شام میں سامراجی مداخلت
اسد حکومت نے اپنے ہی عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیا ہے۔
امریکی صدر اوباما کے اس اعلان نے کہ امریکا باغیوں کی حمایت کرے گا، خطے کی صورت حال کو یکسر بدل دیا ہے۔ وہائٹ ہاؤس کے اس اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب باغیوں کو براہ راست فوجی ساز و سامان کی ترسیل کرے گا۔ اس اعلان کے جواز کے طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ اسد حکومت نے اپنے ہی عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیا ہے۔ یہ اسی قسم کا الزام ہے جس طرح دس سال قبل امریکا نے عراق پر لگایا تھا کہ اس کے پاس وسیع تباہی کے مہلک ہتھیار موجود ہیں۔ شام کی جنگ میں مرنے والوں کی حقیقی تعداد 150,000 تک ہو سکتی ہے۔ اب تک جتنے لوگ مرے ہیں یہ کیمیائی ہتھیاروں سے نہیں بلکہ گولیوں، بموں، دھار دار آلے اور عام چاقو سے مارے گئے جب کہ ہزاروں کو ذبح کیا گیا اور بہت سوں کے گلے کاٹے گئے۔ بچوں کو ان کے والدین کے سامنے گولی ماری گئی۔ واشنگٹن کے کسی بھی نمایندے نے اس قتال کو ''ریڈ لائن'' کے طور پر قرار نہیں دیا۔
مغربی ذرائع ابلاغ صرف حکومتی جارحیت کو اجاگر کرتی ہے، مخالفین کی کوئی خبر عیاں نہیں کرتی۔ وہ ان کرایے کے بچوں کو نہیں دیکھتے جنھیں باغیوں نے فوجیوں کے گلے کاٹنے کے لیے ملازمت پر رکھا ہوا ہے۔ یا ''سکر'' جو کہ ''انڈیپنڈینٹ عمر الفاروق بریگیڈ'' کا کمانڈر ہے سپاہیوں کا دل اور کلیجہ کاٹ کر اس کے منہ میں رکھتے ہوئے چلاتا ہے کہ ''اے میرے ''بابا امر'' کے بہادرو! علویوں کو ذبح کرو اور دل نکال کر انھیں کھانے کے لیے پیش کرو''۔ 27 مئی کو باغیوں نے عیسائیوں کو قید کر کے ڈائنامائٹ سے اڑا دیا۔ شام میں عیسائی 10 فیصد اور علوی 13 فیصد ہیں۔ اب تک 4 لاکھ عیسائی ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ اسے کوئی میڈیا عیاں نہیں کر رہا ہے، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ میڈیا کتنا آزاد ہے، جب انھیں جھنجھوڑا جاتا ہے تو وہ مجبور ہوکر معذرت خواہانہ انداز اختیار کرتے ہیں۔
امریکا کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس کئی بار ''سیرین گیس'' کا استعمال ہو چکا ہے۔ اگر ایسا ہوا تھا تو بہت پہلے ان کی تحقیقات کیوں نہیں کی گئی؟ اتنے عرصے بعد کیوں یاد آیا؟ اقوام متحدہ کی جانب سے یہ بات ابھی تک حتمی طے نہیں پائی کہ گیس کس کی جانب سے استعمال ہوا۔ یہ ممکن ہے کہ قطریہ اور سعودیہ سیرین گیس کی ترسیل جہادی گروپ کے ذریعے کی گئی ہو تا کہ امریکی سامراج کو مداخلت کے لیے اکسایا جا سکے۔ صدر بشار الاسد نے لبنان کے سرحدی شہر ''کوژ'' پر جب فیصلہ کن حملہ کیا تو مغربی سامراج نے یہ پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ شام میں غیرملکی مداخلت خاص کر حزب اﷲ کی جانب سے ہو رہی ہے جب کہ سامراجی قوتیں اس وقت خاموش رہتی ہیں جب القاعدہ کے مضبوط اتحادی جبہت النعرہ، احرار الشام اور دیگر جہادیوں کو قطر اور سعودیہ مالی معاونت کرتے ہیں۔ وہ ترکی کے آمر کی مداخلت کی نشاندہی نہیں کرتے بلکہ خاموش رہتے ہیں جو کہ نیٹو کا اتحادی رکن بھی ہے۔ یہ سچ ہے کہ بشار حکومت نے ماسکو اور تہران سے مدد مانگی ہے اور حزب اﷲ کے لڑاکے دھڑے بھی ملوث ہیں۔
دہائیوں سے مشرق وسطیٰ میں شام روس کا اتحادی ہے۔ چونکہ ان دونوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں اس لیے وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ بی بی سی نے نشاندہی کی ہے کہ برطانیہ اور فرانس کو اس جنگ میں نہیں جانا چاہیے۔ اس کا کہنا ہے کہ مغرب مخالف بشار حکومت کے خاتمے پر جہادی اور سلفی قوتیں شام کو ایک نئے افغانستان میں تبدیل کر سکتی ہیں۔ باغیوں کے ہاتھ سے ''کوژ'' نکلنے سے طاقت کا توازن بدل گیا ہے۔ اس سے اسد کو ایک نئی زندگی مل گئی۔ بدستور اقوام متحدہ مسئلے کا کوئی حل نکالنے سے قاصر ہے۔ ادھر سی آئی اے باغیوں کو اسلحے کی ترسیل کے ساتھ ساتھ انھیں اسلحے کے استعمال کی ترغیب بھی دے رہا ہے۔ ان کا تربیتی اڈہ اردن میں ہے۔ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے گروپوں کی بھی سی آئی اے حمایت کر رہا ہے۔
صدر پوتن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مغربی حکومتیں انھی دہشت گرد گروہوں کو شام میں مسلح کر رہی ہیں جو افغانستان اور مالی میں لڑ رہے ہیں۔ جب کہ روس پہلے ہی یہ کہہ چکا ہے کہ اسد حکومت کے خلاف امریکی الزام من گھڑت ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا نے صدام حسین پر بھی کیمیائی ہتھیار کے استعمال کا جھوٹا الزام لگایا تھا۔ روس باغیوں کو امریکا کی جانب سے جدید اسلحے کی ترسیل پر شدید ردعمل کر رہا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے امریکی حکومت کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن باغیوں کو ٹینک شکن اسلحہ دے سکتا ہے، جب کہ باغی اینٹی ایئرکرافٹ اسلحے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
شروع میں شام میں انقلابی تحریک ابھری جسے عوام کی ہمہ گیر حمایت حاصل تھی۔ اگر وہ تحریک عوام کے حقیقی انقلابی پروگرام کے ساتھ مسلح ہوتی تو وہ تمام گروہ انقلابیوں سے آ ملتے جو خوف کی وجہ سے بشار حکومت کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں۔ بہرحال انقلاب کی درست سمت نہ ہونے کی وجہ سے تحریک رجعتی قوتوں کے ہاتھوں اغوا ہو گئی اور یہ فرقہ وارانہ سمت پر چل پڑی۔ امریکی اتحادی قطر اور سعودیہ باغیوں کو اسلحہ اور کرایے کے قاتلوں کے لیے رقوم بے دریغ انڈیل رہے ہیں۔ ان کا مقصد باغیوں کی قطعی مدد کرنا نہیں تھا جو کہ تبدیلی کے لیے لڑ رہے تھے بلکہ انھیں انقلابی عناصر کو کچلنا تھا اور اسے خانہ جنگی میں تبدیل کر کے فرقہ وارانہ رخ پر ڈالنا تھا۔ انقلابی اور عوامی ردعمل کے خلاف ریاض اور دوحہ، جہادی اور سلفیوں کو اربوں ڈالر پانی کی طرح بہا رہے ہیں۔ قطری اور سعودی فرقہ پرست، فرقہ واریت کو لبنان تک پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس فرقہ واریت کی آگ عراق اور پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ یہ عمل رجعتی قوتوں کو تقویت پہنچائے گی جو کہ مصر، تیونس اور خطے کی انقلابی قوتوں کو کمزور کرنے کا باعث بنے گا۔
یہ ترکی میں ابھرنے والی انقلابی طاقتوں پر بھی اثرانداز ہو گی۔ اس عمل سے اسرائیل کو حوصلہ ملے گا کہ وہ ایران پر حملہ کر دے۔ یہ صورت حال عراق، افغانستان اور لیبیا جیسی ہو گی۔ شام کے عوام واشنگٹن، لندن اور پیرس جیسی نام نہاد جمہوریت کو نہیں اپنا سکتے جو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ لیبا میں کیا ہوا؟ سامراجیوں نے لیبیا میں مداخلت کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے میڈیا میں رونا گانا شروع کیا کہ دیکھو بن غازی میں قذافی کتنا ظلم ڈھا رہا ہے۔ اس آڑ میں نو فلائی زون قرار دے کر لیبیا کی فوج پر نیٹو افواج نے بمباری کی اور باغیوں کو حملہ آور ہونے کا موقع فراہم کیا۔ شام کی طرح لیبیا میں بھی مصر اور تیونس کی انقلابی جدوجہد سے متاثر ہوکر انقلابی نوجوان سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ لیکن بعد میں اس جدوجہد کو غلط راستے پر موڑ دیا گیا تھا۔ یہ دنیا کا پہلا موقع نہیں ہے کہ انقلاب شکست سے دوچار ہوا بلکہ 1905ء میں روس میں بھی ایسا ہوا تھا۔ مگر 12 سال بعد اسی روس میں انقلابی تیاریوں کے بعد کامیاب انقلاب برپا ہوا۔ سچ یہ ہے کہ جہادی اور سامراجی شام کو تہس نہس کر رہے ہیں جب کہ عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ جمہوریت اور آمریت کی لڑائی ہے۔
ترکی میں انقلاب کی شروعات ہو رہی ہے۔ ایران میں حکمرانوں کے خلاف ہر قسم کی کوششوں میں عوام لگے ہوئے ہیں۔ مصر اور تیونس میں مزدور اور انقلابی نوجوان اخوان المسلمون اور النہدا رجعتیوں کے خلاف اپنی طاقت کا اظہار کر رہے ہیں۔ شاندار عرب انقلاب شروع ہو چکا ہے مگر یہ ختم نہیں ہوا ہے۔ امریکی سامراج اس سیارے میں سب سے زیادہ رد انقلابی طاقت ہے۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس کے عوام جنگ کے خلاف ہیں۔ عراق میں مداخلت سے قبل وہ کتنا جھوٹ بولے تھے، اب اس بار اس کے متحمل نہیں ہو پا رہے ہیں۔ امریکا اور یورپ کمیونسٹوں، انارکسسٹوں اور انقلابیوں کو اپنا فریضہ نبھانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ عوام کو مشرق وسطیٰ میں ہر قسم کی نئی سامراجی مداخلت کی بھرپور مخالفت کرنی ہو گی۔ عوام کے فرائض شفاف ہیں۔ انھیں اپنے سرمایہ داروں سے لڑنا ہے۔ ان کا فوری فریضہ یہ ہے کہ وہ جھوٹے سامراجی پروپیگنڈے کو بے نقاب کریں۔ وقت بہت جلد آنے والا ہے کہ شام سمیت مشرق وسطیٰ کے ملکوں کی سرحدیں اکھڑ جائیں گی اور امداد باہمی کا معاشرہ قائم ہو گا۔ جہاں ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہو گا۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔