کہ جیل جانا فقط آرزو کی بات نہیں

پاکستانی سیاست دانوں کے جیل جانے کے شوق کا یہ عالم ہے کہ وہ جیل کو اپنا دوسرا گھر کہتے ہیں۔


Muhammad Usman Jami March 31, 2019
پاکستانی سیاست دانوں کے جیل جانے کے شوق کا یہ عالم ہے کہ وہ جیل کو اپنا دوسرا گھر کہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

برطانیہ کی ایک خاتون کو اس عمر میں جیل جانے کا شوق چَرایا ہے جس عمر میں سب جھیل کر آدمی قبر میں جانے کی سوچ رہا ہوتا ہے۔ محترمہ کی عمر ہے 104سال اور نام ہے اینی بروکن بروہے۔

کیئرہوم میں قیام پذیر ان خاتون سے جب ان کی کوئی ایسی خواہش پوچھی گئی جو پوری نہ ہوئی ہو، تو ان کا جواب تھا،''میری اتنی عمر ہوگئی ہے اور میں نے آج تک کوئی قانون نہیں توڑا، لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ میں جیل جاؤں۔''

انسان کو جو خواہش ہوتی ہے اُس کے حصول کے لیے کوششیں کرتا ہے، تن من دھن کی بازی لگادیتا ہے، مگر ان محترمہ نے اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے ذرا بھی جتن نہیں کیے، ہمیشہ قانون کا احترام کیا اور پھر جیل جانے کی آرزو کرتی رہیں۔ ان بی بی کو کون سمجھائے کہ جیل جانا فقط آرزو کی بات نہیں۔

برطانیہ کا پتا نہیں، لیکن پاکستان میں داخلِ زنداں ہونا وہ واحد معاملہ ہے جہاں غریبوں کو امیروں سے کہیں زیادہ مواقع حاصل ہیں۔

پاکستان می غریب آتے جاتے جیل جاسکتا ہے، اس کی جیل یاترا کے لیے بجلی کا کُنڈا اور بھری ہوئی سگریٹ کا ایک سُٹا لگانا ہی کافی ہے، کسی پولیس والے کو گھور کے دیکھ لینا بھی سلاخوں کے پیچھے پہنچا سکتا ہے، لیکن بے چارے امیر پاکستانی کے لیے یہ ''مطلوبہ سہولت میسر نہیں۔'' اُسے جیل کی منزل تک پہنچنے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے، پہلے سیاست میں آنا پڑتا ہے، پھر مال بنانے کے مواقع حاصل کرنا پڑتے ہیں، قسمت اچھی ہو تو سیاسی کیریر، دولت اور اقتدار دلہن کے جہیز میں آجاتے ہیں، لیکن ایسی ''بے نظیر'' قسمت کسی کی ہوتی ہے۔

اگر نصیب ایسا زردار نہیں تو مال دار ہونے کے لیے ایمان داری سے مکمل طور پر دست بردار ہوکر پیسہ بنانا پڑتا ہے، اس کے بعد اقتدار میں آنے کا مرحلہ آتا ہے، یہ دراصل جی بھر کے کمانے کا مرحلہ ہوتا ہے، عوام کے پیسے اور اپنے اختیارات کا خوب ناجائز استعمال کرکے بھی جب جیل جانے کی تمنا پوری نہیں ہوتی تو اقتدار جانے کے بعد بھی محروم اقتدار جماعت میں رہ کر اپنی گرفتاری کا سامان کیا جاتا ہے، آخرکار کوئی نہ کوئی عیب نیب کے ہتھے چڑھ جاتا ہے، دن گِنے جاتے تھے جس دن کے لیے وہ دن آتا ہے اور بندہ جیل چلا جاتا ہے۔

پاکستانی سیاست دانوں کے جیل جانے کے شوق کا یہ عالم ہے کہ وہ جیل کو اپنا دوسرا گھر کہتے ہیں۔ مگر جیل اُس وقت تک گھر لگتی ہے جب تک پولیس ''گھر والی'' بنی رہے، لیکن کبھی کبھی اُن کے ساتھ گھروالی ہوجاتی ہے۔ ہمارے ہاں تو کوئی سیاست داں جیب کاٹنے پر جیل جائے یا گلا کاٹنے پر، بڑے فخر سے کہتا ہے کہ اُس نے جیل کاٹی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جیل میں رہتے ہوئے وہ بس مچھروں کے کاٹنے ہی کی شکایت کرتا رہتا ہے۔

اینی بروکن صاحبہ کی سبق سیکھنے کی عمر گزر گئی ورنہ ہم اُن سے کہتے کہ بی بی! آپ شوق کی تکمیل کے لیے پاکستان کے سیاست دانوں سے سبق سیکھیں۔ لیکن سیکھ بھی لیتیں تو اس سبق پر عمل کے لیے اینی بی بی کو پاکستان آنا پڑتا۔ ویسے وہ پاکستان آجاتیں تو قانون توڑے بغیر بھی جیل کی روٹیاں توڑنے کی خواہش پوری کرسکتی تھیں۔ لیکن اس کے لیے انھیں غریب ہونا پڑتا۔ پھر کسی دن خبر آتی،''ایک سو چار سالہ خاتون قیدی اینی بروکن نے، جو جرمانے کی رقم نہ ہونے کے باعث پچھتر سال سے قید ہیں، خواہش ظاہر کی ہے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں جیل سے جاؤں۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں