ایل این جی ٹھیکہ مخصوص پارٹی کو نہ دیا جائے ٹرانسپیرنسی

EVTLکے کنٹریکٹ میں تبدیلی ایک رعایت ہوگی جو اور کسی کمپنی کو نہیں دی گئی، ٹرانسپیرنسی


Express Desk August 13, 2013
EVTLکے کنٹریکٹ میں تبدیلی ایک رعایت ہوگی جو اور کسی کمپنی کو نہیں دی گئی، ٹرانسپیرنسی فوٹو: فائل

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی درآمد کا ٹھیکہ دینے میں غیرمعمولی تاخیر پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے قومی خزانے کو سالانہ 60ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔

وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی کے نام ایک خط جس کی ایک کاپی رجسٹرار سپریم کورٹ کو بھی ارسال کی گئی ہے، میں کہا گیا ہے کہ ملک میں گیس کی قلت کے باوجود حکومت گزشتہ10سال سے ایل این جی کی درآمد کا عمل مکمل نہیں کرسکی۔ اس کی ایک ہی وجہ گیس کی خریداری کے عمل میں ناجائز طریقے سے مال کمانا ہے۔ وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل اس معاملے کی تحقیقات کرائیںکہ اس تاخیر کے ذمے دار کون سے عناصر ہیں اور ذاتی خواہشات کے تحت قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کنٹریکٹ دینے کی کوشش کیوں کی گئی؟۔ اس صورتحال کا نتیجہ ایل این جی کی قلت کی صورت میں نکلا ہے۔ اگر سپریم کورٹ کے 28اپریل2010کے سوموٹو کیس میں جاری شدہ احکام پر عملدرآمد یقینی بنایا جاتا تو پاکستان آج14ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو سے بھی کم نرخ پر ایل این جی حاصل کررہا ہوتا اور پہلے ہی سال 675 ملین ڈالر کی بچت ہوسکتی تھی۔ حکومت سپریم کورٹ کے احکام پر 2010میں ایل این جی کا درآمدی ٹھیکہ نہ دینے کے ذمے دار عناصر کا احتساب کرے۔

خط میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے روح رواں عادل گیلانی نے کہا کہ حال ہی میں6اگست2013 کو سوئی سدرن اور سوئی ناردرن گیس کمپنی کی کلی ملکیت کمپنی انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم لمیٹڈ کی طرف سے ٹینڈر جاری کرنا بھی وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کی طرف سے مخصوص پارٹی کو ٹھیکہ دینے کی ایک کوشش لگتی ہے۔ اس ٹینڈر نوٹس میں دی گئی شرائط اورEVTLکے سی ای او کا جاری کردہ بیان پبلک پروکیورمنٹ رولز 2004کی خلاف ورزی ہے۔ شرائط میں لکھا ہے کہ اس ٹینڈر میں200ایم ایم سی ایف ڈی سے زیادہ سے زیادہ 400ایم ایم سی ایف ڈی کی بولی دی جائے گی، اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹینڈر صرف ایک پارٹی کو دینے کا ارادہ کیا گیا ہے۔ EVTLکے سی ای او کا جاری کردہ بیان اس بات کا برملا ثبوت ہے کہ یہ ٹینڈرEVTL اور انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم کے درمیان ٹکرائو موجود ہے۔ EVTL کے سی ای او نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ '' پیشکش میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ EVTLصرف پورٹ قاسم پر ایل این جی کو اپنے موجودہ ٹرمینل پر آف لوڈ کرکے دوبارہ گیس بھرنے کا کام کرے گی۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ٹرمینل کی لاگت اور RLNGکی لاگت میں معمولی فرق ہے۔



EVTL واحد کمپنی ہے جو اس کام کا انفرااسٹرکچر، صلاحیت، افرادی قوت اور مہارت رکھتی ہے''۔ دنیا میں کوئی پارٹی اس ٹینڈر میں دی گئی پیشکش کو قبول نہیں کرے گی کیونکہ ٹھیکے کی میعاد10سال مقرر کی گئی ہے حالانکہ بین الاقوامی سطح پر ایسے منصوبوں کا ٹھیکہ کم از کم30سال سے زائد عرصے کیلیے دیا جاتا ہے کیونکہ صرف اتنے عرصے میں سرمایہ کار مناسب طریقے سے سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔ اس ٹینڈر کے تحت ٹرانسپورٹیشن کا کام ٹرمینل آپریٹر نے کرنا ہے۔ 10سال کیلیے سپلائی کے ذریعے کا تعین کیے بغیر کرایہ کس طرح طے کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پی کیو اے میں حفاظتی نکتہ نظر سے مین پورٹ کے قریب ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ2 کلومیٹر دور قطب پوائنٹ پر علاقہ مخصوص کیا گیا ہے اور اینگرو سمیت 5 پارٹیوں کو ایل این جی ٹرمینل کے لائسنس دیے گئے ہیں۔ 1996/97 میں دیے گئے ٹینڈر میں EVTLکو BOTکنٹریکٹ دیا گیا کی شرائط میں ایل پی جی کی ہینڈلنگ اور ری گیسی فیکیشن شامل نہیں اور ای وی ٹی ایل کے کنٹریکٹ کے ٹینڈر کی شرائط میں کسی قسم کی تبدیلی ایک لحاظ سے رعایت ہوگی جو اور کسی کمپنی کو نہیں دی گئی۔ چنانچہ سپریم کورٹ نے30مارچ 2012کو RPP کنٹریکٹ کو غیرقانونی قرار دے دیا تھا۔ ان سنگین خلاف ورزیوںکے پیش نظر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے وزیر پٹرولیم سے درخواست کی ہے کہ وہ انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم لمیٹڈ کمپنی کو پیپرا قواعد کی خلاف ورزی نہ کرنے دے اور ٹھیکہ کسی مخصوص پارٹی کو دینے سے روکا جائے کیونکہ یہ عمل نہ صرف غیرقانونی ہوگا بلکہ بلکہ اس کا منفی اثر خود EVTL پر بھی پڑیگا جو پاکستان کے ایک ممتاز اور قابل اعتماد کاروباری گروپ کی ملکیت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔