زندگی پر موت کا پہرا لگا ہوا ہے ہم سو جاتے ہیں وہ جاگتی رہتی ہے

ہم مصوّر کو چھوڑ کر تصویر کے پیچھے بھاگتے ہیں، خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی طرف۔۔۔


ہم مصوّر کو چھوڑ کر تصویر کے پیچھے بھاگتے ہیں، خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی طرف۔۔۔ فوٹو: فائل

قسط نمبر 37

ہم قبرستان کو بہت پُراسرار مقام سمجھتے ہیں، ایک حد تک تو یہ درست ہے لیکن قبرستان ایسی بھی جگہ نہیں جس سے خائف ہُوا جائے۔ قبرستان تو بہت امن و آشتی کی جگہ ہے، غوروفکر کا مقام ہے، دنیا کی حقیقت اسی جگہ تو دیکھنے کو ملتی ہے، عزیز رشتے داروں کا تعلق یہیں تو کُھلتا ہے کہ وہ جو مرنے پر بین کر رہے تھے، مرنے کے بعد آپ کو کتنا یاد رکھتے ہیں۔ قبرستان تو خود ایک دنیا ہے، اس دنیا کے باسی کسی سے کچھ بھی تو طلب نہیں کرتے، کوئی پانی چھڑک دے تب بھی، نہ چھڑکے تو بھی، کوئی پھول رکھ دے اور نہ رکھے تب بھی، عجب دنیا ہے یہ، جی ہم اس پر بات کرتے رہیں گے اس لیے کہ یہ تو میرے ساتھ ہی رہا ہے اور رہے گا۔

سچ پوچھیے تو مجھے قبرستان سے زیادہ کوئی اور مقام نہیں بھایا، اب آپ اسے میری قنوطیت مت سمجھ لیجیے گا، نہیں بالکل نہیں، اگر آپ ایسا سمجھیں گے تو یہ دعویٰ ہوگا کہ آپ مجھے جان گئے ہیں، چاہے تھوڑا سا ہی، تو دست بستہ عرض گزار ہوں کہ جناب! میں خود اب تک یہ دعویٰ نہیں کرسکا کہ میں خود کو جان گیا ہوں تو آپ کیسے یہ کرسکتے ہیں؟ خیر آگے بڑھتے ہیں۔ بابا جی قبرستان میں روتے تو تھے ہی لیکن گاتے بھی تھے، چہکتے بھی تھے، اور چاندنی راتوں میں تو ان کا رنگ ہی دیکھنے کا ہوتا تھا، کبھی رو رہے ہیں، کبھی ہنس رہے ہیں۔

کبھی ناچ رہے ہیں اور کبھی ان کا بلند قہقہہ گونجتا۔ جی بہت طویل ہے داستاں، آپ سننے پر جب تک آمادہ رہیں گے، سنائی جاتی رہے گی ورنہ خموشی تو ہے ہی ناں۔ تو بابا جی کہتے تھے جس جگہ مستقل جانا ہے وہاں کے باسیوں سے پہلے ہی سے راہ و رسم پیدا کرو کہ جب تم آؤ تو اجنبی نہ رہو۔ میں سوال کرتا جو میری سرشت میں گُندھا ہوا ہے کہ کیسے؟ تو مسکرا کر پہلے پیار اور شفقت بھری ایک چپت رسید کرتے اور پھر کہتے: دیکھو یہ میں تمہیں نہیں بتا سکتا، یہ تو تمہیں خود سوچنا چاہیے، سیدھی بات ہے جہاں جانا ہے تو اس جگہ کی زبان سیکھو، رسم و رواج سیکھو، ان سے دوستی کرو، ان کے ماحول میں رچ بس جاؤ کہ جب تم مستقل آجاؤ تو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ سمجھے کہ نہیں کہہ کر وہ مسکراتے۔ جی انہوں نے میری تربیت کی، ایسی کہ مت پوچھیے، جانتے تھے وہ۔ مجھے اس سے آگے منع کیا گیا ہے کہ میں یہیں رکوں تو بس اتنا ہی، کبھی آگے بڑھنے کا پروانہ ملا تو چلیں گے آگے بھی۔

تو بات ہورہی تھی قبرستان کی، کبھی کبھی کتنا مشکل ہوجاتا ہے لکھنا۔ کیسے لکھیں، کیا لکھیں، کس کے لیے لکھیں۔ الفاظ یوں دور بھاگتے ہیں جیسے کوئی ہم کوڑھی ہوں۔ الفاظ کا ایک تقدس ہوتا ہے۔ یوں ہی تو نہیں ہوتا ناں وہ کہ بس قلم اٹھایا اور صفحات کا پیٹ بھر دیا۔ لیکن کبھی کبھی الٹ ہوجاتا ہے۔

لفظ قطار باندھے کھڑے ہوجاتے ہیں اور لکھاری سے التجا کرتے ہیں کہ لکھ ڈالو۔ پَر لکھاری بھی کیا لکھے! کیسے لکھے اور کس کے لیے لکھے! اندر کی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کفالت نہ کریں تو ایسے میں سوائے خموشی کے کچھ چارہ نہیں رہتا۔ بس خاموشی۔ اندر کا قبرستان کتنا اجڑا ہوا، بے چراغ اور گُلوں سے محروم ہوتا ہے۔ ہم سب اپنا قبرستان خود اٹھائے سرگرداں رہتے ہیں۔ اپنی قبر ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ جہاں موت نے دبوچا وہیں پیوندِ خاک ہوگئے، اندر کی قبر ظاہر ہوگئی۔ لیکن کس قدر سادہ ہیں ہم، سمجھتے ہیں سب کچھ ٹھیک ہے۔ کوئی نہیں، کبھی نہیں، کچھ بھی تو ایسا نہیں ہوگا۔ اتنے منصوبے، اتنے پروگرام بناتے ہیں اور بُھول جاتے ہیں اندر کی قبر پکار رہی ہے: مجھے بھرنا ہے۔ مجھے بھرنا ہے تُو نے اپنے ناز و نعم سے پالے ہوئے جسم سے میری کوکھ بھرنی ہے۔ کب آئے گا تُو۔ آخر کب۔ میں کتنا انتظار کروں تیرا۔ کب آئے گا تو!

کبھی ہم نے اپنے اندر کی قبر کی وحشت ناک چیخیں سنی ہیں۔ نہیں، میں نے تو نہیں سنیں۔ پَر نہ سننے سے کیا ہوتا ہے! ہونی ہوکر رہتی ہے۔ سُنی اَن سُنی کردو، کچھ نہیں ہوتا۔ ہونی ہوکر رہتی ہے۔ لیکن ایسا بھی کتنا عجیب سا لگتا ہے ناں کہ سب انسانوں کی قبریں ایک ساتھ پکارنا شروع ہوجائیں۔ آؤ، آؤ! بال کھولے بین کرتی ہوئی موت لوگوں کو ایک ساتھ پکار رہی ہو۔ اگر ہم اپنے کان کھول لیتے تو ہمیں بھی سنائی دیتا۔ پَر کیسے سنائی دیتا! اتنی ڈرا دینے والی آواز آخر ہم کیوں سنیں! چلیں ہم سُن بھی لیتے تو کیا کرتے؟ کچھ بھی نہیں۔ کچھ بھی تو نہیں کرسکتے تھے ہم۔ موت سے نہیں بھاگ سکتے ہم۔ کہاں بھاگ سکتے ہیں۔

زندگی پر موت کا پہرا لگا ہوا ہے۔ ہم سو جاتے ہیں وہ جاگتی رہتی ہے۔ موت کا پہرہ۔۔۔۔ کوئی بچ کر نہیں نکل سکتا اس سے۔ چاہے کوئی بھی ہو۔ زردار ہو یا بے زر، توانا ہو یا کم زور، عقل کا پُتلا ہو یا مجھ ایسا مجسم حماقت، زاہد، عابد ہو یا خدا بے زار، مجلسی ہو یا مردم بے زار، بچہ ہو، معصوم ہو، کلی ہو یا پھول ہو، کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ موت کچھ بھی نہیں دیکھتی۔ اپنا کام کرتی ہے۔ بروقت موت۔۔۔۔ نہ ایک لمحہ آگے نہ پیچھے۔ مہلتِ عمل پوری ہوئی تو بس دیر نہیں لگاتی۔ لے اڑتی ہے اپنے شکار کو۔۔۔۔ کچھ نہیں دیکھتی۔ یہ بھی نہیں کہ اتنی محنت کے بعد گھر بنایا ہے۔ ابھی تو بیٹا باہر سے آیا ہے۔ بیٹی جوان ہوگئی ہے۔ کتنے کام باقی ہیں۔ ابھی تو آگے جینا ہے۔ نئے کچھ خواب دیکھے ہیں انھیں تعبیر کرنا ہے۔

ابھی تو یہ بھی کرنا ہے ابھی تو وہ بھی کرنا ہے۔ جیون کے امرت رس کا مزہ ہی ایسا ہے، آگے آگے اور آگے۔ پَر موت کا ذائقہ چکھے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ جب ہمیں اچھی طرح پتا ہوتا ہے کہ یہاں نہیں رہنا تو پھر ہم کیوں ایسی حقیقت سے منہ چھپاتے ہیں! کیوں سچائی کا، حقیقت کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔ پتا ہے کہ سر ریت میں دے لینے سے کچھ نہیں ہونے والا، کچھ بھی تو نہیں۔ تو پھر بھی دھوکا اور کھلا دھوکا کھانے میں کتنا سرور محسوس کرتے ہیں۔ نشّہ سا ہوگیا ہے ہمیں۔ کبھی سوچا ہے کس طرح زندگی گزار رہے ہیں ہم۔ کچھ نہیں سوچتے، کچھ نہیں دیکھتے، بس دریا کے رخ پر بہے چلے جا رہے ہیں۔ ہر طرف سے آواز آرہی ہے جیسے چاہو جیو۔ ہاں میرا بھی جی چاہتا ہے، کاش ایسا ہوجائے۔ جیسے جی چاہے کر گزرو۔ پَر نہیں کرسکتا ناں ایسا۔۔۔۔ بالکل نہیں ہوسکتا۔

ہم ایک ضابطے کے پابند ہیں۔ من چاہی زندگی نہیں گزار سکتے۔ کیسی زندگی۔ بس چند گھڑیاں چند لمحے۔ یہی ہے زندگی! اس کو سمجھ لیا ہے ہم نے زندگی۔ سب مایا ہے، سب مایا۔۔۔۔ کچھ نہیں بچے گا۔ کچھ بھی تو نہیں رہے گا۔ بس نام رہے گا اﷲ کا۔ نت نئے مصائب، ناگہانی آفات ہمیں تنبیہ کرتی رہتی ہیں، سنبھل جاؤ۔ اب بھی وقت ہے، اپنا رخ ٹھیک کرو۔ اپنا رہن سہن سدھارو۔ انسانوں پر ظلم بند کرو۔ ان کی تحقیر مت کرو۔ خدا بننے کی کوشش بند کرو۔ نہیں بن سکتے تم خدا۔ کبھی نہیں، کبھی بھی نہیں۔ تم مجبورِمحض ہو، یہی رہو گے۔ اپنی اوقات میں رہو۔

اپنی ہستی پہچانو۔ رب سے جنگ کرنے چلے ہو۔ کوئی نہیں جیت سکا اس سے، کوئی بھی نہیں۔ اب بھی وقت ہے، درِتوبہ کھلا ہے۔ اقرار کرلو اپنی بے بسی کا۔ اپنی اکڑی گردن جھکادو، اُس کے آگے سجدہ ریز ہوجاؤ۔ عاجزی اختیار کرو۔ کوئی دُور نہیں ہے اُس کی خُوش نودی، وہ تو تمہاری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، اور کتنا قُرب چاہیے تمہیں۔ وہی ہے گھاؤ بھرنے والا۔ بڑے سے بڑے حادثے کو رحمتوں میں بدل دینے والا۔ عبرت پکڑو۔ زمینی خداؤں سے انکار کردو۔ خالقِ حقیقی کے بن جاؤ۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ سب کا بھلا سب کی خیر۔ ہم اس طرح کیوں نہیں سوچتے کہ رب تعالٰی نے زندگی کی سب سے بڑی محافظ موت کو بنایا ہے، واہ جی واہ، موت زندگی کی حفاظت کرنے پر مامور کی گئی ہے اور وہ ایسے کہ جب تک وقت نہیں آیا کوئی آپ کی زندگی نہیں چھین سکتا، چھین ہی نہیں سکتا کہ اس پر موت کا پہرہ جو لگا ہوا ہے، کب آئے گی، کہاں آئے گی، کیسے حالات میں آئے گی۔

یہ سب کچھ لکھا جاچکا ہے اور وہ دن مقرر کردیا گیا ہے تو اب آپ سکون سے رہیں کہ کوئی بھی آپ کا جیون نہیں چھین سکتا اور جب سمے آگیا تو کوئی بھی، جی کوئی بھی اس سمے کو واپس دھکیل نہیں سکتا۔ موت کبھی کسی کو کسی کے حوالے نہیں کرتی، کبھی نہیں بس خود حفاظت کرتی ہے اس سمے تک جو لکھا جاچکا ہے تو بس شانت رہیے، کبھی کبھی قبرستان جایا کیجیے اور وہ کرنے کی کوشش کیجیے جو مجھے بابا نے بتایا اور سکھایا۔ بابا کُھبے ہوئے ہیں۔

مجھ نادان و ناہنجار میں اور صرف وہی نہیں اور بھی بہت سارے بابے، اصل راز زندگی کو پائے ہوئے، یک رنگ بھی اور ہمہ رنگ بھی، تنہا بھی اور محفل سجائے ہوئے بھی، بہت عجیب ہوتے ہیں جی یہ۔ اور کوئی آپ کے دل میں کھب جائے تب کیا ہوتا ہے! آپ یکسر بدل جاتے ہیں، پھر آپ اپنے بس میں نہیں رہتے۔ عقل کچھ کہتی ہے اور آپ اس کا کہا نہیں مانتے۔ آپ دل کے فیصلے پر فدا ہوجاتے ہیں۔۔۔۔ ہاں، لاکھ طوفان آئیں، آندھیاں چلیں، اور چلتی بھی ہیں۔ نصیحتیں کرنے والے آپ کو سیاہ قلب و نظر سمجھتے ہوئے فراموش کر ڈالتے ہیں۔ وہ اتنی سادا سی بات بھی نہیں جانتے کہ جب کوئی خود کو بھی فراموش کر دے تو وہ کیا دلیل مانے گا! اس لیے کہ وہ یہ بات جان چکا ہوتا ہے جو بابے اقبال نے بتائی ہے: ''عقل عیّار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے۔''

آپ کہیں اور ہوتے ہیں۔۔۔۔ اپنے آپ سے بھی بے خبر۔ مُحِب، محبوب پر نثار ہوتا ہے۔ اس کی ہر ادا پر۔۔۔۔ چاہے وہ کسی کو اچھی نہ لگے۔ مُحِب اور محبوب پر تو بہت کچھ کہا گیا، لکھا گیا اور یہ چلتا بھی رہے گا۔ یہ جو تعلق ہے، اسے کیسے بیان کیا جائے۔ بہت مشکل ہے۔۔۔۔ بہت ہی مشکل اور جان لیوا۔ ہاں اسے آگ بھی کہتے ہیں کہنے والے۔۔۔۔۔ لیکن ہر ایک کا نصیبا نہیں ہوتا کہ وہ اس آگ میں خود کو بھسم کر ڈالے۔ خود اختیار کردہ ہوتا ہے۔ کوئی جبر نہیں ہوتا۔ بس محبوب کی ہر ادا پر نثار اور اس کے جنبشِ لب کا منتظر۔۔۔۔ بس اشارہ ہوا اور وہ آگ میں کُود جاتا ہے۔ کچھ نہیں سوچتا۔۔۔۔ وہ تو بس محبوب کو دیکھتا ہے۔ عقل محوِتماشائے لبِ بام ہوتی ہے اور وہ کُود جاتا ہے۔ لوگ دانا اور بینا انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں۔ انہیں کچھ پلّے نہیں پڑتا کہ یہ سب کچھ کیا ہے۔ یہ الگ تجربہ ہے، اس میں کوئی شریک نہیں کیا جاسکتا۔ ہے ناں اسی طرح!!

جب انسان عشق کی منزل میں ہو تو پھر سمے، سمے نہیں رہتا۔ اک سرشاری ہوتی ہے اور وہ بھی دائمی۔ پیار اک بہار ہے اور اسے خزاں نہیں ہے۔ محبت ایک روشنی ہے اور وہ اندھیروں کو راہ نہیں دیتی۔ اس روشنی میں اصل منزل تک پہنچتا ہے انسان۔ محبت اک سایہ دار درخت ہے جس کی گھنی چھاؤں سکون ہی سکون ہے۔ محبت مسکراہٹ ہے۔ عجیب سی بات ہے اس میں غم بھی سکون پہنچاتا ہے اور آنسو بھی۔۔۔۔ ہجر بھی وصال بھی۔۔۔۔ بہت عجیب ہے یہ۔ جب تعلق پیدا ہو جائے، کوئی کُھب جائے دل میں، تو پھر اس کا ہر اشارہ حکم کا روپ دھارتا ہے۔

مُحِب، محبوب کے آگے سر تسلیم خم کردیتا ہے اور پھر جب وہ فرمائش کردے تو مُحِب یہ نہیں دیکھتا کہ طوفان ہے، آندھی ہے، بارش ہے، دھوپ ہے، دن ہے، رات ہے۔۔۔۔ بس وہ نکل کھڑا ہوتا ہے، چاہے جان چلی جائے لیکن محبوب کا حکم سر آنکھوں پر ۔ کر گزرتا ہے وہ۔ ہاں لوگ اسے دیوانہ کہتے ہیں، پاگل اور بے وقوف سمجھتے ہیں۔ جوگی اور آوارہ کہتے ہیں۔ سر پھرا اور نہ جانے کیا کیا۔ لیکن وہ کسی کی نہیں سنتا۔ بس سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔ یہی اس کی زندگی ہوتی ہے۔ جینا اور مرنا محبوب کے لیے۔ ہاں پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ جینا، جینا نہیں رہتا۔ مرنا، مرنا نہیں ہوتا۔ بس اشارۂ ابرو کا منتظر رہتا ہے وہ کہ حکم ہو اور وہ تعمیل کے لیے جُت جائے۔۔۔۔ اور پھر وہ منزل بھی آتی ہے جب محبوب کے دل میں خیال بھی پیدا ہو تو اسے علم ہوجاتا ہے۔ بہت بڑی منزل ہے۔ یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ خوش نصیبی کہیے اسے۔

جمعے کی نماز پڑھ کر میں اور میرا چھوٹا بیٹا اور دوست فرقان تفسیر جو اب سندیافتہ فلسفی ہے، بہت ہی زیرک و دانا، باہر نکلے تو بہت عجیب سا سوال کر بیٹھا وہ۔ کہنے لگا: یار بابے یہ بتاؤ کہ ہم اﷲ کی بات کیوں نہیں مانتے؟ میں تو تیری بھی مانتا ہوں۔ تو کہتا ہے ہاں یہ کام ہوجائے گا تو میں بہت مطمئن ہوجاتا ہوں کہ اب ضرور ہوجائے گا۔ لیکن ہم اﷲ جی کی بات نہیں مانتے، اس پر اعتماد نہیں کرتے۔ کیوں؟ میں نے کہا: پڑھا لکھا تو تُو ہے اور پوچھ مجھ جیسے عامی سے رہا ہے، عجیب ہے تُو! مجھے نہیں معلوم، تُو بتا۔ پہلے تو بہت ہنسا اور کہنے لگا: آوارگی کو جیون نہ کرتا، کچھ لکھ پڑھ لیتا تو کچھ سیکھ ہی جاتا لیکن چل اب جتنا مجھے معلوم ہو سکا میں بتاتا ہوں، مجھے تو یوں لگتا ہے ہمیں اﷲ جی سے محبّت ہی نہیں ہے، بس ویسے ہی کہتے رہتے ہیں، خالی خولی زبانی کلامی بس رسماً۔

میں نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا، بہت پیار بھی کیا اور اس کی تائید کی۔ مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔ میں آپ کی بات نہیں کر رہا۔ میں بہت دعویٰ کرتا ہوں محبّت کا۔ لیکن یہ ہوتی کیا ہے؟ نہیں معلوم۔ اگر اپنے رب سے میرا تعلق قائم ہوجائے تو بہت آسان ہوجائے ناں اس کی ہر بات ماننا! بہت آسان۔ پھر میں کوئی چُوں چَراں نہیں کروں گا۔ ہر وقت بس وہی کروں گا جو میرا رب کہے گا۔ مجھے دنیا کی کوئی پروا نہیں ہوگی۔ لاکھ کوئی دانش وری جھاڑے مجھے کچھ نہیں ہوگا۔ لاکھ دلیل لائے، ڈرائے، دھمکائے، میں باز نہیں آؤں گا۔ ساری دنیا خفا ہوجائے تب بھی میں مطمئن رہوں گا۔ اس لیے کہ وہ خالق ہے اور مالک بھی۔ میں اس کے سامنے سر تسلیم خم کردوں گا۔ پھر مخلوق کے دل کو کشادہ تو وہ کرے گا، میں نہیں۔ آسانیاں تو وہ پیدا کرے گا، دکھ درد تو وہ دور کرے گا۔

مجھے تو بس اپنے رب کے سامنے سر جھکا کے منتظر رہنا ہے اور اس کا حکم بجا لانا ہے۔ بس یہ ہے اصل، باقی سب کہانی ہے، داستان اور فسانہ ہے۔ ہم مصوّر کو چھوڑ کر تصویر کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی طرف۔۔۔۔ عجیب بات ہے ناں! وہ جو حقیقتِ ازلی ہے۔ وہ جو اوّل و آخر ہے، اس پر اعتماد نہیں کرتے، اور پھر سراب ہی سراب رہ جاتا ہے ہماری زندگی میں۔ اقبال بابے نے تو جڑ پکڑی: ''تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں'' کہہ دیا اور اپنے نورِبصیرت عام کو کرنے کی دعا کرڈالی۔ یہ ہم جو عقل و خرد کے مقلّد ہوگئے ہیں، اسے کبھی کبھی تنہا بھی چھوڑ دینا چاہیے۔ کیا میں جو بات کہنا چاہ رہا ہوں آپ تک پہنچ گئی ہے۔ تو بس دعا کیجیے گا۔ آپ تو اپنے رب سے بہت قریب ہیں۔ آپ تو صاحبِ دعا ہیں۔ وہ سب کچھ بن مانگے دیتا ہے۔ لیکن راز کی بات یہ ہے کہ یہ جو تعلق ہے اس کے لیے اپنے دل کی آگ اسے پیش کر دیجیے اور چپ چاپ اس میں سلگتے رہیے تو نظر کرم ہوجائے گی۔ ضرور ہوجائے گی۔ پَر دل سے اور بہت آہ و زاری کے ساتھ۔ وہ ایک بابے کی ایک اور بات یاد آگئی: ''انسانی عقل و خرد کی تمام طاقتیں مکڑی کے کم زور جالے کے سامنے بے بس ہیں۔''

جانِ من با کمالِ رعنائی

خود تماشا و خود تماشائی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔