ہم اپنے ملک کے سب سے بڑے دشمن خود ہیں

درست ہے کہ قومی یکجہتی ہونی چاہیے۔قومی ترانے سے روح تک معطرہونی چاہیے۔ملک سے محبت ایمان کا درجہ ہوناچاہیے۔


راؤ منظر حیات March 30, 2019
[email protected]

ہمارے ملک میں سب سے مشکل کام سچ بولنا ہے۔ لوگوں کوحقیقت سے آگاہ کرناہے۔وجہ صرف ایک کہ سات دہائیوں کے مسلسل جھوٹ نے حقیقت پسندی ہمارے ذہن کے آخری حصہ سے بھی نکال باہرکی ہے۔

داستان گوافراد نے پورے ملک کی نفسیات کومکمل طورپرتبدیل کردیا ہے۔ غیر حقیقی بیانیے سے ایک لفظ بھی انحراف کامطلب ہے کہ آپکو ملک دشمن،یہودوہنودکاساتھی اوراین جی اوکانمایندہ قراردے دیاجائیگا۔مگرجن مذہب فروشوں نے ملک برباد کر ڈالا،ہماری نسلوں کوخون میں نہلادیا،ہمیں دہشت گردی کے پیہم عذاب میں مبتلاکرڈالا،آج بھی وہ خواب فروخت کر رہے ہیں۔

اپنی ہرکمزوری کوامریکا،ہندوستان،اسرائیل اور مغرب کی سازش قراردے رہے ہیں۔یہودوہنودکی سازشوں کا بیانیہ سن کر پوری قوم کوایک ایسی کیفیت میں مبتلا کر دیا گیا ہے جہاں صحیح سوچنے اوردرست عمل کی قوت ہی چھین لی گئی ہے۔اس ماحول میں بندہ کیاکرسکتاہے۔سوائے اس کے کہ ذہنوں پر دستک دے۔ سوچنے اورتحقیق کی دعوت دے۔ اپنے زمانے کے ساتھ چلنے کی معمولی سی کوشش کرے۔ پر اب لگتاہے کہ اس سناٹے میں کوئی سننے والا نہیں ۔اس شہر خموشاں میں سب سوچکے ہیں۔اپنی ہرکمزوری سے غافل اور اپنے معاشرہ کی ہرمنفی چیزکوبیرونی عوامل میں تلاش کرنے والے لوگ۔

درست ہے کہ قومی یکجہتی ہونی چاہیے۔قومی ترانے سے روح تک معطرہونی چاہیے۔ملک سے محبت ایمان کا درجہ ہوناچاہیے۔مگرکیایہ سب کچھ اتنے بگڑے نظام کے بعدممکن ہے۔چلیے جانے دیجیے ۔فرض کرلیں کہ ہمارے ملک میں سب کچھ درست ہے۔پھرہزاروں نہیں لاکھوں پاکستانی اپنی جمع پونجی خرچ کر،جان خطرے میں ڈال کر،غیرقانونی طریقے سے ملک سے ہجرت کرنے پرکیوں مجبور ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی غیرقانونی طورپرنقل مکانی کرنے پرنظر ڈالیے۔ ان پرتوڑی جانے والی قیامت کا احاطہ کیجیے۔

اس میں آپکو پاکستانی ضرورملیں گے۔ میکسیکو سے امریکا میں داخل ہونے والے لوگوں میں بھی ہمارے شہری شامل ہیں۔یہ پہلے انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں برباد ہوتے ہیں۔پھرمغربی ملکوں کی پولیس کے ظلم کانشانہ بننے پر مجبورہوجاتے ہیں۔سوال ہے کہ کیوں،کیایہ سب سے بھرپور دلیل نہیں ہے کہ ان لوگوں کو اپنے ملک میں امید اور روزگار کی کوئی لکیرنظرنہیں آتی۔مایوسی میں ہروہ قدم اُٹھانے پرآمادہ ہوجاتے ہیں،جس میں جان اورمال سب کچھ داؤ پر ہوتا ہے۔پاکستان میں سب کچھ چھوڑ کریہ لوگ مغربی ممالک میں کیوں ہجرت کرتے ہیں۔ خدارا، غورکیجیے۔ہمارانظام کسی صورت میں عام آدمی کو باعزت روزگار دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

مغرب اپنے عام باسیوں کو اچھی زندگی دینا فرض سمجھتاہے۔اس سے بڑھ کرتلخ حقیقت کیا ہو سکتی ہے کہ برباد اداروں اورجانورکی سطح پررہنے والی زندگی کو خیربادکہہ کریہ نوجوان لوگ اپنے خوابوں کی تعبیرکے لیے ملک چھوڑتے ہیں۔مگران کی مجبوری کوحل کرنے کے بجائے ان کے متعلق اب یہاں تک لکھاجارہاہے کہ مشرک معاشروں میں جانے والے غیراسلامی کام کررہے ہیں۔کس کس بات پر ماتم کیاجائے۔کس کس بات پر۔ کیا اپنے ملک کے نظام کو درست کرنے سے ہمیں یہودوہنود روک رہے ہیں۔کون سی طاقت ہے جوہمیں ستربرس سے ملک کے نظام کے معمولی سے حصے کوبہترکرنے سے منع کررہی ہے۔کوئی بھی نہیں۔ ہم خودہی کچھ مثبت کام نہیں کرناچاہتے۔ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے ہیں پتہ نہیں کس انہونی کے انتظار میں۔

بڑی بڑی باتوں کو رہنے دیجیے۔ملک میں کھانے پینے کی کسی ایک چیزکواُٹھالیجیے۔دودھ کولے لیجیے۔کیایہاں خالص دودھ ملنے کاکوئی تصورباقی رہ گیا ہے۔کیاآپ پاکستان کی کسی ایک دکان پر جاکر وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ یہاں دودھ حقیقت میں خالص دستیاب ہے۔لاہورجیسے شہر میں جہاں بسمہ اللہ کے نام پر ملک شاپ سے لے کرہردینی نعرے سے مزین دکانیں موجودہیں۔مگردودھ کاایک قطرہ بھی خالص بیچنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا خالص دودھ نہ بیچنے کی سازش ہندوستان میں تیارہوئی تھی۔

کیاواقعی یہ ایک بیرونی سازش کے تحت ہورہا ہے۔دودھ کو صرف استعارہ جان لیجیے۔اس کی جگہ کسی بھی چیز کانام لے لیجیے۔ نتیجہ وہی ہوگا۔ادنیٰ،گھٹیااورجعلی چیزیں۔ قیامت یہ ہے کہ ہماراملک جعلی دوائیاں بنانے والوں میں سے سب سے بڑانام ہے۔شایدیقین نہ آئے۔ مگر نمبر دو دوائیاں بنانے کے سب سے زیادہ کارخانے ہمارے ملک میں قائم ہیں۔ یہاں سرِعام،لوگوں کو جانوروں کی دوائیاں دی جارہی ہیں۔جعلی انجکشن لگائے جارہے ہیں۔ہم نے اپنے شہریوں کی صحتیں گروی رکھ دی ہیں۔ جعلی دوائیاں بنانے اوربیچنے والاایک خاص گروہ مذہبی حلیہ کی آڑلے کرغلیظ کام کرنے میں مصروفِ کار ہے۔ چلیے، دوائیوں کوبھی رہنے دیجیے۔عطائی ڈاکٹروں، حکیموں اور معالجین کو دیکھ لیجیے۔ ملک کے ہرشہر،قصبے،محلے میں جعلی ڈاکٹر قیامت پھیلارہے ہیں۔

مریضوں کوجان سے مارا جارہاہے۔کوئی پوچھنے والا نہیں۔حدتویہ ہے کہ یہ جعلی ڈاکٹر، اپنے آپکوپروفیسرکہتے ہیں۔ریڈیو،ٹی وی اور اخباروں میں بڑے بڑے اشتہار دیتے ہیں۔ سادہ لوح آدمیوں کے لیے موت کے بیوپاری ہیں۔ خاندان کے خاندان اُجاڑ رہے ہیں۔کیاانھیں بھی اسرائیل کی حکومت نے یہ سب کچھ کرنے پرمامورکیا ہوا ہے۔کیا یہودی لابی ان جعل ساز لوگوں کی پشت پناہی کررہی ہے۔نہیں صاحبان نہیں۔یہ تمام لوگ الحمدللہ مسلمان ہیں۔ اسی باعزت ملک کے بہت ہی معتبرشہری ہیں۔یہ ہمارے پیارے پاکستانی ہیں۔ بغیر کسی رکاوٹ کے وہ سب کچھ کررہے ہیں،جس کاتصوربھی مہذب دنیا میں کرنا ناممکن ہے۔

ملک کے انتظامی ڈھانچے کودیکھ لیجیے۔اس کے نظامِ عدل یاانصاف کوپرکھ لیجیے۔ویسے میرے نزدیک ہمارے ملک میں کسی قسم کانظام نہیں ہے۔نہ انتظامی طورپراورنہ ہی انصاف کے حوالے سے۔مگرمجبوری ہے کہ جوبھی موجود ہے،اسے انتظامیہ اورعدلیہ کہناپڑتاہے۔اگرآپکوکسی بھی سرکاری ادارے سے کام پڑجائے تواس کی ادنیٰ حیثیت کاعلم ہوجاتاہے۔دعوے سے عرض کرتاہوں۔بذاتِ خودانتظامی افسررہاہوں۔انگریزکابنایاہوانظام بذاتِ خودناقص تھا۔ مگر چالیس پچاس برس میں اس کی جودرگت بنائی گئی ہے،اس کا اندازہ لگانااَزحدمشکل ہے۔

ایک لولی لنگڑی انتظامیہ کوفالج زدہ کردیاگیاہے۔اس کے بخیے تک اُدھیڑدیے گئے ہیں۔ اسے ایک ایسے جانورمیں تبدیل کردیاگیاہے جوصرف اور صرف سیاسی دشمنوں کوبربادکرنے کاہنر جانتا ہے۔ ہر حاکم،اسے ایک پالتوجانورکی طرح استعمال کرتا ہے۔ اور جب اپوزیشن میں جاتاہے تومیرٹ اورسیاسی انتقام کی رٹ لگاناشروع کر دیتاہے۔مگرکوئی بھی وزیراعلیٰ،وزیراعظم یاصدر،انتظامیہ کا قبلہ درست کرنے کامشکل کام نہیں کرتا۔اس کی نااہلی اور کرپشن حکمران طبقے کومزیدطاقت دیتی ہے۔مثال دینا اَزحدآسان ہے۔سابقہ حکمران میرٹ اورشفافیت کی ہروقت باتیں کرتے رہتے تھے۔

پٹواراورتھانہ کوتبدیل کرنے کے دعوے کرتے رہتے تھے۔ان کے پورے دس سال میں ایک بھی پوسٹنگ میرٹ پرنہیں ہوئی۔ انکاصرف ایک تقاضاتھا۔یہ افسر ان کے لیے کتنی وفاداری کا جذبہ رکھتاہے۔ان کے ذاتی کام کتنی چابکدستی سے کرتا ہے۔ دعوی کی بنیاد پر کہتا ہوں۔ اگرکوئی افسر ان کادم بھرتاتھا۔تواس کے سارے گناہ معاف تھے۔ہرطرح کی کرپشن کرنے کے باوجودصاف ستھرا اور ایماندارتھا۔نام نہیں لکھناچاہتا۔ان کی اولاد نے من پسند لوگوں کی ٹرانسفرپوسٹنگ میں حددرجہ دخل اندازی کی۔کس بنیادپرکی،اس منفعت کو روا رکھا۔یہ سب کے علم میں ہے۔ مگرثابت کرناناممکن ہے۔سوال یہ ہے کہ کیاہمارے انتظامی اُمورہندوستان نے بربادکیے ہیں۔کیایہ سازش بھی راکی ہے کہ پوراملکی نظام لہولہوہے۔نہ کسی کی عزت محفوظ ہے۔نہ جان اورنہ مال۔یہ سب کچھ ہمارے پیارے ہم وطنوں نے انتہائی گھٹیاپن سے سرانجام دیاہے۔

نظام عدل یاانصاف پربات کرنی اَزحدلازم ہے۔ عدالتوں کے کام کرنے پرغورکیجیے۔آپکویہاں سب کچھ ملے گا سوائے عدل کے۔کسی کچہری میں جانے کی ہمت کریں۔جعلی گواہ،ججوں کے ٹاؤٹ، وکلاء کے دلال اوراسی طرح کی حیرت انگیزمخلوق نظر آئیگی۔جوصرف اورصرف کچہری میں پائی جاتی ہے۔یہاں آپ کو نمبر دو ایف آئی آر، مقدموں کو غیرمعمولی طوالت دینے کے ماہرین،عدالتی عملے کی الگ فوج اورجعل سازی کے ماہرین کے جھتے نظر آئینگے۔ انصاف دینے والوں کی ایک کثیر اکثریت پیسے لے کرفیصلے کرتی ہے۔

پراپرٹی مافیانے حکم امتناعی خرید کر رکھے ہوئے ہیں۔قیامت یہ ہے کہ مافیا بذاتِ خود اس پرتاریخ ڈال کرآپکی پوری جائیداد کوہڑپ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔آپکودھکے کھانے پرمجبور کرکے، یہ تمام لوگ،نظام عدل کواس قدرگرفت میں رکھتے ہیں کہ کوئی ہل تک نہیں سکتا۔ہرشہرمیں اسی طرح کے قبضہ مافیاموجودہیں۔کیایہ لوگ اسرائیل سے آئے ہیں۔ نہیں صاحب،یہ سب لوگ ہمارے پیارے دلارے ملک کے باعزت شہری ہیں۔یہ بذاتِ خود نظام ہیں۔نظامِ انصاف بھی یہی ہیں اورانتظامیہ بھی یہی۔حاکم بھی یہی اور منبرومحراب پربھی یہی قابض۔

کوئی بات نہیں کرسکتا کہ یہودوہنود نہیں،ہم بذاتِ خود اس ملک کے سب سے بڑے دشمن ہیں!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں