سائنس سے اتنااجتناب کیوں
سوال یہ ہے کہ کیایہ بات اَزحدتشویش ناک نہیں ہے کہ مسلمان دنیا،سائنس کے میدان میںصفرہے
MULTAN:
مسلمان ممالک میں ایک ہزارانسانوں میں صرف نو لوگ سائنس،انجینئرنگ اوردیگرسائنسی علوم کی طرف آتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح حددرجہ مختلف ہے۔ وہاں ہزارمیں سے اکتالیس لوگ سائنس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناتے ہیں۔مسلمان ممالک میں یونیورسٹیوں کی تعداد دیکھیں توکافی لگتی ہے۔تقریباًاٹھارہ سویونیورسٹیاں ہیں۔
مگریہ جان کرعجیب سالگتاہے کہ صرف تین سوبارہ یونیورسٹیاں ایسی ہیں، جہاں کے اساتذہ اورسائنسدان کسی بھی سطح کاتحقیقی کام چھاپنے کی پوزیشن میں ہیں۔یعنی تقریباًپندرہ سودرسگاہیں ایسی ہیں جہاں بین الاقوامی سطح کاکوئی کام نہیں ہو رہا۔ ان یونیورسٹیوں کاہونایانہ ہونابالکل برابرہے۔ان تعلیمی درسگا ہوں کی جغرافیائی تقسیم بھی حددرجہ حیرت انگیز ہے۔ ان میں سے پچاس سب سے زیادہ محققین پیداکرنے والی یونیورسٹیوں کی ترتیب میں، ترکی میں چھبیس اورپاکستان میں دوہیں۔یعنی اگرتین سوبارہ یونیورسٹیوں کوبھی تحقیق کی نظرسے دیکھاجائے توہمارے ملک میں بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والی درسگاہیں نہ ہونے کے برابرہیں۔
محیرالعقول بات یہ بھی ہے کہ تقریباًپونے دوارب مسلمانوں کے پاس سائنس کے نوبل پرائزصرف اورصرف دوہیں۔ایک فزکس اورایک کیمسٹری میں۔فزکس کے نوبل پرائزکواگراس فہرست سے نکال دیاجائے تویہ نوبل پرائز صرف ایک رہ جاتاہے۔چھیالیس مسلمان ممالک میں جو سائنسی لٹریچر(Literature)شایع ہوتاہے،وہ پوری دنیا کا صرف ایک فیصدہے۔ وسائل کے حساب سے دیکھیں تو عرب دنیاخصوصاًمشرق وسطیٰ تیل کی بدولت بے حد امیر ہے لیکن پورامشرقِ وسطیٰ دنیاکی آبادی کاپانچ فیصدہونے کے باوجودصرف ایک فیصدسائنسی کتابیں چھاپنے کی استطاعت رکھتاہے۔
ان کے حکمران دنیاکے بیش قیمت ہوائی جہازوں، گاڑیوں اورمحلات کے مالک ہیں۔پُرتعیش بحری جہازوں میں چھٹیاں گزارتے ہیں۔مگرسائنسی تحقیق پر خرچنے کے لیے ان کے پاس ایک ٹکہ بھی نہیں ہے۔تحقیق سے دور بھاگتے ہوئے ان لوگوں نے اگرکچھ کام کرنے کی بزدلانہ کوشش کی ہے توصرف اونٹوں کی افزائش اورکھارے پانی کو پینے کے قابل بنانے کے شعبوں میں ہیں۔نوبل انعام یافتہ سٹیون وینبرگ(Steven Weinberg) نے بے حدتلخ بات کہی ہے۔''مغرب میں بے حدذہین مسلمان سائنسدان کام کرتے نظرآتے ہیں۔مگرمسلمان ممالک سے آج تک مجھے ایک بھی قابل ذکرسائنسی مقالہ پڑھنے کونہیں ملا''۔ میں سات صدیوں پہلے کی بات نہیں کررہا۔موجودہ وقت کے متعلق گزارشات پیش کررہا ہوں۔
سوال یہ ہے کہ کیایہ بات اَزحدتشویش ناک نہیں ہے کہ مسلمان دنیا،سائنس کے میدان میںصفرہے۔یہاں کسی کے پاس تحقیق کے لیے سرمایہ نہیں ،وقت نہیں ہے اور سب سے بڑی بات،کوئی سائنسدان بننے کے لیے تیارنہیں ہے۔ ہماری درسگاہوں کے اساتذہ کی طرف دیکھیے۔ اکثریت کو جب زندگی کے ہر شعبے میں ناکامی کامنہ دیکھنا پڑتا ہے، تو مجبوری میں پڑھاناشروع کردیتاہے۔اکثریت کی بات کررہا ہوں۔لازم ہے کہ ایسی بھی محنتی اقلیت موجود ہے جوبلندسطح کاتدریسی کام کرناچاہتی ہے۔مگران کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔یہ سب کچھ انتہائی خطرناک رجحان ہے۔کم ازکم میری سمجھ سے تو باہرہے کہ ہم سائنسی میدان میں اتناپیچھے رہ کرترقی کی شاہراہ پرسفرکیسے شروع کرسکتے ہیں۔ مگر سکے کاایک اور رخ بھی ہے۔چلیے،اپنے ملک سے شروع کرلیتے ہیں۔
یہاں اب ہرشہرمیں یونیورسٹیاں اورسب کیمپس کام کرتے نظرآئینگے۔گورنمنٹ کی یونیورسٹیاں بھی بلندوبانگ دعوے کرتی سنائی دینگی۔سوال تویہ ہے کہ یہ اگربین الاقوامی سطح کی سائنسی تحقیق نہیں کر رہیں، تو کیا رہی ہیں۔تلخ جواب ہے۔یہ صرف طلباء کی جیب سے پیسے کھینچنے میں مصروف ہیں۔اس کے علاوہ انکاکوئی کام نہیں ہے۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے مالکان کی اکثریت تعلیمی تاجر ہیں جوصرف پیسہ کمانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں کیاہورہاہے۔اس پستی کااندازہ لگاناحددرجہ مشکل ہے۔
غیرسائنسی علوم سے کوئی عداوت نہیں۔مگرکیایہ ضروری ہے کہ ہم بیروزگاروں کی فہرست کو بڑھاوادینے کے لیے لسانیات اورمینجمنٹ جیسے مضامین پر زور دیتے رہیں۔ کورے طلباء،کورے اساتذہ اورپھرحددرجہ ادنیٰ روزگار۔ لاہورمیں ایسے لاکھوں ایم بی اے ہیں جوبیس سے تیس ہزار ماہانہ پرکام کررہے ہیں۔ہزاروں آئی ٹی ایکسپرٹ ہیں جودس بیس ہزارماہانہ کمانے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ اردو، فارسی، عربی،پنجابی کے اساتذہ تودس سے بارہ ہزارماہانہ میںکثرت سے نظرآتے ہیں۔قطعاًغیرسائنسی مضامین کے خلاف نہیں ہوں۔مگرہرسال،ہزاروں یالاکھوں نوجوان بچے اور بچیاں، غیرمعیاری یونیورسٹیوں میں غیرمعیاری تعلیم حاصل کرکے پوری زندگیاںتلخی میں گزاردیتے ہیں۔ویسے ہماری مقامی یونیورسٹیوں نے سائنسی علوم پربھی خوب ہاتھ صاف کیا ہے۔آپکوفزکس،کیمسٹری،حساب کے فارغ التحصیل طلباء ملیں گے جوساری عمرجوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ آگے عرض نہیں کرناچاہتاکیونکہ معاملات حددرجہ تلخ ہیں۔
اس سنجیدہ سوال کاکیاجواب ہوسکتاہے کہ پوری مسلمان دنیا،معیاری سائنسی تحقیق وتعلیم سے کیوں دور ہے۔ ہو سکتاہے کہ وسائل کی کمی ہو۔مگرمشرقِ وسطیٰ میں تووسائل کی کوئی کمی نہیں۔وہاں کیوں بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹیاں نہیں ہیں۔قدآوراساتذہ نہیں ہیں۔طلباء نہیں ہیں جو سائنس کی دنیامیں قیامت برپاکردیں۔وسائل توہمارے جیسے ملکوں کا مسئلہ ہے۔کیونکہ ہم عقلی،علمی اور جائزدولت کے لحاظ سے فارغ ہیں۔یہاں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ،نئے سرکاری ہوائی جہازخریدنے میں تودیرنہیں لگاتے مگرایک تحقیقی ادارے کو پیسے دیتے ہوئے ان کی جان نکلتی ہے۔ مختلف وزراء اعلیٰ کے ساتھ کام کرچکاہوں۔ایک بھی ایسا ''مرددرویش''نظرنہیں آیا جو سائنسی علوم کی طرف توجہ رکھتا ہو۔ہاں،اپنے اورآل اولادکامعاشی مستقبل سنوارنے میں حددرجہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
چلیے،وسائل کے مسئلہ سے آگے نکلتے ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ پوری مسلم دنیا''آزادتحقیقی رویہ''سے خوف زدہ ہے۔ الجزائرسے لے کرسعودی عرب تک،پاکستان سے لے کر ملائیشیا تک، ہمارا سماج، سوسائٹی یانظام،''آزاد سوچ''کو خطرناک سمجھتاہے۔اسے انگریزی میںFree Sense of Inquiryکہاجاتاہے۔مسلم ممالک میں سنجیدگی سے نئی بات سوچنے پرمکمل پابندی ہے۔یہ پابندی لکھی ہوئی نہیں ہے مگریہ اَن دیکھی پابندی،ہمارے جینزتک کو متاثر کرچکی ہے۔ تقلید، تقلید اورصرف گھسی پیٹی باتوں پرسرِتسلیم خم کرنا کہنا ہماراشعوری اورلاشعوری رویہ بن چکاہے۔ہمیں نئی جہتوں میں سوچتے ہوئے بھی اب ڈرلگتاہے۔مغرب میں باقاعدہ رہنے کااتفاق تونہیں ہے۔مگرآنے جانے کا حد درجہ اتفاق ہواہے۔وہاں کی درسگاہوں میں آپ آزاد طور پرہربات کر سکتے ہیں۔ویسے اب یہ محسوس ہورہاہے کہ وہاں بھی شدت پسندی جڑپکڑرہی ہے۔
مگر یونیورسٹیوں کی حدتک علمی اور سماجی تعصب کافی حدتک کم ہے۔اپنے ملک کی بات کرنا زیادہ مناسب ہے۔کیونکہ بہرحال ہم نے رہنایہاں ہے اورمرنایہاں ہے۔ہمارے نظام میں نئی بات کہنے والے،نئی بات سوچنے والے کی سزاصرف اورصرف موت ہے۔ جب کہ سائنس کی دنیاتوشروع ہی ہرکلیے کی نفی سے ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں توسوال کرنے کی گنجائش موجود ہی نہیں تونہ ماننے والی سطح پرکیابات ہوسکتی ہے۔تاریخی شعوریہ سمجھاتا ہے کہ آزادسوچ سات صدیاں پہلے صرف مسلمانوں میں تھی۔بالخصوص بغداداورقرطبہ میں اپنے زمانے کے بہترین دماغ صرف اس لیے اکٹھے ہوئے کہ تحقیق نئی سوچ پر قدغن نہیں تھی۔ویسے قدغن کالفظ استعمال کرنامناسب نہیں ہے۔
مسلمان معاشروں میں سوچ کو بڑھاوادینے والاماحول حکومتی سطح پر مہیا کیا گیاتھا۔فکری بلندی کااندازہ لگائیے کہ مسلمان خلفاء بغدادمیں بذاتِ خودیونانی سے کتابوں کوعربی میں ترجمہ کرنے کی جدوجہد کرتے رہتے۔ہارون رشید اور مامون رشیداپنی حیثیت میں خود مترجم تھے۔اس خاندان نے دنیاکی سب سے بڑی لائبریری قائم کی تھی۔ جسکا نام ''خزانہ تالحکماء'' تھا۔ بعدازاںمزیدکشادگی دیکر اس کوتحقیق کا بہت بڑا ادارہ بنا دیا گیاتھا۔اسکانام''بیت الحکماء'' رکھا گیا تھا۔پوری دنیاسے سائنسدان،علماء اور دانشور بغداد میں اکٹھے کردیے گئے تھے۔
ہمارے مسلمان ممالک میں اتنی بھی تحقیقی آزادی نہیں،جتنی سیکڑوں برس پہلے بغداداورقرطبہ میں تھی۔ جو عنصرمسلمانوں کی جدیدت اورترقی کاضامن تھا،آج اکیسویں صدی میں ہمارے جیسے ممالک میں اسے مذہب دشمنی، سیکولرازم اورکسی حدتک لادینیت سمجھاجاتاہے۔آج کسی بھی تقلیدی نظریہ کی دلیل کی بنیادپرمخالفت کریں، آپکو قتل کی دھمکیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ پاکستان، ایران اور سعودی عرب میں رویہ غالب ہے۔ تحقیقی رویہ یا آزاد سوچ تو دور کی بات،ہمارے جیسے معاشروں میں تو سائنسی علوم کو دلچسپی سے پڑھنے والے لوگ کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے لگتاہے کہ ہم لوگ سائنس کو مغرب کامنفی ہتھیار سمجھتے ہیں۔اس کواپنے معاشروں میں مشکلات پید اکرنے کی سبیل گردانتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ہم تمام لوگ سائنس سے دوربھاگتے ہیں۔ جدیدعلم کی روشنی شایدہمیں نابینا کر دے؟