روزگار کے سلسلے میں آنے والے نوجوان ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کے کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے کا اگر کوئی ٹھکانا تھا تو وہ زبیر رانا کا گھر تھا جو نسرین انجم بھٹی کے سہارے چل رہا تھا۔
نسرین انجم بھٹی سے ہماری دو تین ملاقاتیں ہی ہو پائیں جن میں سے ایک نوے کی دہائی میں اسلام آباد میں منعقدہ ادبی کانفرنس کے دوران ہوئی جب ہم نے معروف ادیبہ افضل توصیف سے کہا کہ ہمیں نسرین انجم بھٹی سے ملنا ہے۔ انھوں نے ہمارا ہاتھ پکڑا اور مسکراتی ہوئی ہال میں بیٹھی خواتین لکھاریوں کی جھرمٹ میں بیٹھی سانولی سی خاتون کے سامنے جا کر شرارتی انداز سے کہنے لگیں۔ ''کراچی توں آیا اک منڈا تینوں ملنا چاہندا اے'' نسرین انجم بھٹی نے کہا ''جے ملن آیا اے تاں ملے'' اور مجھے اپنے قریب صوفے پر بٹھا لیا۔ اس دوران ادب کے علاوہ اقلیتوں اور خواتین کے موضوع پر ان سے بہت ساری باتیں ہوئیں جو بعد میں کراچی کے اُس میگزین کا حصّہ بنیں جسے ہم ایڈیٹ کیا کرتے تھے۔
نسرین انجم بھٹی سے ہماری دوسری طویل ملاقات اپنے مرحوم دوست اور شاعر محبوب صدا کے ساتھ راولپنڈی کے ''کرسچن اسٹڈی سینٹر'' میں ہوئی اور آخری ملاقات کراچی کے ایک چرچ میں ہوئی جہاں رکھے تابوت کے شیشے سے ہم اور ہمارے ساتھ کھڑے ارشد کیانی، معروف کارٹو نسٹ فیکا اور خدا بخش ابڑو ان کا پر سکون چہرہ ہی دیکھ سکتے تھے، مگر اُن سے بات نہیں کرسکتے تھے ۔
نسرین انجم بھٹی کی وفات کے بعد ان کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں میرے سمیت زیادہ تر ایسے خواتین و حضرات شامل تھے جنھوں نے نسرین انجم بھٹی کی شاعری تو پڑھ رکھی تھی ، مگر ان کی نجی زندگی اور شوہر زبیر رانا سے اتنے زیادہ واقف نہیں تھے بس سنی سنائی باتوں پر ہی یقین رکھتے تھے۔ میں نے ان کی شخصیت اور شاعری پر طویل مضمون پڑھا جس میں زبیر رانا اورکمیونزم کا ذکر اس لیے ناگزیر تھا کہ زبیر رانا نے نسرین انجم بھٹی کے لیے اپنا عقیدہ تبدیل کیا تھا اورکمیونزم سے ان کا گہرا تعلق تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ مرحوم کی جذباتی شخصیت بعض دفعہ نظریے کی بہت ساری حدوںسے آگے نکل جاتی تھی جس کا اندازہ لاہور میں ان سے ہونے والی دو تین ملاقاتوں کے دوران ہمیں بخوبی ہو چکا تھا ۔
اس نشست میں شامل کچھ دوستوں کو ہم سے گلہ تھا کہ نسرین انجم بھٹی کی شخصیت اور شاعری کے ساتھ زبیر رانا کا نام بار بارکیوں لیا جا رہا ہے مگر نسرین انجم بھٹی کی شاعری سے میں ان کے شوہر اور نظریے کوکیسے نکال سکتا تھا۔ میں انھیں کیسے بتاتا کہ تمام تر شخصی خامیوں کے باوجود نسرین انجم بھٹی زبیر رانا سے کتنی محبت کرتی تھی ۔کسی کو یقین نہیں آتا تو وہ معروف صحافی زاہد مسعود کی کتاب ''نسرین انجم بھٹی'' میں چھپا مضمون ''زبیر رانا کون تھا، میری آنکھ سے دیکھو'' پڑھ کر اس بات کا اندازہ بخوبی لگا سکتا ہے۔ یہ کتاب ''بک ہوم'' نے چھاپی ہے جس میں نسرین انجم بھٹی کی شخصیت اور شاعری پر لکھے گئے بہت سارے مضامین کے علاوہ اُن کی غیر مطبوعہ شاعری کا انتخاب بھی شامل ہے۔